• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج بیس فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سماجی انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے ورلڈ ڈے آف سوشل جسٹس منایا جارہا ہے،آج سے اٹھارہ برس قبل اقوام متحدہ نے 26نومبر 2007ء کو جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران مذکورہ دن ہر سال بیس فروری کو منانے کا باضابطہ اعلان کیا تھا،اس موقع پر اقوام متحدہ اجلاس میں شریک عالمی مندوبین نے اس آفاقی حقیقت کا ادراک کیا تھا کہ سماجی ترقی اور سماجی انصاف دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والی اقوام کے مابین امن قائم رکھنے کیلئے ناگزیر ہیں جبکہ امن و امان کی عدم موجودگی یا انسانی حقوق بشمول بنیادی آزادی کے احترام کویقینی بنائے بغیر سماجی ترقی اور سماجی انصاف کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔میں سمجھتا ہوں کہ سماجی انصاف کا حصول ایک ایسا خواب ہے جو انسان زمانہ قدیم سے دیکھتا آرہا ہے، یہ انسانی معاشرے کا ایک ایسا بنیادی تصور ہے جسکو رائج کرنے کیلئے صدیوں سے، امن سے پیار کرنے والے انسان جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔بنیادی طور پر امتیازی سلوک کی روک تھام، قانون کی بالادستی اور تمام شہریوں کیلئے بغیر کسی تعصب کے دادرسی سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے بنیادی ستون ہیں، میری نظر میں سماجی انصاف سے مراد معاشرے کے اندر وسائل، مواقع اور مراعات کی منصفانہ تقسیم ہے تاکہ معاشرے میں عدم مساوات پر مبنی تفریق کاخاتمہ کیا جائے۔ پانچ ہزار سال قدیم ہندوستان کی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جب چندرگپت موریا، اشوک اعظم اور پرتھوی راج چوہان جیسے انصاف پسند بادشاہوں نے اپنے راج میں انصاف کا بول بالا کیا،اس زمانے کا یہ چلن تھا کہ اگر پرجا (رعایا) ناانصافی کے باعث بے سکونی کا شکار ہوتی تو پڑوسی راجا حملہ کرنے کیلئے پرتولنے لگ جاتا تھا، قدیم ہندوستانی سماج میں جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کیلئے خاندانی پنچایت کا نظام رائج کیا گیا جبکہ فیصلہ جاتی نظام بتدریج بادشاہ کے دربار تک جاپہنچتا، مغل دور میں عدلِ جہانگیر کو شہرہ آفاق پذیرائی حاصل ہوئی جب جہانگیربادشاہ نے اپنے شاہی محل کے باہر زنجیر نصب کرکے انصاف کے متلاشی ہر فریادی کی دادرسی کواپنا فرض قرار دیا، جب انگریز سامراج نے ہندوستان پر اپنا قبضہ جمایا تو مقامی افراد کو انصاف کی فراہمی کیلئے قانون سازی اور عدالتی نظام کا قیام اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا۔مشرقِ وسطیٰ میں موجودہ عراق اور گردونواح کی سرزمین پر واقع قدیم میسوپوٹیمیا کے دور میں ضابطہ حمورابی کا شمار قانون کے قدیم ترین قانونی، اخلاقی اور آئینی ضابطوں میں کیا جاتا ہے جس میں سماجی انصاف قائم رکھنے کیلئے کمزوروں کا تحفظ اور طاقتورمجرم کوقانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا شامل ہے۔ قدیم مصرمیں بھی سماجی عدل کو یقینی بنانے کی خاطر سچائی، انصاف اور اخلاقیات پر زور دیا جاتاتھا، قدیم مصری معاشرے میں قابلیت کی بنیاد پر مختلف افراد کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔قدیم یونان اور رومن تمدن میں موجودہ گریس کے دارالحکومت ایتھنز کو جمہوریت متعارف کروانے کے حوالے سے نمایاں مقام حاصل ہے، اس دور میں ارسطو، سقراط، بقراط، افلاطون سمیت متعدد فلسفیوں نے حکومت سازی کے عمل میں شہریوں کی شرکت اور مساوی حقوق کی اہمیت پر زور دیا، رومن دور میں استعمال ہونے والے بے شمار لاطینی الفاظ کی جھلک آج اکیسویں صدی میں دنیا بھر کے قانونی معاملات اور عدالتی فیصلوں میں بھی نظر آتی ہے۔اسی طرح اگر مختلف مذاہب کا جائزہ لیا جائے تو ایک قدرِ مشترک سماجی انصاف کو قائم رکھتے ہوئے شہری حقوق کا تحفظ ہے، دنیا کے ہر مذہب میں مظلوم کا ساتھ دینااور حق کی خاطر قربانی دینا بہت بڑی نیکی ہے۔ہردھرم میں غریبوں، عورتوں، بچوں اور چرندپرند سمیت کمزورطبقات کے تحفظ کی اہمیت کو تسلیم کیاگیا، پیغمبر اسلام ﷺکایہ فرمان آج بھی دنیا بھر میں قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے کہ دنیا کی قدیم قومیں طاقتور اور کمزور کیلئے دو مختلف قانون رکھنے کی بناء پر تباہی کا شکار ہوئیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ میں سلطنتوں کا عروج و زوال سماجی انصاف سے مشروط رہا ہے، انصاف پسند حکمران کے دور میں اندرونی امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہوتا جبکہ ظالم حکمران کا اقتدار ذلت و رسوائی سے ہمکنار ہوتا۔ آج اگر ہم عصرِ حاضر کی جدید تاریخ پرنظر ڈالیں تو سویت یونین کا زوال بھی سماجی ناانصافی کے باعث عمل میں آیاجبکہ گزشتہ صدی میں دو بڑی عالمی جنگوں کی محرک بھی سماجی ناانصافی تھی، آج بھی عالمی سطح پرمسئلہ کشمیر سمیت متعدد تنازعات سماجی ناانصافی کی بناء پر حل طلب ہیں، سرزمین فلسطین پر بسنے والے جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت رہے ہیں، صدیوں سے میانمار میں بسنے والے کمزورروہنگیا حقِ شہریت سے محرومی کے باعث در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، دنیا کے مختلف ممالک میں ظالمانہ طرزحکمرانی کے ردعمل میں لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر عالمی تنازعات کو مزید پیچیدہ کرسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی میں انسانوں کے ہاتھوں ظلم و زیادتی کے باعث پوری دھرتی کی بقاء کو شدید خطرات لاحق ہیں۔آج سماجی انصاف کا عالمی دن ہر انسان سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ وہ اپنے رویوں میں عدل و انصاف کو یقینی بنائے، بحیثیت شہری یہ ہماری سماجی ذمہ داری ہے کہ ہم بغیر کسی تعصب کےحق اور سچ کا ساتھ دیں،ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ طاقتور مجرم کی وقتی فائدے کی خاطر حمایت اندرونی بے سکونی کا باعث بنتی ہے اوردھرتی کا مالک بھی بے اصولی کا مظاہرہ کرنے والے کی زندگی سے برکت اٹھالیتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی طاقتیں دنیا میں عالمی تنازعات کے دیرپا حل کیلئے اپنا قائدانہ کردار ادا کریں اور عالمی برادری اپنے کاروباری و اقتصادی مفادات سے بالاتر ہوکر حق اور سچ کا ساتھ دے بصورت دیگرسماجی ناانصافی کے باعث تیسری عالمی جنگ کا شعلہ بھڑکتے دیر نہیں لگے گی۔

تازہ ترین