• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذکیہ مشہدی

دانیال جب چار سال کاہو تو اس کی سالگرہ پر کسی نے ایک گھوڑا تحفے میں دیا۔ یہ لکڑی اور چمڑے سے بنا ہوا تھا۔ اس پر باقاعدہ زین کسی ہوئی تھی۔ رکابیں اور باگ بھی تھی۔ اس میں ایک بٹن بھی تھا۔ بٹن دبانے سے گھوڑا آگے پیچھے حرکت کرنے لگتا تھا اور ٹپاٹپ کی آوازیں آتی تھیں۔ بالکل ایسی جیسی گھوڑا دوڑنے سے اس کی ٹاپوں سے نکلتی ہیں۔ دانیال اس تحفے سے سب سے زیادہ خوش ہوا۔ 

اسکول سے آتے ہی اس پر سوار ہو جاتا اور کچھ دیر بعد ہی منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھاتا۔ ڈھائی سال گزر گئے لیکن ذرا بھی خراب نہیں ہوا تھا۔ دانیال اب بھی اس سے کھیلتا تھا، اسے وہ بہت عزیز تھا۔ دانیال کی دادی نے ایک نئی ملازمہ بینا رکھی۔ 

وہ گھر کی صفائی کرتی اور باروچی خانے میں اوپر کا کام کراتی تھی۔ اس کی ایک چار سال کی بیٹی تھی۔ اس کا نام رخشی تھا۔ بینا اسے اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر کام کرنے آتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی رخشی اس کے ساتھ آنے کی ضد کرتی۔ تب اسے لے کر آنا پڑتا تھا۔ 

اس کو صاف ستھری فراک پہناتی اور ساتھ لے آتی۔ دانیال کی دادی اسے ٹافی یا بسکٹ دے دیتیں۔ کوئی ایسا کھلونا بھی جس سے اب دانیال نہیں کھیلتا تھا۔ لیکن رخشی کی نظریں گھوڑے پر لگتی رہتیں۔ وہ اسے بہت پسند تھا۔ خاص طور سے اس کا جھولے کی طرح حرکت کرنا اور ٹپاٹپ کی آوازیں۔ایک دن اُس نے سب کی نظریں بچا کر گھوڑے پر چڑھنا چاہا۔ 

وہ چڑھ تو نہیں پائی لیکن اس کی باگیں پکڑ کر اس سے کھیلنے لگی، پھر اس نے گھوڑے کا بٹن دبا دیا۔ ٹپاٹپ کی آوازوں کے ساتھ گھوڑا حرکت کرنے لگا۔ رخشی کا چہرہ خوشی سے گلنار ہوگیا۔ وہ تالی بجانے لگی۔ دانیال اسی وقت اسکول سے آ یا۔ گھوڑے کی ٹاپوں اور ر تالی کی آواز سن کر دوڑا ہوا آیا۔ رخشی کو گھوڑے سے کھیلتا دیکھ کر بہت ناراض ہوا۔ اس نے زور سے چلا کر کہا ،’’بینا، بینا، کہاں ہو تم۔ 

اسے دیکھو، اپنی بیٹی کو۔ یہ میرا گھوڑا توڑ دےگی‘‘۔ بینا دوڑی ہوئی آئی ’’دانیال نے اس سے کہا،’’تم اسے یہاں کیوں لاتی ہو۔ یہ میرے کھلونے چرا کر لے گی۔‘‘ ’’نہیں لے جائےگی بیٹا۔ ہم ہیں نا اور یہ روز نہیں آتی ہے۔‘‘ بینانے کہا اور رخشی کو تھوڑا کھینچ کر گھوڑے سے الگ کیا۔ وہ رونے لگی۔

ہنگامہ سن کر دانیال کی دادی وہاں آ گئیں۔’’دانیال!‘‘وہ ناراضگی سے بولیں ’’تم نے بینا کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ سوری کہو اور ہاں تم بینا کا نام کیوں لیتے ہو۔ وہ بڑی ہے اسےآنٹی کہا کرو۔‘‘’’جانے دیجئے۔ اماں جی۔ بھیا ابھی چھوٹے ہیں۔‘‘ بینا نے کہا۔’’ انہیں جاننا چاہئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‘‘ دادی نے کہا۔

’’بینا تو نوکر ہے اسے ہم آنٹی کیوں کہیں اور اس کی بیٹی کو گھوڑے سے کیوں کھیلنے دیں۔‘‘دانیال نے منہ پھلاکر کہا۔ دادی وہیں ٹیریس پر رکھی کرسیوں میں سے ایک پربیٹھ گئیں۔ ہاتھ پکڑ کر دانیال کو گود میں بٹھا لیا۔ پیار سے بولیں ’’بیٹا، محنت اور ایمانداری سے کام کرنے والا ہر انسان عزت کے لائق ہوتا ہے۔ سب کا کام اپنی اپنی جگہ ضروری ہے۔ 

اگر بینا گھر کے کام میں مدد نہ کرے تو آپ کی ممی اپنے کام پر نہیں جا سکیں گی۔ وہ ڈاکٹر ہیں۔ وہ بھی نوکری کرتی ہیں۔ رخشی چھوٹی بچی ہے اگر اس نے گھوڑا چھو لیا تو آپ کو چلانا نہیں چاہئے تھا۔ سمجھا کر بھی الگ کرسکتے تھے۔ بچے سب اچھے ہوتے ہیں۔ بچے سب کے ہوتے ہیں۔ آئی بات سمجھ میں؟‘‘دادی نے اسےبہت پیار سے سمجھایا۔

’’آئی دادی۔‘‘ دانیال دھیرے سے بولے۔اچانک رخشی نے بھیں بھیں کر کے رونا شروع کر دیا۔ دانیال، اس کی دادی، اس سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔’’روؤ مت، آؤمیرے گھوڑے کے ساتھ کھیل لو۔ میں کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘ دانیال نے کہا۔ رخشی ہنسنے لگی۔ بچے سب ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ذرا میں رونا، ذرا میں ہنسنا۔ وہ بڑے معصوم ہوتے ہیں۔ کسی کے ہوں، کہیں ہوں۔