• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمد الیاس عطار قادری

مختلف روایات سے پتا چلتا ہے کہ جب رجب المرجّب کا مہینہ آتا تو حضور نبی کریم ﷺ یہ دُعا پڑھتے : ’’اَللّٰھْمَّ بَارِک لَنَا فِی رَجَبٍ وَّشَعبَانَ وَبَلِّغنَا رَمَضَان‘‘۔ یعنی ’’اے اللہ عزوجل! تو ہمارے لئے رَجب اور شعبان میں برکتیں عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا۔ (اَلمعجم الاَ وسط للطبرانی، ج۳، ص۸۵، الحدیث: ۳۹۳۹) رسول اللہﷺ نے فرمایا: رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ، شعبان میرا مہینہ اور رَمضان میری اُمت کا مہینہ ہے۔ (اَلفردَوس بماثور الخطاب ج۲ ص۲۵۷ حدیث ۳۲۷۶)

’’رجب‘‘ دراصل ترجیب سے مشتق (یعنی نکلا) ہے‘ اِس کے معنی ہیں : ’’تعظیم کرنا‘‘۔ اِسے اَلاَصَب (یعنی تیزبہاؤ) بھی کہتے ہیں، اِس لئے کہ اس ماہِ مبارَک میں توبہ کرنے والوں پر رَحمت کا بہاؤ تیز ہوجاتا اور عبادت کرنے والوں پر قبولیت کے انوار کا فیضان ہوتا ہے۔ 

اسے اَلاَصَمّ (یعنی بہرا) بھی کہتے ہیں ،کیونکہ اِس میں جنگ و جدل کی آواز بِالکل سنائی نہیں دیتی۔ (مکاشفۃ القلوب ص۳۰۱)۔ اس ماہ کو ’’شَہرِرجم‘‘ بھی کہتے ہیں، کیونکہ اِس میں شیطانوں کو رجم کیا جاتا ہے (یعنی پتھر مارے جاتے ہیں) تاکہ وہ مسلمانوں کو ایذاء نہ دیں۔ (غنیَۃْ الطّالِبِین ج۱ ص۳۱۹،۳۲۰)

ماہِ رجب المرجّب کی بہاروں کی توکیا بات ہے! ’’مکاشَفۃْ القلوب‘‘ میں ہے، بزرگانِ دین ؒ فرماتے ہیں: ’’رجب‘‘ میں تین حروف ہیں: ر،ج،ب،۔ ’’ر‘‘ سے مراد رَحمت الٰہی، ’’ج‘‘ سے مراد بندے کا جرم، ’’ب‘‘ سے مراد بِرّ یعنی اِحسان و بھلائی، گویا اللہ عزوجل فرماتا ہے: ’’میرے بندے کے جرم کو میری رَحمت اور بھلائی کے درمیان کردو‘‘۔ (مکاشَفۃ القلوب ص۳۰۱)

کیا 27 رجب کو 4 رکعت نفل پڑھنا، روزہ رکھنا درست ہے؟

حضرت سیدنا علامہ صفوریؒ فرماتے ہیں: رجب المرجب بیج بونے کا، شعبان المعظم آبپاشی (یعنی پانی دینے) کا اور رمضان المبارک فصل کاٹنے کا مہینہ ہے، لہٰذا جو رجب المرجب میں عبادت کا بیج نہ بوئے اور شعبان المعظم میں اسے آنسوؤں سے سیراب نہ کرے، وہ رمضان المبارک میں فصلِ رَحمت کیوں کر کاٹ سکے گا؟ مزید فرماتے ہیں: رجب المرجب جسم کو، شعبان المعظم دل کو اور رمضان المبارک روح کو پاک کرتا ہے۔ (نزہۃْ المجالس ج۱ص۲۰۹)

حضرتِ سیدنا اَنس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں ایک نہر ہے جسے ’’رجب‘‘ کہا جاتا ہے، جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے تو جو کوئی رجب کا ایک روزہ رکھے تو اللہ عزوجل اسے اس نہر سے سیراب کر ے گا۔‘‘ (شعب الایمان ج۳، ص۳۶۷، حدیث ۳۸۰۰)

مشہور تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابوقلابہ ؒفرماتے ہیں: ’’رجب کے روزے داروں کے لیے جنت میں ایک محل ہے‘‘۔ (شعب الایمان، ج۳، ص۳۶۸، حدیث۳۸۰۲)

حضرت سیدنا ابوامامہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دُعا رَد نہیں کی جاتی۔ (۱)رجب کی پہلی (یعنی چاند)رات، (۲)پندرہ شعبان کی رات (یعنی شب برأت)، (۳)جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات، (۴) عیدالفطر کی (چاند) رات، (۵) عیدالاضحی کی (یعنی ذوالحجہ کی دسویں) رات‘‘۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر ج۱۰، ص۴۰۸)

