’’امریکہ کا سنہری دَور اب شروع ہو چکا ہے۔ آج سے ہمارا ملک خوشحال ہو گا اور دنیا بھر میں اس کا احترام کیا جائے گا۔ اب امریکہ سب سے پہلے ہوگا۔ اپنی خود مختاری واپس لیں گے۔ اپنا تحفظ بحال کریں گے۔ انصاف کے ترازو کا توازن پھر سے درست ہو گا۔ عدلیہ اور حکومت کا بدنیتی۔ جبر سے۔ ہتھیاروں جیسا استعمال اب ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔‘‘
ہم سب تو امریکہ کو سب سے زیادہ خوشحال اور طاقت ور سمجھتے ہیں۔ وہاں کا 47واں صدر یہ کیا کہہ رہا ہے۔ مزید سنئے۔
’’ امریکہ جلد ہی عظیم تر،مضبوط تر اور ایسا منفرد ہوگا کہ پہلے کبھی نہیں رہا ہوگا۔ میں صدارت میں واپس آرہا ہوں، ایک اعتماد ایک امید کے ساتھ۔ اب قومی کامرانیوں کے نئے پُر جوش دور کا آغاز ہے۔ تبدیلی کی لہر پورے ملک میں دوڑ رہی ہے۔ پورا عالم سورج کی روشنی سے تمتمارہا ہے۔ امریکہ کو ایک ایسے روشن امکان کو گرفت میں لینے کا موقع مل رہا ہے۔ اب ہم جس لمحے میں ،جہاں موجود ہیں ہماری حکومت کو اعتبار کا بحران درپیش ہے۔ سالہا سال سے اسٹیبلشمنٹ ہمارے شہریوں سے دولت اور طاقت اینٹھ رہی ہے، ہمارے معاشرے کے ستون ٹوٹ چکے ہیں، ضرورت ہے پوری تعمیر نو کی۔ اب ہماری حکومت ایسی تھی جو اندرون ملک معمولی سے بحران سی بھی نمٹ نہیں سکتی تھی۔ جبکہ سمندر پار مسلسل تباہ کن واقعات میں الجھ رہی تھی۔ یہ قانون پسند شہریوں کو تو تحفظ دینے میں ناکام رہتی تھی۔ لیکن خطرناک ملزموں کو جو دنیا کی مختلف جیلوں اور پاگل خانوں سے ہمارے ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوگئے۔ ان کو یہ حکومت پناہ گاہیں فراہم کرتی تھی۔ ‘‘
کیا امریکہ واقعی اب زوال سے نجات پائے گا یا پوری دنیا کو تشویش ہوگی کہ امریکہ اپنے معاملات بہتر کرنےکیلئے چھوٹی قوموں کو روندنا شروع نہ کردے۔
بالآخر دنیا میں 20 جنوری کا سورج طلوع ہوگیا ۔ عدالتوں سے سزا یافتہ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کے 47 ویں صدر کا حلف اٹھالیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر کوششوں اور سازشوں کے باوجود ٹرمپ اگلے انتہائی اہم 4سال کیلئےوائٹ ہائوس کے مکین بن گئے۔ ان کی حلف برداری کی تقریر سے یہ طویل اقتباس ان کے عزم، استقامت اور امریکہ کو عظیم تر بنانے کی بشارت دے رہا ہے۔ اب کے امریکی عوام نے انکی پُر جوش حمایت کی ہے گورے ایک نیا جذبہ محسوس کررہے ہیں۔ سفید فام امریکیوںکیلئے بہار آگئی ہے۔ لیکن کالوں اور گندمیوں پر کیا گزرے گی۔ امریکہ سے کتنے لاکھ غیر قانونی غیر ملکی نکالے جائینگے۔ دنیا بھر میں امریکہ کو جنت سمجھا جاتا ہے۔ اس جنت ارضی کیلئے لوگ کیسے کیسے غیر قانونی راستے اختیار کرکے مصائب برداشت کرکے پہنچتے ہیں۔ خاص طور پر پڑوسی ممالک کے باشندوں کیلئے بہت برا وقت آرہا ہے،پہلے امریکہ میں تارکین وطن کو دعوت قیام دیتا رہا ہے۔ اور اس بات پر فخر بھی کرتا رہا ہے کہ وسرے ملکوں، بر اعظموں اور سر زمینوں نے امریکہ کی تہذیب۔ معاشرت اور ادب کو مالا مال کیا ہے۔ لیکن اب گورے غیر ملکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خائف ہورہے ہیں تو وہ سب ٹرمپ سے امیدیں باندھ رہے ہیں۔ کہ وہ’’ امریکہ صرف سفید فاموں کیلئے‘‘ کی مہم چلائینگے اور کامیاب ہونگے۔
