جمعہ کو یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات سے چند گھنٹے قبل ہی ایک امریکی سینیٹر نے زیلنسکی کو خبردار کردیا تھا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کیرولینا کے ریپبلکن سینیٹر لنزے گراہم نے زیلنسکی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ اشتعال میں نہ آئیں۔
انکا کہنا تھا کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ سیکیورٹی معاہدوں پر بحث میں نہ الجھیں۔
خیال رہے کہ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے دوران زیلنسکی نے یوکرین کی جنگی صورتحال اور امریکی فوجی امداد کی غیر یقینی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
جیسے ہی انہوں نے امریکا سے مزید مدد کا مطالبہ کیا تو ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے ان پر ناشکری کا الزام لگایا۔
یہ ملاقات ایک غیر معمولی تنازع میں تبدیل ہوگئی اور بالآخر زیلنسکی کو قبل از وقت وائٹ ہاؤس سے روانہ ہونا پڑا۔
زیلنسکی کا امریکی حکام سے یوکرین میں موجود معدنیات کی شیئرنگ معاہدہ کرنے کا منصوبہ بھی اسی تلخی کے باعث ناکام ہوگیا۔
ٹرمپ نے ایک بار پھر یوکرین کو روس سے امن مذاکرات کرنے کا مشورہ دیا، جس پر زیلنسکی اور ان کے یورپی اتحادیوں کو تشویش لاحق ہوگئی۔
جب زیلنسکی وائٹ ہاؤس پہنچے تو ٹرمپ نے ان کے مخصوص فوجی لباس پر طنزیہ جملہ کستے ہوئے کہا، "اوہ دیکھو، تم آج بڑے تیار ہو کر آئے ہو!۔"
ملاقات کے دوران، ٹرمپ نے زیلنسکی سے روس کے ساتھ کسی معاہدے پر آمادگی کے بارے میں دباؤ ڈالا۔ اسی دوران نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی پر امریکی امداد کی قدر نہ کرنے کا الزام عائد کیا۔
زیلنسکی نے اس تنقید کا براہِ راست جواب دیتے ہوئے کہا، "کونسی سفارت کاری، جے ڈی؟"۔
انہوں نے روسی حملے سے پہلے کی گئی سفارتی کوششوں کی ناکامی کا حوالہ دیا، جس پر وینس برہم ہوگئے اور زیلنسکی پر صدر ٹرمپ کی توہین کا الزام لگایا۔
ٹرمپ نے اس موقع پر خبردار کرتے ہوئے کہا، "آپ تیسری جنگِ عظیم کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔"
ملاقات میں تلخی اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب زیلنسکی نے کہا، "آپ کے پاس ایک خوبصورت سمندر ہے، اس لیے ابھی خطرہ محسوس نہیں ہوتا لیکن مستقبل میں آپ کو محسوس ہوگا۔"
ٹرمپ نے زیلنسکی کی اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے ملاقات اچانک ختم کردی اور صحافیوں سے کہا، "یہ سب شاندار ٹی وی شو بنے گا۔"
سینیٹر لنزے گراہم جو ابتدا میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے، بعد میں پریس سے گفتگو میں زیلنسکی پر ہی تنقید کرنے لگے۔
انہوں نے کہا، "زیلنسکی کو مستعفی ہو کر کسی ایسے شخص کو بھیجنا چاہیے جس سے ہم معاملہ کر سکیں، یا پھر اپنی پالیسی تبدیل کریں۔"
زیلنسکی نے بعد میں فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ یہ تبادلہ گرما گرم تھا، لیکن انہوں نے اپنے موقف کو ضروری قرار دیا۔