سرزمینِ شام کی طویل تاریخ ہے۔جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے اس کے مغرب میں بحیرۂ روم، شمال میں تُرکیہ، مشرق اور جنوب مشرق میں عراق، جنوب میں اُردن اور جنوب مغرب میں اسرائیل ہیں۔
مختلف ادوار میں اس پر سومیریوں، ہیٹیوں، کنعانیوں، بابلیوں، مصریوں، فونیقیوں، آرمینیوں، اموریتیوں، ایرانیوں، یونانیوں اور بازنطینی رومیوں کی حکومت رہی۔ شام کی قدیم تاریخ چھوڑ کر اُس مُلک کی بات کریں، جسے امیر المؤمنین، حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں636 عیسوی میں فتح کیا گیا اور وہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔
دمشق اُموی عہد سے لے کر آج تک مُلک کا دارالحکومت ہے۔ یہاں ایک عظیمُ الشّان مسجد، جامع اُموی اُسی طرح جلوہ گر ہے، جیسے اندلس میں مسجدِ قرطبہ وہاں اموی عہد کا نقشِ عظیم ہے۔یہ مُلک اِمام ابنِ تیمیہؒ، اِمام قیّمؒ، اِمام ابنِ کثیرؒ کی یاد دِلاتا ہے۔ اس سے عظیم سیرت نگار، اِمام محمّد بن یوسف الصّالحی الشّامی ؒ کے علاوہ سیکڑوں اہلِ علم کی یادیں وابستہ ہیں۔
بیسویں صدی کے تیسرے، چوتھے عشرے میں عرب دنیا(مصر)میں مصطفیٰ صادق الرّافعی اور عباس محمود عقاد سمیت وقت کے سب سے بڑے ادیبوں میں جو ادبی معرکے برپا تھے، اُن میں ایک طرف مصطفیٰ صادق الرّافعی تھے، جو اپنے اسلوبِ نگارش کی بنیاد پر پچھلی صدی کے ’’جاحظ‘‘ کہلاتے تھے۔
الرّافعی ؒ کے لشکر کے سب سے بڑے’’تیغ زن‘‘ محمّد علی طنطاوی تھے، جن کے اندازِ تحریر سے اپنے ادبی استاد ہی کا سحر انگیز رنگ جھلکتا ہے۔ شیخ علی طنطاوی، جنہوں نے ایک ادیب کے علاوہ ایک عظیم داعی اور مبلّغ کی شہرت بھی پائی، شام ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان معرکوں میں سیّد قطبؒ، عقاد کے ادبی لشکر کے نام وَر تیغ زن تھے۔
شام، پہلی عالمی جنگ کے بعد سے آج تک، کم و بیش ایک سو سال سے بغاوتوں، شورشوں اور عدم استحکام کا شکار چلا آ رہا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ، دو بلاکس میں تقسیم ہوگئی تھی۔ شام میں1917ء کے بالشویک انقلاب کے ساتھ ہی دو لہریں ساتھ ساتھ بہنے لگی تھیں۔ایک طرف پہلی عالمی جنگ کے بعد عثمانی خلافت کے جو حصّے بخرے کیے گئے، اُن ہی کی طرح شام میں بھی مسلم اُمّت کے مقابلے میں عرب قومیت کے بیج بوئے گئے۔
بیروت کی امریکن یونی ورسٹی نے عرب قوم پرستانہ جذبات کی آب یاری میں خاص کردار ادا کیا۔بیروت، شام ہی کا حصّہ تھا، اِس لیے شام کے عیسائیوں اور مسلمانوں میں عرب’’نیشنل ازم‘‘کو فروغ ملا۔ دوسری لہر روس کے تابع اشتراکیت کی تھی۔شام کی سیاست پر اشتراکیت کے گہرے اثرات بھی گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے کے شروع ہی میں ظاہر ہونے لگے تھے۔
شریف حسین، شریفِ مکّہ عثمانی خلافت کے خلاف برطانیہ کا آلۂ کار بنا اور حجاز کے علاوہ شام اور عراق دونوں پر اپنے بیٹے، فیصل بن حسین کی بادشاہت کے بدلے برطانیہ سے سودے بازی کر لی۔ 25جولائی 1920ء کوفرانس کے فوجی دستے شام میں داخل ہوئے اور شاہ فیصل حسین کو معزول کر دیا۔
