صدیوں بعد کسی خطّے میں آگہی کی روشنی پھیلتی ہے۔
تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیں کہ ایسے اضطراب کے موسم میں ہی قبیلے، گروہ بکھرے ہوئے قافلے ایک منظّم قوم بن جاتے ہیں۔
اخبارات کسی زمانے میں ایسے اجتماعی شعور کی آئینہ داری کرتے تھے۔ واہگہ سے گوادر تک سچّے موتیوں اور سچے اقوال کو اپنے صفحات میں محفوظ کر لیا کرتے تھے۔
آپ کسی بھی پاکستانی سے اس وقت بات چھیڑ دیں وہ بلوچستان کے کسی دور افتادہ سنگلاخ قلعے کا باشندہ ہو۔ خیبر پختونخوا کے کسی سر سبز سیاحتی مقام کا رہائشی ہو ۔ سندھ کے کسی ریتیلے گوٹھ کا ہاری ہو۔ پنجاب کی کسی نہر کے کنارے سیراب ہوتے کھیت کا کسان۔ جنوبی پنجاب کے کسی دشت کا ساربان۔ آزاد کشمیر کی کسی وادی کا آزادی کا متوالا۔ گلگت بلتستان کا کوئی صاحب مطالعہ۔ اس سے اس عظیم وطن کی اندرونی پالیسی پر بات کر لیجئے یا نئے امریکی صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے حوالے سے خارجہ پالیسی کی ٹہنی ہلائیے تو دیکھئے کہ کس طرح پھول جھڑنے لگتے ہیں۔
رابطہ ظاہر ہے کہ قومی زبان اُردو میں ہی ہوتا ہے۔ کتنا فخر ہوتا ہے کہ قومی زبان میں قومی شعور ہمیں قومی دھارے میں لے جاتا ہے ہم برسوں سے ترس رہے تھے کہ کس طرح مشرق سے مغرب، جنوب سے شمال تک یہ سب قومی دھارے میں بہہ رہے ہوں۔ اب جہلم، چناب، سندھ، سوات، کابل سارے دریا ایک سمت میں بہہ رہے ہیں۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور کھل کر باتیں کرنے کا دن۔ہماری اولادیں ہم سے زیادہ با خبر ہیں۔ معلومات پر مبنی ان کی سوچ ہم سے زیادہ حالات سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان کا وژن بہت واضح ہے۔ اپنے بزرگوں کی مشکلات دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انکو اپنی مروت کی بدولت یہ المیے نصیب ہوئے ہیں۔ منافقت اور چشم پوشی تو چند بڑے طبقوں، قبیلوں، برادریوں کے سربراہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کے نتیجے میں برپا ہونے والی آفات کی زد میں ہمارے چھوٹے آتے رہے ہیں۔ ایسا ہر صوبے ،ہر وحدت میں ہورہا ہے اب نوجوانوں کی قطعی بصیرت کے باعث اکثریت پر ہر منافقت فوراً آشکار ہوجاتی ہے۔ فیس بک، انسٹا گرام، لنکڈ ان، یو ٹیوب، واٹس ایپ سچ کو سینے سے لگاتے ہی نہیں ہیں۔ سینے پر لکھ بھی لیتے ہیں۔
اب نوشتہ دیوار۔ شہر میں جا بجا نہیں، اس لیے چاکنگ نہیں کرنا پڑتی۔ ہر فرد اپنی دیوار اپنے ہاتھ میں یا اپنی جیب میں لیے پھرتا ہے۔ وہ دوسروں سے کہتا ہے کہ میں نے اس کی وال (دیوار) سے یہ سچ چنا ہے۔ پھر یہ سچ وائرل ہو جاتا ہے۔ دیوار بہ دیوار منتقل ہوتا رہتا ہے۔ یہ قول فیصل ہے کہ اکثریت اب منافق نہیں ہے۔ غالب یاد آرہے ہیں کہ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ اضطراب انقلاب کی پہلی منزل ہوتا ہے۔ اضطراب اب ہر گوشے میں ہر ذی روح کو تڑپا رہا ہے۔
