• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتوں کا کیس، قانون کو غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا، آئینی بنچ

اسلام آباد(رپورٹ:رانا مسعود حسین) عدالت عظمی کے آئینی بنچ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی 9مئی کی دہشتگردی اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق عدالتی حکمنامہ کیخلاف دائر وفاقی حکومت کی انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے قانون کو اس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا ، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹو ڈی کیا دنیا میں کہیں ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں نے بہت ریسرچ کی ، ایسی کوئی دفعہ دنیا میں نہیں ،ہمارے آئین کے آرٹیکل175 کی شق 3 آزاد ٹرائل کو یقینی بناتی ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ بعض اوقات ملک دشمن ایجنسیاں بھی سویلین اشخاص کو استعمال کرتی ہیں، آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دیا گیا ، ایسے میں تو ملک دشمن ایجنسیوں کیلئے کام کرنے والوں کا بھی ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے منگل کو مقدمہ کی سماعت کی تو ایک سزا یافتہ ،ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایف بی علی کیس میں1962کے آئین کے مطابق فیصلہ ہواتھا، جسٹس جمال مندو خیل نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ کوئی شخص جو فوج کا حصہ ہی نہ ہو، صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرےمیں آ سکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ان سے استفسار کیاکہ ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہواتھا؟جس پر فاضل وکیل نے جواب دیا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی ضروری ہے، ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ، ایف بی علی کیس میں قراردیا گیا تھا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لایا گیا آرمی ایکٹ درست ہے۔
اہم خبریں سے مزید