اُس وقت وجود میں آنے والی عالمی تنظیم’’لیگ آف نیشنز‘‘نے قطعی طور پر غیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر’’ French Mandate for Syria and Lebanon ‘‘کے نام سے فرانس کو شام اور لبنان پر جوازِ انتداب بخش دیا۔ فرانس نے دمشق اور حلب کو دو الگ ریاستیں بنا دیا اور ساحلی علاقوں میں دروز اور علوی آبادی کو اُن کی جداگانہ شناخت فراہم کی۔یوں، گویا شام میں نسلی اور مذہبی فرقہ وارانہ شجرکاری کر دی گئی۔نسلی تکثیریت شام میں شروع ہی سے چلی آ رہی ہے۔
عرب، کُرد، فلسطینی، آرمینیائی، سرساسین، یونانی، اشوری اور ترکمان سب نسلیں اس کی آبادی کا حصّہ ہیں۔ مذہبی عقائد کے لحاظ سے اس کی ستّر فی صد آبادی سنّی ہے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کا عُنصر بھی موجود ہے۔ساحلی علاقوں میں تیرہ فی صد نُصیری علوی شیعہ اور دروز ہیں۔ کُرد قوم ترکیہ، عراق، شام اور کچھ ایران میں بٹی ہوئی ہے۔تُرکیہ کی سرحد سے صرف پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر شام کے دوسرے سب سے بڑے تاریخی شہر، حلب میں کُردوں کی اکثریت ہے۔
شامیوں نے فرانسیسی تسلّط قبول نہیں کیا تھا اور گاہے گاہے اُس کے خلاف شورشیں برپا ہوتی رہیں۔تاہم، فرانس سے آزادی کے بعد شام میں فوجی انقلابات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا اور فرانس کے جبر سے کہیں زیادہ خوف ناک ظالمانہ نظام قائم ہو گیا۔
دراصل، شام کی فوج میں شروع ہی سے مختلف سوشلسٹ اور انتہا پسند قوم پرست گروہ پیدا ہو گئے تھے، جن میں کشمکش جاری تھی، جسے بیرونی قوّتیں، خاص طور پر سی آئی اے اور روس کی کے بی جی ہوا دیتی تھیں۔1946ء سے 1956ء تک شام میں بیس مختلف وزارتی کابینہ بنیں اور چار مختلف دستوری مسوّدے تیار ہوئے، جنہیں داخلی فوجی آویزشیں تار تار کرتی رہیں۔
فوجی بغاوتوں کا یہ سلسلہ چیف آف اسٹاف بریگیڈیئر جنرل حُسنی زعیم سے دسمبر 1949ء میں شروع ہوا، جس نے سویلین حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ 1949ء کے انقلاب میں سمی حناوی اور کرنل ادیب ششکالی، بریگیڈیئر جنرل حُسنی زعیم کے دستِ راست تھے۔1951ء میں ششکالی اپنے باس کے خلاف بغاوت کرکے اقتدار پر قابض ہو گیا اور ایک سخت گیر فوجی نظام نافذ کر دیا اور وہ 1954ء تک مُلک پر مسلّط رہا۔ 1956ء میں شام، روس کے ساتھ باضابطہ معاہدہ کر کے اتحادی بن گیا۔ پانچواں انقلاب فروری1954 ء میں برپا ہوا، جو ادیب ششکالی کے سقوط پر منتج ہوا۔
یکم فروری 1958 ء کو شام اور مصر کا’’ متحدہ عرب ری پبلک‘‘ کے نام سے انضمام ہوا، جس میں بعد میں عراق بھی شامل ہوا، لیکن یہ اتحاد زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔1961ء میں ایک اور فوجی بغاوت ہوئی۔اُس وقت تک بائیں بازو کے سوشلسٹ فوجی افسر اپنا اثر گہرا اور گرفت مضبوط کر چُکے تھے۔ 1963ء سے 1966ء تک درمیان میں انقلاب کی کوششیں ہوئیں اور آخر میں ایئرفورس جنرل، حافظ الاسد کی قیادت میں مکمل عسکری نظام نافذ ہو گیا اور یوں ایک طویل سفّاکانہ عہد کا آغاز ہوا۔
حافظ الاسد، محمّد عمران، صلاح حدیدتین علوی اور دو اسماعیلی عبدالکریم الجندی اور احمد المیر کا بدترین گروہ شامی عوام کے سَروں پر مسلّط ہو گیا، جنہیں’’علوی افسران کے گروہ‘‘ کے نام سے شہرت حاصل تھی۔ حافظ الاسد نے اکتوبر1970ء میں اپنے اِن ساتھیوں کو بھی کنارے لگا دیا اور بلاشرکتِ غیرے 10جنوی 2000 کو اپنا قاہرانہ تسلّط اپنے بیٹے بشارالاسد کو سونپ کر دنیا سے رخصت ہوا۔
حافظ الاسد نے بعث ازم کو ایک ٹھوس بنیاد فراہم کر دی تھی۔ انطاکیائی آرتھوڈکس چرچ کے پیروکار، مائیکل افلاق نے اس پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے ساتھ صلاح بیطار بھی شامل تھا،جوعلوی شیعہ تھا اوربعث ازم کے اصل نظریاتی امام، ذکی الارسوزی (Zaki al-Arsuzi)کا پیروکار تھا۔
ذکی الاسوزی پر کارل مارکس کے کمیونسٹ نظریات کے گہرے نقوش تھے۔ شام کی علاقائی بعث پارٹی کے علاوہ گویا’’بعث ازم‘‘ اور بعث پارٹی کی اس تعمیر میں ایک بہت بڑی فکری تخریب شامل تھی۔ مائیکل افلاق ہی نے عرب بعث موومنٹ اور عرب سوشلسٹ موومنٹ جاری کیں۔
حافظ الاسد کی’’اصلاحی تحریک‘‘
بعث پارٹی کے اوّلین انتہا پسند سوشلسٹ نظریات کے حامل افراد میں جنرل صلاح جدید جیسے بااثرلوگوں کو معلوم تھا کہ حافظ الاسد کا تعلق نُصیری علوی فرقے سے ہے۔اِس فرقے کے لوگ باقی سب کچھ چھوڑ سکتے ہیں، لیکن اپنا عقیدہ تَرک نہیں کرتے۔ اِس فرقے سے متعلق اِمام ابن تیمیہؒ کا فتویٰ ہے کہ عقائد کے لحاظ سے یہ فرقہ خود کو شیعہ ظاہر کرتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ یہود اور نصاریٰ سے بدتر ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا معبود مانتا ہے۔اِس لحاظ سے اس کا ایمان اللہ تعالیٰ کی اِلُوہیت پر ہے، نہ حضرت محمّد ﷺ کی رسالت پر اور نہ ہی قرآن کے کتابِ ہدایت ہونے پر۔نیز، اس فرقے کے عقائد آخرت، حساب کتاب،ثواب و عذاب اور جنّت و دوزخ کے حوالے سے عام مسلمانوں سے نہیں ملتے۔
بہرحال، جنرل صلاح جدید، حافظ الاسد اور اس کے چیف آف اسٹاف جنرل مصطفیٰ طلاس کو اُن کی عسکری پوزیشنز سے ہٹانا چاہتے تھے، لیکن حافظ الاسد بہت شاطر انسان تھا۔اُس نے 13نومبر1970ء کو’’اصلاحی تحریک‘‘ کے نام سے ایک سخت اِقدام کے طور پر اپنی پالیسیز کے مخالف اور خود پر تنقید کرنے والے اگلی صف کے تمام (یااکثر) مضبوط ارکان گرفتار کر لیے اور عملاً پارٹی کو یرغمال بنا کر بدترین قسم کی فسطائیت قائم کر لی۔اقتدار پر گرفت مضبوط کرتے ہی اُس نے ٹھان لی تھی کہ وہ’’سُلطانِ معظّم‘‘ بن کر شام میں’’علوی سلطنت‘‘ قائم کرے گا۔
1982ء کی خون ریزی
حافظ الاسد نے اپنی گرفت مضبوط اور مخالف نظریات و عقائد کے چراغ بُجھانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ اہم ترین عُہدوں پر چُن چُن کر نُصیری علوی افسر لگائے۔’’ری پبلکن گارڈز‘‘ کے نام سے سرکاری طور پر ایک دہشت گرد گروہ تیار کیا، جو لوگوں کو حکومت کی مخالفت کے بدترین نتائج سے ڈراتا اور سَرپھرے افراد کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے ہول ناک سزائیں دیتا۔حافظ الاسد ایک ایسے اقلیّتی فرقے سے تعلق رکھتا تھا، جس کے عقائد کی وجہ سے شام کے مسلمانوں کی اکثریت اسے مسلمان تسلیم نہیں کرتی تھی۔
نیز، بعث پارٹی کے اشتراکی نظریات کی وجہ سے بھی شام کے سُنّی عوام کے اندر سخت بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ پھر حافظ الاسد کے اقتدار میں آتے ہی بعث پارٹی کے رہنماؤں، کارکنان اور نُصیری علویوں نے اقربا پروری، رشوت اور لُوٹ مار کا بازار بھی گرم کر رکھا تھا۔ جو اختلافی آوازیں اُٹھتیں، اُنھیں دبانے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال کے علاوہ نُصیری علوی فرقے کی نیم سرکاری ملیشیا بھی تشکیل دی تھی۔
عقوبت خانوں اور ٹارچر سیلز میں مخالفین سے انسانیت سوز سلوک کیا جاتا۔اگرچہ اضطراب صرف’’حما‘‘ ہی میں نہیں تھا، دمشق، حلب، حمص جیسے بڑے شہر بھی اس کی لپیٹ میں آ چُکے تھے۔ تاہم، فرق یہ تھا کہ’’حما‘‘ اپنے مزاحمتی مزاج کی وجہ سے ایک خاص شناخت رکھتا تھا۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف بھی مزاحمت و مخالفت میں یہ شہر سب سے آگے تھا۔سلفی ہوں یا صوفی یا اِخوانی، یہاں سب کی دینی اور فکری جڑیں بہت گہری تھیں اور نُصیری نظامِ جبر کے خلاف شدید ردّ عمل کی زیرِ سطح لہریں 1970ء ہی سے اُبھر کر سامنے آ رہی تھیں۔
جو لاوا بارہ برسوں سے پَک رہا تھا، وہ1982ء میں پَھٹ پڑا۔’’اِخوان المسلمین‘‘ چوں کہ سب سے مقبول اور مضبوط جماعت تھی، اِس لیے ان مظاہروں میں وہ پیش پیش تھی۔اس شورش کو کچلنے کے لیے حافظ الاسد کے’’ قصاب‘‘ کا لقب پانے والے بھائی، رفعت الاسد نے مذاکرات اور افہام و تفہیم کی بجائے ایک ہول ناک فوجی آپریشن کو ترجیح دی اور اس کے دستے حما کے باسیوں پر ٹوٹ پڑے۔
خون آشامی اور بے رحمی کا ایسا بدترین کھیل کھیلا گیا، جس کی جدید تاریخ میں کسی اور مُلک میں مثال نہیں ملتی۔پہلے یہ حما شہر پر بیتی اور پھر حلب کے گلی کوچوں میں خون کی ندیاں بہیں اور اسی طرح انسانی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے، جیسے صلیبی جنگوں کے دَوران یروشلم میں ہوا تھا۔
حمص میں شہید ہونے والوں کی تعداد سرکاری طور پر دس ہزار بتائی گئی۔ برطانوی اخبار’’انڈیپنڈنٹ‘‘ کے مشرقِ وسطیٰ کے ماہر رپورٹر، رابرٹ فسک کے خیال میں بیس ہزار سے زیادہ اور شام، عرب ممالک کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازے کے مطابق تیس سے چالیس ہزار انسان، قصّاب رفعت الاسد کی درندگی کا شکار ہوئے۔
حافظ الاسد شام میں’’اموی‘‘ کے مقابلے میں’’علوی‘‘ سلطنت قائم کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا۔رفعت الاسد کے اپنے عزائم تھے کہ بھائی کے بعد وہ’’تخت نشین‘‘ ہو۔ حافظ الاسد تیس سال اقتدار پر قابض رہنے کے بعد10 جون 2000ء کو فوت ہوا۔ اس نے اپنے استبدادی وارث کے لیے اپنے بیٹے، باسل الاسد کو تیار کیا تھا، لیکن اُس کے ایک حادثے میں فوت ہو جانے کے بعد بشارالاسد کو فاشسٹ حُکم ران کی گدّی پر بٹھایا گیا، جس نے باپ جیسی سفّاکی کے ساتھ بیس سال حکومت کی۔
2011ء کی’’عرب بہار‘‘ نے یمن، مصر اور تیونس کے نظامِ جبر کی دیواریں ہلایں، تو بشارالاسد کے قصرِ اقتدار کی بنیادیں بھی ہِل گئی تھیں، لیکن روس اور ایران نے اُسے بچا لیا۔ لیکن بالآخر’’ہَیئَۃ تحریرُ الشّام‘‘ کے نام سے برپا ہونے والی تحریک کے زور دار ریلے اس کا اقتدار بہا لے گئے اور لاکھوں ہم وطنوں کو ہلاک اور بے گھر کرنے والا بشارالاسد فرار ہو کر روس میں پناہ گزیں ہوا۔