• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ناروے میں بطور سفیر میری تعیناتی میرے لئے ایک امتحان تھا میں نے پوری کوشش کی کہ اس امتحان سے بچ جاؤں مگر میرے مخلص احباب نے بہت مضبوط دلائل کےساتھ بالآخر مجھے قائل کر لیا کہ میں یہ ذمے داری قبول کرلوں بصورت دیگر یہ کہنا بند کر دوں کہ ہمارے سفارتخانے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے، میرے شش وپنج کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اس اہم ذمہ داری کیلئے مجھے نامزدکیا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ان کی توقعات میںپورا نہ اتروں اس سے کچھ عرصہ پہلے میں نے طارق عزیز کےشومیں یہ واقعہ سنایا تھا کہ بیرون ملک ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی میں نے اس سے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں اس نے بتایا میں تین گھنٹے فلاں دفتر اور تین گھنٹے اِس دفترمیں اور دو گھنٹے اپنے ایک ذاتی کاروبارپر صرف کرتا ہوں، میں نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا یہاں تو ٹریفک کا رش بہت زیادہ وقت لے لیتا ہے آپ ان سارے کاموں کیلئے وقت کیسے نکالتے ہیں؟ اس نے کہا میں پاکستانی سفارتخانے میں جو کام کرتاہوں!بہرحال میں نے یہ چیلنج قبول کر لیا اگر آپ میں سے کسی کو ناروے جانے کا اتفاق ہو تو کسی بھی پاکستانی سے پوچھیں کہ عطاالحق قاسمی نام کا ایک سفیر آیا تھا اس کےبارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔

اب اس کام کیلئے آپ کو ناروے کے سفر پر اصرار کیوں کروں میں بہت کم لفظوں میں اپنی سفارت کے دوران کے چند اقدامات بیان کئے دیتا ہوں ۔میں نے ناروے کی سرزمین پر جب قدم رکھا تو پاکستانیوں کی ایک میٹنگ بلائی اور ان سے پوچھا وہ کون سے کام ہیں جو آپ کے نزدیک بہت اہم ہیں انہوں نے بیک زبان جواب دیا کہ آپ اگر ہمارا صرف ایک کام کردیں تو ہم آپ کو ساری عمر نہیں بھلا سکیں گے اور کام انہوں نے یہ بتایا کہ پی آئی اے کی فلائٹ ڈائریکٹ اوسلو آنے کی بجائے کوپن ہیگن رک کر آتی ہے جس سے اس فلائٹ میں سفر کرنے والی گھریلو خواتین اور بچوں کو بہت دشواریاں پیش آتی ہیں میں نے پوچھا اس کے علاوہ کچھ اور؟ آپ یہ کام کردیں ہم راضی ہیں۔میں نےاسی دن فرسٹ سیکرٹری قاضی فضل الرحمن نے کہا کہ اس مطالبے پر مشتمل، جو بالکل جائز ہے،متعلق محکمے کو لیٹر بھیج دیں اور اگلے دن ہی اس محکمے کی کارکردگی پر حیران رہ گیا کہ اس سے اگلے روز جواب آگیا کہ ایسا ممکن نہیں۔ ان دنوں شاہد خاقان عباسی متعلقہ محکمے کے سربراہ تھے اور مجھے یقین ہے کہ یہ لیٹر ان تک گیا ہی نہیں اور ان کے عملے نے اس وقت پاکستانیوں کا یہ جائز مطالبہ رد کر دیا۔ تب میں نے براہ راست وزیر اعظم نواز شریف سے گزارش کی کہ اوسلو کیلئے پی آئی اے کی ڈائریکٹ فلائٹ کی ضرورت ہے اور یہ روٹ پی آئی اے کیلئے بہت منافع بخش ہو گا۔میاں صاحب نے کمال مہربانی سے یہ مطالبہ پورا کیا اور پہلی فلائٹ سے پاکستان کے نامور صحافی بھی اوسلو پہنچے جو حکومتِ پاکستان کے مہمان تھے ۔ہمیں پی آئی اے نے بتایا تھا کہ اس روٹ پر مسافر بہت کم ہوں گے اور یہ ادارےکیلئے سود مند نہیں ہوگا مگر نتیجہ اس سے الٹ نکلا ۔ اس کے بعد اوسلو کی کوئی فلائٹ ایسی نہیں تھی جو مسافروں سے’’لبالب‘‘ بھری نہ ہو!

اوسلو میں قیام کے دوران میں نے محسوس کیا کہ تمام پاکستانی دکانوں پر چاول انڈیا سےآتے ہیں ،میں نے تاجروں کی میٹنگ بلائی اور کہا آپ پاکستانی چاول کیوں نہیں منگواتے انہوں نے کہا پکوان بنانے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کے چاولوں میں لذت نہیں ہے، میں نے ہنستے ہوئے کہا میں کشمیری ہوں اور چاولوں کی پہچان ہمیں سب سے زیادہ ہے کہ ہم دن میں دو ٹائم چاول کھاتے ہیں میں نے پاکستانیت کے نام پر ان سے ا ستدعا کی کہ آپ آئندہ سے پاکستان سے چاول منگوائیں اس کے بعد میں نے پکوان والوں کو بلایا اور کہا مجھے علم ہے کہ آپ سب زبردست کاریگر ہیں، پاکستانی چاول پکائیں گے تو اس میں آپ کے ہاتھ کی لذت بھی شامل ہو گی انہوں نے بھی تعاون کی یقین دہانی کرائی اور اس کے بعد ایک مہینے کے اندر اندر دکانوں سے انڈین چاول غائب ہو گئے اور اس کی جگہ پاکستانی چاولوں نے لے لی میں نے ایک اور بات بھی کہی کہ ناروے اور دوسرے مغربی ملکوں میں فیملی سسٹم ختم ہو چکا ہے اور زیادہ تر لوگ اپنے پارٹنر کے ساتھ رہتے ہیں چنانچہ آدھ آدھ کلو کے پیکٹ بھی ہونا چاہئیں او ریوں نارویجن بھی آپ کی دکانوں کا رخ کریں گے ۔میں نے جہاں ناروے کے دفتر خارجہ سے بہتر تعلقات بنائے وہاں پاکستان میں ناروے کے سفیر سے بھی میرے تعلقات کا دور شروع ہوا اور میں آج تک دفتر خارجہ اور نارویجن سفیر کی محبتوں کا اسیر ہوں ۔میں نے جو پاکستانی سیاحت یا کاروبارکیلئے اوسلو آنا چاہتے تھے میں آبریبل سفیر کو خط لکھتا تھا اور اگلے دن اسے سفارخانے سے خط آجاتا تھا کہ آئیں ویزہ لگوا لیں تاہم اس معاملے میں میں بہت محتاط بھی تھا جو میری ذمہ داری پر ناروے آتا میں اس کا پاسپورٹ گروی رکھ لیتا تھا ایک پاکستانی جوڑا غائب ہوگیا میرے عملے نے انہیں تلاش کیا اور پھر انہیں ایئرپورٹ لے جاکر اپنے سامنے جہاز میں سوار کروایا ۔میرا ایک قریبی عزیز جو مجھے بہت پیارا تھا واپس نہیں جانا چاہتا تھا اسے پیار سے سمجھایا اور واپس پاکستان بھجوا دیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین