اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق رواں مالی سال کی گزشتہ سہ ماہی میں پاکستان کے ذمے غیر ملکی قرضوں کا حجم 70ہزار362ارب روپے تھا۔اس تناظر میں آئی ایم ایف کے ریذیڈنٹ چیف ماہیر بنجی کا یہ کہنا اصولی طور پرحکومت کی توجہ کا متقاضی ہےکہ پاکستانی اقتصادیات کو جن سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے،ان میں سرفہرست بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے ،جس کی بنیادی وجہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی صلاحیت میں کمی اور آمدن پیدا کرنے میں ناکامی ہے۔کنٹری چیف کے مطابق ٹیکسوں کا بڑا دباؤ روایتی شعبے پر ہےاور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کئی مخصوص سیکٹر قومی خزانے میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہے۔اس حوالے سےوفاقی وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگ زیب کا یہ بیان درست ہے کہ ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔یہاں اس بات کا حوالہ دیا جانا ضروری ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ،ان کی ٹیم معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور اس کا اولین ہدف سرکاری اخراجات میں کمی لاکر اربوں روپے بچانا ہے۔اس پروگرام میں بعض وفاقی وزارتیں ،ادارے اور محکمے ختم کرنے یا انھیں دوسرے شعبوں میں کھپانا شامل ہے۔یہ کام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے ۔حکومت کا پروگرام ہے کہ وہ جون 2025تک پی آئی اے کی نجکاری مکمل کرلے گی ۔وفاقی وزیر خزانہ کے بقول رائٹ سائزنگ کا مکمل پلان تیار کرلیا گیا ہے ،معیشت میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ 19،جبکہ ٹیکسوں کی وصولی میں محض ایک فیصد ہے ،اس ضمن میں یہ امر خوش آئند ہے کہ مصنوعی ذہانت بڑھاتے ہوئے ٹیکسوں کا حجم بڑھایا جائے گا ۔حکومت مینوفیکچرنگ، خدمات اور تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکسوں کی شرح غیرمتناسب ہونے کو تسلیم کرتی ہے،وزیر خزانہ کے مطابق اسے دوسرے شعبوں کے ساتھ بانٹنے کی ضرورت ہے۔جمعرات کے روز اسلام آباد میں اقتصادی کانفرنس سے خطاب کے دوران انھوں نے 9400ارب روپے کے کیش معاملات کو دستاویزی شکل دینے کا عندیہ دیا۔انھوں نے یہ حکومتی عزم بھی دہرایا کہ 30جون2025تک تمام سرکاری اداروں کی رائٹ سائزنگ کاکام مکمل کرلیا جائے گا۔بلا شبہ، رائٹ سائزنگ کی بدولت حکومت اربوں روپے کا ضیاع روک سکے گی ،تاہم ان کا مجموعی حجم کتنا ہوگا ،اس بارے میں حتمی تخمینے سامنے نہیں آئے۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ سال اگست میں 60فیصد خالی اسامیاں ختم کرنے کی منظوری دی تھی ،تاحال گریڈ ایک سے 22تک کی کل 11ہزار877خالی پڑی اسامیاں ختم ہوسکی ہیں۔ان میں سب سے زیادہ گریڈ ایک سے تعلق رکھنے والی 2616اور سب سے کم گریڈ 21سے متعلق اور ان کی تعداد صفر ہے۔اس سے حکومت کو کیا بچت ہوگی، اس کی تشریح کرنے کی ضرورت نہیں۔ختم کی جانےوالی متذکرہ 11ہزار877اسامیوں میں سے 113کا تعلق گریڈ 19تا22سے ،اور باقی گریڈ 18سے نیچے کی ہیں۔ اب تک جن اسامیوں کے ختم کرنے کو حتمی شکل دی گئی ہے،اس حوالے سےایک ماہ قبل یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ رائٹ سائزنگ کے باوجود وفاقی اداروں میں اس وقت بھی ڈیڑھ لاکھ اسامیاں خالی پڑی ہیں ،ان کے سمیت وہ ادارے اور محکمے جو محض نام کے رہ گئے ہیں اور ان کی کارکردگی صفر ہے،ان کا بجٹ قومی خزانے پر ایک بوجھ ہے،اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ صوبائی محکموں اور ان میں بیکار پڑی خالی اسامیوں سمیت بعض محکموں میں گھوسٹ ملازمین کی بھی وقتاً فوقتاً نشاندہی ہوتی رہی ہے ،یہ سب نان پروڈکٹو اور سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بدعنوانی نے ملک میں غیرقانونی متوازی معیشت کی حیثیت اختیار کر رکھی ہے،جس کا جڑ سے خاتمہ ضروری ہے۔