(گزشتہ سے پیوستہ)
ناروے میں میری سفارت کے دوران انڈیا نے ایٹمی دھماکے کئے، مجھے دفتر خارجہ میں بلا کر یہ درخواست کی گئی کہ پاکستان کے اس جواب میں ایٹمی دھماکہ نہ کرے۔ میں نے کہا میں آپ کی یہ ریکوسٹ اپنی حکومت تک پہنچا دوں گا تاہم میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ اگر انڈیا ایٹمی طاقت ہونے کے زعم میں کبھی پاکستان پر حملہ کرے تو کیا ناروے پاکستان کی مدد کو آئے گا۔ جواب ملا ’’نہیں‘‘ میں یہی بات ان سے سننا چاہتا تھا۔ ادھر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنوں اور غیروں کی مخالفت کے باوجود انڈیا کے پانچ دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کر دیئے، اس روز ناروے میں مقیم پاکستانیوں کی خوشی دیدنی تھی، صرف پاکستانی ہی خوش نہیں تھے پورا عالم اسلام خوش تھا۔ انہی دنوں میں دفتر خارجہ کی ایک دعوت کے دوران مسلم ممالک کے سفیر مجھے تنہا کھڑے دیکھتے تو ایٹمی دھماکوں پر مبارکباد کہتے، ان سے اپنی خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد بارہ چودہ نارویجن نے ہمارے سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ یادداشت پیش کرنا چاہتے ہیں، میں یہ سنکر خود انکے پاس چلا گیا ان سے یادداشت وصول کی اور ان سے مکالمہ کیا کہ انڈیا کے دھماکوں کے بعد پاکستان کے پاس اسکا جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس دوران مشروبات سے انکی تواضع کی اور وہ خوش باش وہاں سے چلے گئے۔ میرے دفتر کے دروازے ہر ایک کیلئے کھلے تھے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔ مجھے بتایا گیا کہ پاکستان سے ایک صاحب آپ سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔ میں نے انہیں اندر بلا لیا۔ اپنے لباس کی نفاست کے حوالے سے وہ بہت معقول لگ رہے تھے۔ میں نے ان سے آمد کا مقصد پوچھا تو کہنے لگے میں نے ویاگرا کے مقابلے میں اس سے زیادہ بااثر اور مضر اثرات سے پاک ایک دوا بنائی ہے، میں نے پوچھا پھر؟ کہنے لگے میں اس حوالے سے پوری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کرنا چاہتا ہوں اور انہیں یہ باور کرانے کا خواہشمند ہوں کہ پاکستان فارمیسی کے شعبے میں کسی سے کم نہیں ہے۔ میں نے پوچھا ’’پھر‘‘ بولے آپ وزیراعظم سے بات کریں اور وہ مجھے پاکستان میں دس کنال کا پلاٹ الاٹ کر دیں جہاں میں اس میڈیسن کا پلانٹ لگائوں گا اور بہت بھاری مقدار میں اس کی برآمد یقینی ہے جس سے پاکستان کا نام روشن ہونے کے علاوہ ہمارا خزانہ تہی دست نہیں رہیگا۔ میں ان صاحب کی ساری گفتگو کے دوران میں زیر لب مسکراتا رہا، جب انہوں نے اپنی بات مکمل کرلی تو میں نے کہا پلانٹ کیلئے آپ کو جگہ بھی مل جائے گی اور بہت بھاری رقم اسکے علاوہ ہوگی، خوش ہو کر بولے کس طرح؟ میں نے جواب دیا آپ ناروے کے محکمہ صحت سے اس کی افادیت کا سرٹیفیکیٹ لے لیں۔ اسکے بعد بیسیوں فارما سوٹیکل کمپنیاں آپ کے پیچھے پیچھے ہونگی اور اربوں روپے کی آفر ہوگی۔ میری بات سنکر مایوس ہوگئےاور یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ میں یہ کریڈٹ کسی غیر ملک کو نہیں اپنے پاکستان کو دینا چاہتا ہوں۔ اس سے اگلا حصہ بہت دلچسپ ہے مگر پورا بیان نہیں کرونگا۔ موصوف جس پاکستانی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے وہ میرا بہت قریبی دوست تھا اور سفیر بننے سے پہلے کا تھا، ایک دن وہ میرے پاس آیا اور اس کی ہنسی روکے نہ رکھتی تھی، میں نے پوچھا کیا معاملہ ہے اس نے کہا جو حکیم صاحب آپ کی طرف آئے تھے، ایک دوست کی معرفت انکا قیام میری طرف تھا۔ ایک دن کہنے لگے میں جب اپنی دوا کسی مریض کو دیتا ہوں تو اس کا تجربہ پہلے خود پر کرتا ہوں، دوست نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے، یہ سن کر حکیم صاحب بولے میں نے ابھی کل رات ایک بہت مقوی دوا تیار کی ہے وہ تن مردہ میں بھی جان ڈال دیتی ہے۔ دوست نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے، مریضوں پر تجربہ کرنے کی بجائے اسے پہلے خود پر آزمانا چاہیے۔ یہ سن کر حکیم صاحب نے بتایا کہ میں نے ایک گھنٹہ پہلے اس کی ایک خوراک لی ہے اور اسے اپنی توقع سے بھی زیادہ زود اثر پایا ہے۔ میں اس وقت پوری طرح اس دوا کے مثبت اثرات کی زد میں ہوں، کچھ کریں، اسکے بعد حکیم صاحب نے کھل کربات کی اور میرے دوست نے اسکے جواب میں جو کہا وہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ خیر یہ قصہ تو یونہی درمیان میں آگیا، آپ کو ایک بات بتانے کی یہ تھی کہ میں عوام میںسے تھا، عوام میں سے ہوں اور یوں ہی اپنے پاکستانیوں کے ساتھ گھل مل گیا، اس دوران میرے حوالے سے ایک بات پھیلائی گئی کہ سفیر صاحب پاکستانی ڈرائیوروں کے ساتھ کھانا کھاتے پائے گئے، پہلے میں نے سوچا یہ کون سا جرم ہے جس پر کوئی کان دھرے گا مگر جب میں نے محسوس کیا کہ کچھ پاکستانی اس الزام کو واقعی سیریس لے رہے ہیں تو میں جو جمعہ کی نماز مختلف مساجد میں ادا کیا کرتا تھا، اگلے جمعہ کو میں نے اوسلو کی سب سے بڑی مسجد کا انتخاب کیا۔ میں نے وہاں تقریر کی اور بتایا کہ ان دنوں مجھ پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے، میں یہ بتانے کیلئے آپ کے پاس آیا ہوں کہ یہ الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ میں پاکستانی ڈرائیوروں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔ مجھے آج صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں انہی لوگوں میں سے ہوں،انہی لوگوں کے ساتھ رہوں گا اور میری دعا ہے کہ جب میں مروں تو قیامت کے روز میں سرداروں اور وڈیروں کے ساتھ اٹھائے جانے کی بجائے رزق حلال کھانے والے اپنے ان بھائیوں کیساتھ اٹھایا جائوں۔ جس پر نمازیوں نے تالیاں بجائیں اور یوں اس کہانی کا یہیں خاتمہ ہوگیا۔میں نے ناروے میں ایک بہت اہم بات یہ نوٹ کی کہ وہاں لوگ اپنی امارت کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے، میرا گھر سمندر کے کنارے تھا جو انتہائی مہنگا تھا مگر اسکا مالک جب کسی کام سے باہر جاتا تو پھٹیچر سی کار میں جاتا اور کپڑے بھی ’’لنڈے‘‘ کے لگتے تھے۔ شہر کے مرکز میں بادشاہ کا دفتر تھا، باہر سے بھی عام سا اور جب میں سیڑھیاں چڑھ کر بادشاہ سلامت سے ملاقات کیلئے گیا، میرے لئے دروازہ کھولا گیا، سامنے بادشاہ اپنے دفتر کے درمیان میں میرے استقبال کیلئے کھڑے تھے، آفس میں صرف ایک میز تھا اور دو کرسیاں، ایک کرسی پر بادشاہ سلامت تشریف فرما ہوگئے۔ (جاری ہے)