کیا عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بے گناہ ہیں؟ القادر ٹرسٹ کیس میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے بعد نونہالان انقلاب کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کے قائد کو سیرت النبی ﷺ پڑھانے کیلئے یونیورسٹی بنانے پر 14سال قید کی سزا سنادی گئی۔وطن عزیز میں سیاستدانوں کو احتساب کی آڑ میں مشق ستم بنایا جاتا رہا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ حالیہ مہم بھی ایسی ہی ریشہ دوانیوں کے کسی نئے سلسلے کی کڑی ہو مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حقائق کو مسخ کردیا جائے۔ یہ تاویل بھی پیش کی جارہی ہے کہ برطانیہ سے آنیوالے 190 ملین پائونڈز حکومت پاکستان کے اکائونٹ میں آنے کے بجائے سپریم کورٹ کے کھاتے میں جمع ہو گئے تو کونسی قیامت آ گئی، عمران خان یہ پیسے گھر تو نہیں لے گیا، اسے تو ایک دھیلے کا فائدہ نہیں ہوا۔ کیا واقعی یہ اتنا سادہ اور سیدھا سا معاملہ ہے؟ ٹرائل کورٹ کے جج ناصر جاوید رانا سے متعلق اعتراضات کی حقیقت کیا ہے؟ آئیے چیستاں میں لپٹی پہیلی میں چھپے اس معمے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔محبان عمران کا پہلا دعویٰ یہ ہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی پہلے سے ہی تحقیقات کر رہی تھی اور تحریک انصاف کی حکومت کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر 19نومبر 2018ء کو وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر ایڈوکیٹ کی سربراہی میں کام کررہے ایسٹ ریکوری یونٹ (ARU)کی طرف سے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA)کو خط کیوں لکھا گیا کہ ون ہائیڈ پارک پلیس منی لانڈرنگ کے پیسے سے خریدی گئی ہے اس کی تحقیقات کی جائیں؟ اور پھر جب کارروائی ہوگئی تو مئی 2019ء میں ARUنے برطانوی حکام کو خط لکھ کر سب اچھا کی رپورٹ دیدی اور بتادیا کہ ہم نے اپنے معاملات طے کرلئے ہیں ،آپ بھی آئوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کر لیں۔ دسمبر 2019ء میں کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا، وزیر اعظم عمران خان کی اجازت پر نان ایجنڈا آئٹم کے تحت مرزا شہزاد اکبر نے ایک بند لفافہ پیش کیا اور اس کی منظوری لینے کی کوشش کی گئی۔ وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اعتراض کیا اور کہا کہ ہمیں پتہ تو ہونا چاہئے کہ کس چیز کی منظوری لی جا رہی ہے۔ کہا گیا کہ اس لفافے کو کھولنے سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔یوں 190ملین پائونڈ کی رقم جو حکومت پاکستان کے خزانے میں آنی تھی، سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع ہونے کی وجہ سے واپس اسی شخص کی جیب میں چلی گئی جس سے وصول کر کے پاکستان بھیجی گئی تھی۔ اس کی مثال ایسے ہی جیسے کسی شخص کو عدالت نے جرمانہ کیا ہو، اس دوران کسی اور مقدمہ میں مال مسروقہ پکڑا جائے تو متعلقہ پولیس افسر ملزم سے تعلق نباہتے ہوئے چوری کا مال عدالت میں جمع کروا دے تاکہ جرمانہ اداکیا جاسکے اور اس کے بدلے رشوت لیکر مسجد بنا دے۔ جب اسے سزا سنائی جائے تو کہے ،کیسے ظالم لوگ ہیں ،مسجد بنانے پر سزا سنادی حالانکہ مال مسروقہ مال خانے میں جمع نہیں ہوا تو کیا فرق پڑتا ہے، عدالت کے حوالے تو کیا گیا ہے، اپنے گھر تو نہیں لے گیا۔ آپ بیانیہ ضرور بنائیں، ہتھیلی پر سرسوں جمائیں، لیکن سیرت النبی ﷺکو درمیان میں نہ لائیں، مذہب کارڈ کھیلنے سے گریز کریں۔ اگر عمران خان نے واقعی عبدالقادر جیلانی کے نام سے یونیورسٹی بنانی ہوتی تو بطور وزیراعظم ان کیلئے کیا دِقت تھی؟ ٹرسٹ کے جھمیلے میں پڑنے اور کسی کاروباری شخصیت سے زمین حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ویسے بھی انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آ کر گورنر ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیں گے تو پنجاب یا پھر خیبرپختونخوا کے گورنر ہائوس میں القادر یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کر دیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ 190ملین پائونڈ کی اس واردات کے عوض انہوں نے جلسوں کے اخراجات کے علاوہ کئی طرح کے مالی فوائد سمیٹے، سوہاوہ ہی نہیں موہڑہ نور اسلام آباد میں 240کینال اراضی حاصل کی گئی، ہیرے کی انگوٹھیاں اور نجانے کیا کچھ حاصل کیا گیا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر کسی قسم کی کوئی ساز باز نہیں تھی، سہولت کاری نہیں کی گئی تو پھر عمران خان اور ان کی اہلیہ پر عنایات و مہربانیوں کا سبب کیا تھا؟اب آتے ہیں ٹرائل کورٹ کے جج ناصر جاوید رانا پر اُٹھائے جا رہے اعتراضات کی طرف۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حبیب وہاب الخیری کو پولیس نے گرفتار کیا، انہیں عدالت میں پیش کیے بغیر ہی جج ناصر جاوید رانا سے جسمانی ریمانڈ لے لیا گیا۔ سینئر صحافی آصف بشیر چوہدری۔ جو آج کل جیو نیوز میں ہیں، نے اس واقعہ کو رپورٹ کیا تو چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا اور جج ناصر جاوید رانا کو کسی عدالتی منصب کیلئے ناموزوں قرار دے دیا۔ بعد ازاں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس چوہدری افتخار حسین نے انکوائری کے بعد انہیں کلین چٹ دیدی۔ سوال یہ ہے کہ اگر بانی تحریک انصاف کو جج صاحب کے ماضی پر کسی قسم کا کوئی اعتراض تھا تو مقدمہ کی سماعت شروع ہوتے ہی یہ نکتہ اُٹھایا جاتا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیوز لیک ہوئیں تو انہیں برطرف کر دیا گیا مگر ان کا دیا ہوا فیصلہ برقرار رہا اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کے بعد نواز شریف کو سنائی گئی سزا ختم ہوئی۔ القادر ٹرسٹ کیس میں سنائی گئی سزا کا معاملہ بھی ہائیکورٹ میں ہی طے ہو گا۔ ممکن ہے قانونی موشگافیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عمران خان کسی مرحلے پر اس مقدمے سے بری ہو جائیں مگر یہ الزامات کبھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ کیونکہ بدعنوانی کی اس عجیب و غریب واردات سے یہ حقیقت اب عیاں ہو گئی ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ نونہالان انقلاب سخت مضطرب ہیں اور سمجھ نہیں پارہے کہ اس چوری کا دفاع کیسے کریں اور ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ کم بخت ٹرمپ نے بھی اپنی تقریر میں کپتان کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا۔