حضرت سیدنا خالد بن معدانؒ فرماتے ہیں: ’’سال میں پانچ راتیں ایسی ہیں جو ان کی تصدیق کرتے ہوئے بہ نیت ثواب انہیں عبادت میں گزارے تو اللہ تعالیٰ اُسے داخل جنت فرمائے گا: (۱)رجب کی پہلی رات کہ اس رات میں عبادت کرے اور اس کے دن میں روزہ رکھے۔ (۲) شعبان کی پندرہویں رات (یعنی شب برأت) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے۔ (۳) عیدین (یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی یعنی 9اور 10 ذوالحجہ کی درمیانی شب) کی راتیں کہ ان راتوں میں عبادت کرے اور دن میں روزہ نہ رکھے (عیدین کے دن روزہ رکھنا ناجائز ہے۔ (۵) شب عاشورہ (یعنی محرم الحرام کی دسویں شب) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے۔ (المدر المنیر لابن الملقن، ج۵، ص۴۰، غنیۃ الطالبِین، ج۱، ص۳۲۷)

ایک روایت میں ہے کہ ’’رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے اور دوسرے دن کا روزہ دو سال کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے، پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے۔‘‘ (اَلجامع الصغیر للسیوطی، ص۳۱۱، حدیث ۵۰۵۱، فضائل شہرِ رَجَب، للخلال۔ ص۷) یہاں ’’گناہ کا کفارہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ یہ روزے، گناہِ صغیرہ کی معافی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

حضرت سیدنا اَنس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رجب کا ایک روزہ رکھا تو وہ ایک سال کے روزوں کی طرح ہو گا۔ جس نے سات روزے رکھے، اس پر جہنم کے ساتوں دروازے بند کرد ئیے جا ئیں گے، جس نے آٹھ روزے رکھے، اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے، جس نے دس روزے رکھے، وہ اللہ عزوجل سے جو کچھ مانگے گا، اللہ عزوجل اسے عطا فرما ئے گا اور جس نے پندرہ روزے رکھے تو آسمان سے ایک منادی ندا (یعنی اعلان کرنے والا اعلان) کرتا ہے کہ تیرے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ،پس تو ازسرِنو عمل شروع کر کہ تیری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں۔ 

جو زائد کرے تو اللہ عزوجل اسے زیادہ دے۔ رجب میں نوح علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے توخود بھی روزہ رکھا اور ہمراہیوں کو بھی روزے کا حکم دیا، ان کی کشتی دس محرم تک چھ ماہ برسرسفر رہی۔ (شعب الایمان ج۳، ص۳۶۸، حدیث۳۸۰۱)

حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نقل کرتے ہیں کہ سلطانِ مدینہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے: ماہِ رجب حرمت والے مہینوں میں سے ہے اور چھٹے آسمان کے دروازے پر اِس مہینے کے دن لکھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص رجب میں ایک روزہ رکھے اور اُسے پرہیزگاری سے پورا کرے تو وہ دروازہ اور وہ (روزے والا) دن اس بندے کے لیے اللہ عزوجل سے مغفرت طلب کریں گے اور عرض کریں گے: یااللہ عزوجل! اِس بندے کو بخش دے اور اگر وہ شخص بغیر پرہیزگار ی کے روزہ گزارتا ہے تو پھر وہ دروازہ اور دن اس کی بخشش کی درخواست نہیں کریں گے اور اس شخص سے کہتے ہیں: ’’اے بندے! تیرے نفس نے تجھے دھوکا دیا۔‘‘ (ماثبت بِالسنۃ ص۲۳۴، فضائل شہرِ رَجب، للخلال ص۳،۴) معلوم ہوا کہ روزے سے مقصود صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں، تمام اعضاء کو گناہوں سے بچانا بھی ہے، اگر روزہ رکھنے کے باوجود بھی گناہوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر محرومی دَرمحرومی ہے۔

حضرت سیدنا عبد اللہ ابن زبیرؓ سے روایت ہے: ’’جو ماہِ رجب میں کسی مسلمان کی پریشانی دور کرے تو اللہ عزوجل اسے جنت میں ایک ایسا محل عطا فرمائے گا جو حدنظر تک وسیع ہوگا۔ تم رجب کا اکرام کرو، اللہ تعالیٰ تمہار ا ہزار کر امتوں کے ساتھ اِکرام فرمائے گا۔(غنیۃْ الطالبین ج۱ ص۳۲۴، معجم السفر ص۴۱۹، رقم۱۴۲۱)