میں نے اور پاکستان نے اپنی زندگی کے سات دہائیوں سے زائد پر محیط سفر میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ مایوسیوں کے شدید ترین ادوار بھی آئے اور امید افزا کئی پہلو بھی نظر نواز ہوئے فرق صرف اتنا ہے کہ آج جیسی مایوسی بے دلی اور بے یقینی شاید پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ میں نے اپنی زندگی کے تجربات کے تحت کبھی مایوسی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ شدید ترین مشکلات اور بدحالی میں بھی امید کی کرنیں مجھے یا میں انہیں ڈھونڈ لینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔سابقہ تجربات گواہ ہیں کہ ایسے حالات میں جب مایوسی اور بے یقینی بہت بڑھ چکے ہوں تو کوئی بھی مثبت دلیل یا پشین گوئی ناقابلِ توجہ و ناقابلِ یقین ہوتی ہے۔ویسے بھی منفی باتوں کا اثر بہت جلد قبول کرنا ہماری سرشت میں ہے۔ گزشتہ روز وزیرِ اعظم پاکستان نے معاشی ترقی اور مستحکم مستقبل کیلئے پاکستان کے بیش بہا معدنی ذخائر، زراعت میں جدت اور آئی ٹی کے شعبوں کو منظم انداز میں بروئے کار لانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ میں جب یہ خبر پڑھ رہا تھا تو ماضی کی یادیں مجھے کھینچ کے اس دور میں لے گئیں جب میں، تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے انتہائی معتمد ساتھی، اپنے مرحوم والدرفیع بٹ صاحب کے متعلق تحقیق میں مصروف تھا۔ تحقیق کے دوران خالد شمس الحسن کے قائم کیے گئے ذاتی محافظ خانے (آرکائیوز) سے ملنے والی کچھ دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1943میںمسلمان صنعتکار، اہم کاروباری افراد اور سرکردہ 6ارکان پر مشتمل پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی کیلئے مسلم لیگ کی ’’اقتصادی پلاننگ کمیٹی‘‘ تشکیل دی جسے مجوزہ پاکستان کے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کے خدوخال کے تعین اور تعمیر کی ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں۔ 1944ءمیں اس اقتصادی پلاننگ کمیٹی کے اجلاس میں مختلف شعبوں کے متعلق 13سب کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں جنہیں متعلقہ شعبوں کے حوالے سے جامع اور قابلِ عمل تجاویز پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ قائد نے خصوصی طور پر رفیع بٹ کو دھاتوں اور قدرتی وسائل کی سب کمیٹی کے سربراہ کے طور پر چنا تھا۔ رفیع بٹ نے امریکہ کے ایک تجارتی دورے کے بعد قائدِ اعظم کو ایک خط لکھا کہ ’’میں نے امریکہ اور ہندوستان کے قدرتی وسائل میںبڑی مشابہت دیکھی ہے۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب امریکہ اپنے ان قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر اتنی بڑی معیشت قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے تو ہم ان ذخائر سے بہرہ مندہو کر ترقی کیوں نہیں کر سکتے‘‘۔ دھاتوں اور قدرتی وسائل کی سب کمیٹی کے سربراہ کے طور پر رفیع بٹ نے طویل غور و خوض اور تحقیق کے بعد ایک مفصل رپورٹ مرتب کر کے پلاننگ کمیٹی کے اجلاس میں قائد کو پیش کی جس میں برصغیر میں موجود مختلف دھاتوں اور معدنیات کے مفصل تعارف، ان کی افادیت اور ان کے مختلف علاقوں میں پائے جانے والے متوقع ذخائر کے متعلق بھرپور معلومات دی گئی تھیں۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر، قائداعظم نے ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کو8 نومبر 1945کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں مجوزہ پاکستان میں تاحال غیر دریافت اور غیر استعمال شدہ لوہے، پٹرولیم، سلفر، کوئلے اور دیگر معدنی ذخائر، (جن میں سے کچھ پہلے ہی دریافت کیے جا چکے تھے) کی بدولت پاکستان کے شاندار معاشی مستقبل کی قوی امید کا اظہار کیا تھا۔ اس رپورٹ میں جو آج بھی نیشنل آرکائیوز آف پاکستان میں محفوظ ہے، رفیع بٹ نے برصغیر کے بیشتر علاقوں کے بنیادی ذریعہِ معاش زراعت کے حوالے سے بھی اعداد و شمار، اس وقت کاشتکاری کے رجحانات، کاشتکاروں کے مسائل اور ان کے حل کیلئے قابلِ عمل تجاویز پیش کی تھیں۔ 1948میں ایک فضائی حادثے میں رفیع بٹ کی شہادت کے ساتھ ہی یہ تمام کوششیں کاوشیں اور پاکستان کو مضبوط معاشی قوت بنانے کی خواہشیں دم توڑ گئیں۔ آج سات دہائیوں بعد بھی اگر حکومتی سطح پر ان شعبوں کی نگہداشت وترقی کے بارے میںکوئی سنجیدہ کاوش کی جاتی ہے تو یہ خوش آئند امر ہو گا۔
پاکستان اپنی جغرافیائی اہم ترین لوکیشن، بیش بہا قدرتی و افرادی وسائل، عالمی سپر پاورز کے مفادات کا اہم ترین عامل اور معدنی ذخائر کے ان گنت خزانوں سے مالامال سرزمین ہے۔ ان ذخائر کا درست، بروقت، منصفانہ اور شفاف استعمال پاکستان کی نسلوں کو سنوار سکتا اور ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے چھٹکارا دلوا سکتا ہے۔ پاکستان کا سب سے پسماندہ اور محروم سمجھے جانے والے صوبہ بلوچستان کو معدنیات و نباتات کا خزانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر سے دنیا بھر کی توجہ حاصل کرنے والا ریکو ڈک ضلع چاغی کا ایک قصبہ ہے۔ پاکستانی اور امریکی جیالوجیکل سرویز کے مطابق یہاں تانبے اور سونے کے دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ 1978میں پہلی بار جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے یہاں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر دریافت کیے تھے۔ مائننگ کے ذریعے سونے اور تانبے کے ذخائر نکالنے اور ان سے بہرہ مند ہونے کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ماہرین اس پر کام کر تے رہے ہیں لیکن چونکہ یہ ایک انتہائی مشکل اور محنت طلب کام ہوتا ہے جس کیلئے خطیر سرمایہ اور جدید مشینری کے ساتھ ساتھ مہارت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس پر کام مختلف وجوہات کی بنا پر تواتر سے جاری نہیں رہ سکاجس کی وجہ سے ہم ان ذخائر سے پوری طرح بہرہ مند ہونے سے محروم رہے۔ مستقبل میں ان ذخائر کو پاکستان کے تابناک معاشی مستقبل کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ان ذخائر کو استعمال میں لا کر پاکستان سالانہ کھربوں ڈالر کما سکتا ہے۔ پاکستان ہر حوالے سے بے شمار صلاحیتوں، نعمتوں اور مواقع کا حامل ملک ہے جسے محض درست سمت کی ضرورت ہے۔
(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)