پاکستان کی سیاست میں سفارتی محاذ ہمیشہ سے اہم رہا ہے، مگر حالیہ دنوں میں ایک خاص تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے خارجہ محاذ پر اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں، جبکہ پاکستان تحریک انصاف عالمی سطح پر ملکی اداروں کے معاملات سنبھالنے میں مصروف ہے۔ اس منظرنامے میں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری امریکہ میں متحرک ہیں جبکہ صدر آصف علی زرداری چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ان سرگرمیوں سے واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی پاکستان کے سفارتی محاذ کو نئی جہت دینے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ پی ٹی آئی اپنی توجہ ملکی اداروں کی بین الاقوامی معاملات میں تنظیم پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ بلاول بھٹو امریکہ میں پاکستان کا مقدمہ مضبوط انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ ان کی ان ملاقاتوں کا محور معیشت، سیکورٹی، افغانستان کی صورتحال اور خطے میں امن و استحکام پر مبنی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، مگر پیپلز پارٹی ہمیشہ ان تعلقات کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے دورے کو اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پیپلز پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی کا بھی اشارہ دیتا ہے۔ اس دورے کے ذریعے بلاول نے بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ پہلے بھی وزیر خارجہ کے طور پر متحرک رہے اور اپنے دور میں کئی اہم عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کی۔ ان کی سفارتی مہارت اور عالمی معاملات کی سمجھ بوجھ انہیں ایک اہم رہنما کے طور پر پیش کر رہی ہے، جو پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئےایک مثبت اشارہ ہے۔ دوسری طرف، صدر آصف علی زرداری کا دورہ چین بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ صدر زرداری کے دورے کا مقصد اقتصادی تعاون کو فروغ دینا اور سی پیک منصوبوں میں نئی جان ڈالنا ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کیلئے زرداری کا یہ دورہ نہ صرف اقتصادی بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی ایک بڑی پیش رفت ہے۔ زرداری کی سیاست ہمیشہ سے معاہدوں اور تعلقات کی سیاست رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ چین کے ساتھ مضبوط تعلقات پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے ناگزیر ہیں۔ سی پیک کے تحت جاری منصوبے پاکستان کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور زرداری کی کوشش ہے کہ ان منصوبوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے انہیں تیزی سے مکمل کیا جائے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زرداری کا چین سے گہرا تعلق ماضی میں بھی پاکستان کیلئے فائدہ مند رہا ہے، اور ان کے اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان مزید اقتصادی اور تجارتی مواقع پیدا ہونگے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں جب پیپلز پارٹی سفارتی محاذ پر سرگرم ہے، پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے؟ عمران خان کی جماعت نے عالمی فورمز پر عدالتی نظام، انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے اپنی مہم کو تیز کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ ملک میں آئینی و قانونی معاملات کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا ضروری ہے تاکہ پاکستان کے جمہوری تشخص کو مستحکم کیا جا سکے۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنما یورپی یونین، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے رابطے میں ہیں تاکہ پاکستان کے اندرونی حالات پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔ پی ٹی آئی کے رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں جمہوری ادارے مستحکم ہوں گے تو اس کا براہ راست فائدہ ملکی معیشت اور عالمی ساکھ کو پہنچے گا۔ تاہم، ان کی اس حکمت عملی کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے، اور پی ٹی آئی پر ’’بین الاقوامی لابنگ‘‘ کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ یہاں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی ملک کے سفارتی تعلقات کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے جبکہ پی ٹی آئی کا محور داخلی معاملات کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا ہے۔ دونوں جماعتوں کی حکمت عملی میں یہ فرق دراصل ان کی سیاسی سوچ اور مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی ماضی میں بھی عالمی تعلقات میں ایک متوازن اور عملی مؤقف اختیار کرتی رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی پیپلز پارٹی نے مغرب اور مشرق کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی تھی۔ آج بلاول اور زرداری اسی پالیسی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ دوسری جانب، پی ٹی آئی کی پالیسی جارحانہ اور مزاحمتی نوعیت کی ہے، جو عالمی فورمز پر پاکستان کے اندرونی معاملات کو لے کر ایک نئی بحث چھیڑ رہی ہے۔ مستقبل میں دیکھنا ہو گا کہ پیپلز پارٹی کی یہ سفارتی سرگرمیاں کیا واقعی پاکستان کو فائدہ پہنچا پائیں گی؟ کیا چین کیساتھ زرداری کے تعلقات پاکستان کی معیشت کو استحکام دینگے؟ اور کیا بلاول بھٹو کا امریکی دورہ پاکستان کیلئے کوئی ٹھوس سفارتی فوائد لا سکے گا؟ دوسری جانب، پی ٹی آئی کی بین الاقوامی مہم کیا واقعی پاکستان کے جمہوری تشخص کو فائدہ دیگی یا اس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہونگی؟۔