• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسے پاکستانی عوام کی مکمل بے حسی کہئے یا مثبت شعورکی انتہا… پاکستان میں بلند مرتبہ شخصیات کو انتخابی سیاست میں کم ہی کامیابی ملی۔ اپنے اپنے شعبہ جات کے نامی گرامی ماہرین میدان سیاست میں کامیاب نہ ہو سکے۔جو کوئی سیاست میں آیا بھی تو اسے انتخابات کی جنگ میں فتح نصیب نہ ہو سکی۔عبدالستار ایدھی مرحوم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بے مثال زندگی کے ایک گمنام حصے کو سامنے لانا سیاست کے طالب علموں کا فرض ہے۔اسی حوالے سے تحقیق پر مبنی چند منفرد اور دلچسپ حقائق کے ذریعے ایدھی صاحب کے سیاسی انتخابی سفرکا احوال پیش کرنا ضروری ہے۔
ایدھی صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایوب خان کے دور میں انہوں نے انتیس سال کی عمر میں بنیادی جمہوریت (بی ڈی ممبر) کی سیٹ بلامقابلہ حاصل کی۔ اس کے بعدانہوں نے دوسری مرتبہ بھی کراچی کے علاقے میٹھادر سے کامیابی حاصل کی۔ایوب دور حکومت میں کامیابی کے بعدکی سیاسی کہانی کے حوالے سے زیادہ باتیں مشہور نہیں ہیں۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شہرت کے ابتدائی دنوں میں ایدھی صاحب نے جناب بھٹو سے بھی ملاقات کی لیکن ملاقات کے بعد ایدھی صاحب نے کہا کہ یہ سب اقتدار کا کھیل ہے اوربھٹو نے چونکہ عوام کی ضروریات کا اندازہ لگا لیا ہے ، عوام اس کے سحر میںطویل عرصہ تک گرفتار رہیں گے۔اس کے بعد انہوں نے 1970 کے الیکشن میں آزاد حیثیت سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا۔انہوں نے جس فکر کو بنیاد بنا کر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ، وہ یہ تھی کہ ’’اگر کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظریات کی بنیاد پر فلاحی ریاست کی تخلیق ممکن ہے تو پھر اسلام سے کیوں نہیں ؟‘‘ (مندرجہ بالا بیانات اور واقعات کی تفصیل تہمینہ درانی کی تالیف کردہ ایدھی کی سوانح عمری ’’کھلی کتاب‘‘ میں موجود ہے)۔
ایدھی صاحب کی انتخابی سیاست پر ایک انگریزی اخبار کے محترم کالم نگار نے بھی بات کی ہے لیکن اس تناظر میں کچھ باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ کراچی کی اس وقت کی سیاست میں چار عبدالستار سرگرم تھے ، عبدالستار گبول(پیپلز پارٹی)، عبدالستار افغانی (جماعت اسلامی)، عبدالستار دادانی (جماعت اسلامی) اور عبدالستار ایدھی۔ افغانی، دادانی اور ایدھی تینوں ایوب دور میں بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔ 1970کے الیکشن میں چاروں نے الیکشن میں حصہ لیا۔ عبدالستار گبول نے پیپلز پارٹی ، عبدالستار افغانی اور عبدالستا ر دادانی نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر اور ایدھی صاحب نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔ لیاری میں عبد الستار گبول کے مد مقابل جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی نے الیکشن لڑااور ہار گئے۔موسی لین لیاری کے رہائشی عبدالستار افغانی بعد میں دو بار کراچی کے مئیر اور ایک بار ایم این اے بھی رہے۔ چونکہ الیکشن کے کاغذات میں ان تمام افراد کے نام صرف عبدالستار تھے اور الیکشن سے متعلق کتابوں میں یہی درج ہیں جس سے غلط فہمی کا امکان بڑھ جاتاہے۔اس لئے دو باتوں کی وضاحت کرنا اہم ہے کہ ایدھی صاحب نے جماعت اسلامی کے انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑا اورنہ ہی عبدالستا ر گبول کے مدمقابل حصہ لیا۔انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ انتخاب این ڈبلیو 134 (کراچی)سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ یہا ں سے جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے 28 ہزار ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی ۔دوسرے نمبر پر فاطمہ جناح روڈ کے رہائشی پیپلز پارٹی کے نور العارفین نے 22 ہزارووٹ حاصل کئے۔ جماعت اسلامی کے پیر محمد کالیا 20ہزار ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔ مسلم لیگ کنونشن کے زین نورانی نے 10 ہزار ووٹ حاصل کئے۔ 42 سالہ عبدالستار ایدھی کا نمبر پانچواں رہا اور انہوں نے 7ہزار ووٹ حاصل کئے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کئی دہائیوں بعد زین نورانی جونیجو کابینہ کے طاقتور وزیر رہے۔جبکہ پیر محمد کالیا اس لحاظ سے منفرد تھے کہ وہ جماعت اسلامی کے 27 سالہ کلین شیو امیدوار تھے۔انہوں نے اکائونٹس کے شعبے میں خاصا نام کمایا اورچارٹرڈ اکائونٹنٹس ایسوسی ایشن کے صدر اور ورلڈ میمن آرگنائزیشن کے چیئرمین اور سیکرٹری جنرل بھی رہے۔البتہ اس معرکے میں ایدھی صاحب کامیاب نہ ہو سکے۔