مورخین گواہی دیں گے۔ اور تاریخ کے ہم جیسے طالب علم بھی کہ جب اجتماعی شعور اس سطح پر ایسی توانائی کے ساتھ ہر ذہن میں موجود ہو تو کوئی فرد، کوئی حلقہ ایسا ضرور آتا ہے۔ جو اس لمحے کو اپنی گرفت میں لے کر سفر پر نکل پڑتا ہے۔ راستے ان کے قدم چومتے ہیں۔ منزل کی طرف لے چلتے ہیں، مشکل یہ رہی ہے کہ ہمارے سیاسی اور فوجی اکابرین کی بعض قومی کوتاہیوں سے ملک دو لخت ہوا۔ تو وہ حصّہ پاکستان سے الگ ہو گیا جہاں تحریک پاکستان بہت شد و مد سے چلی تھی۔ اور وہ حصّہ پاکستان بن گیا جہاں تحریک پاکستان بھرپور انداز میں نہیں چلی تھی۔ مسلم لیگ مادر پاکستان سیاسی جماعت تھی۔ اس کی اپنی مشکلات تھیں۔ اس نے موجودہ پاکستان کے علاقوں میں صرف معتبرین اور سرداروں سے رابطے پر اکتفا کیا کیونکہ مغل بادشاہ، پھر انگریز سامراج یہی کرتے آرہے تھے۔ حالانکہ ایک قومی سیاسی جماعت کو غاصبوں کے طریقِ کار کو نہیں اپنانا چاہئے تھا۔ اسے براہِ راست خلق خدا سے رابطہ کرنا چاہئے تھا۔ یہ خلا1947 سے موجود رہا۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی حکمرانوں کا رابطہ سرداروں، میروں، مخدوموں، خانوں، چوہدریوں سے ہی رہا۔ پھر مسلم لیگ کے حصّے بخرے ہوتے رہے۔ اس کے بطن سے نئی جماعتیں پیدا ہوتی رہیں۔ جب بھی کسی سیاسی جماعت نے پامالوں، ناداروں، کمزوروں سے رشتہ جوڑا تو واقعۃً تحریک پاکستان نئے سرے سے چلی اور وہ جماعت مسلم لیگ کو شکست دیتی رہی۔ تاریخ کے ایسے موڑ سب کو یاد ہیں۔ ضرورت یہی رہی ہے کہ اپنے موقف کو اپنے منشور کو اکثریت کے دلوں میں اتارنے کیلئے عام لوگوں، کچی بستیوں سے، رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ اب 77سال بعدکوئی سیاسی جماعت ملک گیر سطح پر اتنی منظم نہیں ہے۔ شہروں ،قصبوں ،دیہات میں جماعتوں کی شاخیں نہیں ہیں۔ عہدیدار باقاعدہ شہری، ضلعی، صوبائی، کنونشنوں سے منتخب نہیں ہوتے۔ طریقہ اب بھی یہی ہے کہ پارٹیاں اوپر کی سطح پر بھی خاندانی ہیں اور صوبوں، ضلعوں میں بھی بڑے سردار، جاگیردار ہی پارٹی کے عہدوں پر نامزد کیے جاتے ہیں۔ یہ آسودہ حال، کروڑوں کی گاڑیاں رکھنے والے، لاکھوں کے کپڑے پہننے والے کبھی کچے گھروں، چھوٹی گلیوں میں رہنے والوں کے دکھ درد نہیں جانتے۔ یعنی تحریک پاکستان نہیں چلتی ہے۔ اسلئے قوم نہیں بنتی رہی ہے۔
اسمارٹ فون نے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں نے جنہیں میں ’’مقامات آہ و فغاں‘‘ کہتا ہوں۔ ایک نئی سیاسی بیداری پیدا کردی ہے۔ اب ان پر تحریک پاکستان چل رہی ہے۔ نوجوان، بزرگ، مائیں ،بہنیں جوق در جوق شامل ہو رہی ہیں۔ حقیقت محسوس کرنے والے دیکھ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کی اسکرینوں پر اب صوبائی، علاقائی، لسانی نہیں ایک اجتماعی شعور جلوہ گر ہے۔ اس میڈیا کو اگر چہ فرقہ پرست تنظیمیں بھی استعمال کر رہی ہیں علاقائی سیاسی جماعتیں بھی،لسانی اور نسلی گروہ بھی، پریشر گروپ بھی لیکن چند لمحوں میں ہی ان کی آواز دب جاتی ہے ایک قومی شعور غالب آ جاتا ہے۔ اب دنیا عالمی گائوں بن گئی ہے اور کیونکہ حقیقی انسانی ضروریات کا احساس سب کو ہے۔
یہی لمحہ ہے جب ان ساری لہروں کو قومی دھارے میں شامل کرلیا جائے۔ اس قومی شعور کی آہٹیں حکمران طبقے بھی سن رہے ہیں۔ وہ اپنی پوری طاقت سے اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس کیلئے اسمبلیاں سینیٹ استعمال ہو رہی ہیں۔ مسلسل زور دار ناکے ڈالے جا رہے ہیں۔ ان طبقات کو اندازہ ہے کہ اس بیداری کے نتائج ان کیلئے کتنے خوفناک ہوں گے۔ وہ اپنی بقا کیلئے صف بستہ ہیں۔ لیکن اس بیداری سے جن طبقات کو تقویت مل رہی ہے۔ وہ گومگو کی حالت میں ہیں کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔
مگر زمانہ آواز دے رہا ہے۔
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے