• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنگلہ دیش کی سابقہ حکمران شیخ حسینہ واجد اپنے والد شیخ مجیب الرحمان مرحوم کی سیاسی جدوجہد کا ثمر سو لہ سال تک ایک مطلق العنان حکمران کے طور پر سمیٹتی رہیں ۔ انہوں نے اپنی سیا سی جماعت عوامی لیگ کو بنگلہ دیش کی واحد سیاسی جماعت کا کردار دینے کیلئے اپنے سیاسی حریفو ں کو ناکوں چنے چبوائے۔ ملک کی اسٹریٹ پاور رکھنے والی جماعت اسلامی کے ضعیف رہنماؤں کو اپنی ہی قائم کر دہ عدالتوں سے پھانسی کی سزا دلوا کر ظلم کی انتہا کر دی ۔ اپنے سیاسی تسلط کو دوام بخشنے کیلئے انہوں نے بھارت کی بھر پور مدد حاصل کی کیو نکہ مودی سرکار بنگلہ دیش میں بھارتی تسلط کو حسینہ واجد کے ذریعے سے مضبوط کر رہی تھی ۔اسلامی ملک بنگلہ دیش جو اقتصادی طور پر ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا تھا۔ بھارتی تسلط مضبوط ہور ہا تھاجس کی وجہ عوامی لیگ کی وزیر اعظم حسینہ واجد تھیں جنہوں نے بنگلہ دیش کو انڈین سیٹلائٹ ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔

دوسری طرف پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے شہریوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا تھا۔ پاکستان دشمنی کو بنیاد بنا کر بنگلہ دیشی شہریوں کی ذہن سازی کی جارہی تھی۔ پاکستا ن کے خلاف پرپیگنڈا کو طالب علموں کے نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔ جن لوگوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیا م کے وقت پاکستان کی حمایت کی تھی ان کیلئے زندگی تنگ کر دی گئی تھی اور بنگلہ دیش کی حمایت کرنے والوں اور ان کی اولاد کیلئے ریاست کے تما م وسائل مختص کر دئیے گئے تھے۔ سرکاری ملازمتوں میں ان کا کوٹہ مختص تھااور پاکستانی کاروباری حضرات کی جائیدادیں اور کاروبار ان کے حوالے کر دیئے گئے تھے، غرض پاکستان دشمنی کو بنیاد بنا کر شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش پر حکومت کر تی رہیں۔ ان کے اس تعصبانہ رویہ کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایک کرکٹ میچ میں و ہ پاکستان کر کٹ ٹیم کی جیت دیکھ کر میچ سے اٹھ کر چلی گئیں تاکہ انہیں جیتنے والی پاکستانی ٹیم کو ٹرافی نہ دینی پڑے۔ بنگلہ دیش کے بھارتی کیمپ میں جانے سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بھارت کے حق میں چلا گیا اور علاقے میں بھارت کی اجارہ داری میں اضافہ ہو گیا تھا۔ سارک کا پلیٹ فارم عضو معطل ہو کر رہ گیا تھا کیونکہ بھارت نے پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

بنگلہ دیشی عوام کے انقلاب سے شیخ حسینہ واجد کو فرار ہو کر اپنے مربی بھارت کے پاس جان بچانے کیلئے پناہ لینا پڑی اور بنگلہ دیش میں ایک غیر جانبدار حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر محمد یونس اس حکومت کے سربراہ بنے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کو پناہ دینے کی وجہ سے بنگلہ دیشی عوام بھارت کے حق میں اچھے جذبات نہیں رکھتے۔ بنگلہ دیش فوج کے جنرل قمر الحسن نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملا قات کی جس سے دونوں ملکوں کے درمیان نئے تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ محمد شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان سے بنگلہ دیش حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کی بین الاقوامی کانفرنس میں دو یا دو سے زائد مرتبہ ملاقات ہو چکی ہے جس میں دونوں سربراہان نے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

پاکستان چیمبر آف کامرس کے صدر کی قیادت میں تاجروں کے وفد نے ڈھاکہ کا دورہ کیا اور پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت بڑھانے پر غور کیا۔ بنگلہ دیشی حکومت نے پاکستانی مصنوعات پر اضافی ٹیکس ختم کر نے کاعندیہ ظاہر کیا اور پاکستان سے چاول منگوانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کےعلاوہ بنگلہ دیش کا بحری جہاز بی این ایس سمدرا ہوائے بھی پاکستان آ رہا ہے جو پاکستان نیوی کی امن مشقوں میں شرکت کرے گا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بنگلہ دیش سے کوئی بحری جہاز پاکستانی سمندروں میں آئے گا۔ اس کی آمد کے اعلان سےخطے میں کھلبلی مچ گئی ہے۔کیونکہ پاک بحریہ کی نویں امن مشق اور پہلے امن ڈائیلاگ کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے۔ یہ امن مشق سات سے گیارہ فروری تک ہو گی اور ڈائیلاگ میں تقریباً ایک سو بیس کے قریب وفود شریک ہونے کی توقع ہے۔

سری لنکا میں چینی سرمایہ کاری نے بھی اس ملک میں بھارتی اثرکو دھچکا دیا ہے۔سر ی لنکا بھارتی مصنوعات کی ایک بڑی منڈی رہا ہے مگر اب وہا ں پر چینی مصنوعات کی آمد کی وجہ سے ان مصنوعات کو پذیرائی حاصل نہیں ہو رہی۔ سری لنکا کا قدرتی جھکاؤ پاکستان کی طرف ہے کیونکہ تامل ٹائیگرز کی بھارتی مدد سے جاری خانہ جنگی کو ختم کرنے میں پاکستان نے سری لنکا کی بہت مددکی۔

مالدیپ میں بھی ایک مسلم ریاست ہونے کی وجہ سے پاکستان کیلئے برادرانہ جذبات ہیں۔ جنوبی ایشیامیں پاکستان کے محل وقوع کی وجہ سے اب مستقبل میں اس کے اثر میں اضافہ ہونے کی توقع رکھنی چاہئے کیو نکہ بھارت کے جارحانہ رویہ کی وجہ سے اس پر سے جنوبی ایشیائی ممالک کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنی بہترین سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور اپنے اقتصادی تعلقات کو بڑھائے جس کی وجہ سے اسے نہ صرف اپنی مصنوعات کیلئے بڑی منڈی مل جائے گی۔ بلکہ ایک طویل مدتی تجارتی راہداری بھی قائم ہو جائے گی جو جنوبی ایشیائی ممالک کو وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ ملائے گی۔ جس سے ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک نئی مارکیٹ ابھر کر سامنے آئے گی جو سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہو گی۔ اس ویژن کو حاصل کرنےکیلئے ہماری قیادت کواپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اپنے تجربے، قابلیت اور وسائل کو صحیح سمت میں استعمال کرنا ہو گا۔ اپنی مصنوعات کی کوالٹی اور قیمت کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق وضع کرنے کی ضرورت ہو گی۔

تازہ ترین