1970 ہی میں صوبائی الیکشن میںکراچی کے پی ایس 55سے عبدالستار ایدھی نے معرکہ لڑا۔یہاں مقابلہ خاصا سخت رہا اورایدھی صاحب نے 8ہزار ووٹ حاصل کئے لیکن پیپلزپارٹی کے حاجی قاسم عباس پٹیل نے نو ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے اور 1241ووٹوں کی برتری سے جیت گئے جبکہ جمعیت علمائے پاکستان کے امیدوار جمیل احمد نجمی 6 ہزار ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس صوبائی حلقے میں جماعت اسلامی نے اپنے امیدوار عبدالستار دادانی کوعبدالستار ایدھی کے حق میں دستبردار کروا دیاتھااورصرف صوبائی نشست پر ان کی حمایت میں مہم چلائی۔ سابق ایم این اے اور جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما محمد حسین محنتی کے مطابق ’’ایدھی صاحب کا انتخابی نشان بوتل تھا کیونکہ اس وقت ان کی مفت ڈسپنسری کی زیادہ تر ادویات چھوٹی شیشیوں میں دی جاتی تھیں ، اسی مناسبت سے انکا انتخابی نشان لیا گیااور ان انتخابات کی گہما گہمی کے بعد سیاست سے ہٹ کر انکا ایدھی صاحب سے ایسا دیرینہ اور ذاتی تعلق قائم ہوا کہ جو وفات تک جاری رہا‘‘۔
ان دو انتخابات میں ناکامی کے بعد ایدھی صاحب نے فراخ دلی سے کہا کہ جس قسم کے حالات تھے، ان کی شکست غیر متوقع نہیں تھی۔انہوں نے جیتنے والوں پر کسی بھی قسم کی ’’دھاندلی ‘ ‘ کا الزام عائد نہیں کیا اور دوبارہ اپنی تمام تر توجہ عوامی خدمت پر مبذول کر لی۔
پانچ سال کی سیاسی خاموشی کے بعد ایک بار پھر انتخابی سیاست میں ان کا نام سامنے آیا۔ سینیٹ آف پاکستان کی تشکیل ہوئی اور علامہ شاہ احمد نورانی سینیٹ کے رکن منتخب ہو ئے تو قومی اسمبلی کی سیٹ ان کے استعفیٰ کی وجہ سے خالی ہو گئی۔یہاں ضمنی انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا، دوستوں نے ایک بار پھر ایدھی صاحب کو الیکشن لڑنے پر قائل کرنا شروع کیا۔ یہاں پر مختلف صورتحال سامنے آتی ہے۔ ایدھی صاحب کی اس الیکشن میں حصہ لینے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن دوستوں کے اصرار پر ان کے کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے اور انتخابی مہم بھی زور و شور سے چلائی گئی۔شاہ احمد نورانی کی خالی کردہ سیٹ پر جمعیت علمائے پاکستان اپنا دفاع نہ کر سکی اور پیپلز پارٹی کے نور العارفین 27 ہزار ووٹ لے کر کامیاب رہے۔ جبکہ نورانی میاں کے نامزد امیدوار حاجی حنیف طیب 24ہزار ووٹ لے سکے۔ (بعد ازاں حاجی حنیف طیب ضیاء دور میں وزیر بھی رہے )۔ عبدالستار ایدھی کی عدم دلچسپی کے باوجو د بھی انہیں 7ہزار ووٹ ملے۔ان انتخابات کے بعد عبدالستار ایدھی نے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔
ان تمام انتخابی نتائج کو سامنے رکھیں تو کئی طرح کے سوال ذہن میں آتے ہیں ، کوئی عام آدمی پاکستان میں الیکشن میں کامیابی کیوں نہیں حاصل کر پاتا؟ کیا یہ سوچ لیا جائے کہ روپے پیسے کے اس کھیل میں علمی ، سماجی یا ادبی خدمات کی کوئی اہمیت نہیں؟ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہوں، علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال ہوں ، معروف طبیب حکیم محمد سعیدہوں یا مشہور ادیب جمیل الدین عالی ، عوام نے کسی کو بھی ووٹ کی طاقت سے ایوان میں پہنچانا گوارا نہیں کیا۔ کیا یہ اس معاشرے کا اخلاقی بحران ہے یا پھر اجتماعی عوامی دانش ؟ پاکستانی عوام یہ طے کر چکے ہیں کہ ایسے قیمتی لوگوں کو سیاست سے دور ہی رکھا جائے ؟ لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ بطور قوم یہ ہماری ناکامی اور نااہلی ہے کہ سماجی خدمات سر انجام دینے والے شرفا کو انتخابی سیاست میں ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔
تازہ ترین