افتتاحی تقریب میں روحانیت کا غلبہ رہا۔ حلف ابراہیم لنکن کے زمانے کی ’انجیل‘ پراٹھایا گیا ۔ اپنی تقریر میں امریکی صدر نے بار بار کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امریکہ کو دوبارہ عظیم تر ملک بنانے پر مامور کیے گئے۔ ہم خدا کو فراموش نہیں کریں گے۔ ٹرمپ نے اپنی آمد کو Revolution of Common Sense قرار دیا ۔ عقل سلیم کا انقلاب۔ اور یہ بھی کہا کہ امریکہ کا زوال ختم ہوگیا ہے۔میرا مشاہدہ سوال کررہا ہے کہ کیا امریکہ چھوٹی قوموں پر ظلم کرتے ہوئے بھی خدا کو یاد کریگا۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں جو سیاسی، سماجی اور اقتصادی مرکزیت حاصل کرلی ہے اس کے بعد ہی واشنگٹن کو عالمی دارُالحکومت کہا جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اب دنیا بھر کے ممالک کی قسمت کے فیصلے وائٹ ہائوس میں ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں طے ہوتی ہے۔ کس ملک پر کب حملہ کرنا ہے، کس ملک کی فوج کو کمزور کرنا ہے،کس ملک میں مارشل لاء لگوانا ہے، یہ منصوبے پینٹاگون میں بنتے ہیں۔ پاکستان کی امریکہ کی محکومی کی تاریخ تو بہت قدیم ہے۔ یہاں تو 50کی دہائی میں وزیر اعظم امریکہ سے بھیجے گئے۔ ہم سیٹو اور سینٹو کے رکن بنے۔ کمیونزم کی یلغار روکنے میں پاکستانی خود بھی پُر جوش رہے۔ امریکہ نے بھی خوب استعمال کیا۔ لیکن جب مشکل وقت آیا تو امریکہ ہمیشہ نیوٹرل ہوتا رہا۔ 1965 ءکی جنگ ہو۔ 1971ءکے خطرناک اور خوفناک مہینے ہوں۔ امریکہ مدد کو نہیں آیا۔ ساتویں امریکی بحری بیڑے کا انتظار ہوتا رہا۔
50 ءاور 60ءکی دہائی میں فرانس اورپرتگال، برطانیہ سے آزاد ہوتے رہے۔ لیکن امریکہ کے غلام بنتے گئے۔ مشرق وسطیٰ میں ہمیشہ امریکہ نے اسرائیل کی پشت پناہی کی۔ لیکن سوویت یونین امریکی بلاک کی مزاحمت کرتا رہا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد امریکہ کو موقع مل گیا۔ مذہب کے حوالے سے پاکستان سعودی عرب اور دوسرے کئی اسلامی ملکوں سے مدد لی گئی۔ پاکستان نے بھی نعرے بازی کی کہ سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے ہم نے کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ۔ مشرق بعید میں جب امریکہ جارحیت کرتا تھا۔ تو سوویت یونین اور چین کی طرف سے زبردست جواب دیے جاتے تھے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے دیکھ لیں کہ 90 کی دہائی کے بعد فلسطین پر کس طرح مسلسل ظلم ہورہا ہے۔ کوئی ملک بھی اس کی مدد کو نہیں آیا ہے۔اب 2025میں نئے امریکی صدر کیا واقعی وہ خوش نما تبدیلیاں لاسکیں گے جن کا دعویٰ وہ کررہے ہیں۔ کیا اب امریکہ سے Invisible Government (خفیہ حکومت) کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کیا وہ اب Deep State کی سرپرستی میں نہیں رہے گا۔ ٹرمپ نے اپنی افتتاحی تقریر میں امریکہ کی صورت حالات کی جو تصویر کھینچی ہے پاکستان کے با شعور عوام بھی ایسی بشارتیں سننے کو ترس رہے ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا لیڈر آئے اور بھاری اکثریت کے ساتھ جو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہے کہ پاکستان کا زوال آج سے ختم ہو گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ملک میں بدعنوان، غیر نمائندہ حکمرانوں اور قانون شکنوں کو مسلط کیا،عدالتیں استعمال کی گئیں، گناہ گاروں کو بری کردیا گیا۔ بے گناہوں کو طویل سزائیں دی گئیں،ملک میں اب قانون کی حکمرانی سب کیلئے یکساں ہو گی۔‘‘ کیا ہم پاکستانی بھی پاکستان کو عظیم تر بنانے کیلئے میدان میں اتریں گے۔