• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہی بات ہوسکتی ہے، فوجی عدالتیں قانونی ہیں یا غیرقانونی، جج آئینی بنچ

اسلام آباد(ایجنسیاں، مانیٹر نگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک ہی بات ہوسکتی ہے کہ یافوجی عدالتیں قانونی ہیں یا غیر قانونی ہیں۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے بعد ملزمان آرمی ایکٹ کے تابع ہوگئے، انسداد دہشت گردی عدالت کمانڈنگ افسر کی درخواست کو مسترد بھی کر سکتی تھی۔ کیا انسداد دہشت گردی عدالت حوالگی کی درخواست مسترد کر سکتی ہے؟ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شکایت کے اندراج کا طریقہ ضابطہ فوجداری میں واضح ہے، درخواست مجسٹریٹ کو جاتی ہے جو بیان ریکارڈ کرکے فیصلہ کرتا ہے کہ تفتیش ہونی چاہیے یا نہیں۔ آرمی رولز کے مطابق پہلے تفتیش ہوتی ہے، لیکن تحقیقات کیلئے بھی کوئی شکایت ہونا لازمی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا گلہ خراب ہونے اور ناسازی طبع کی بنیاد پر بینچ نے دن 11بجے ہی کیس کی مزید سماعت آج (منگل)تک کیلئے ملتوی کردی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ میں شامل تھے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی ، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بنچ کا حصہ تھے۔سماعت شروع ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ 105 ملزمان کے ملٹری ٹرائل کیلئے سلیکشن کیسے ہوئی، اصل ایشو یہ ہے کیا قانون اجازت دیتا ہے جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ ملزمان کی حوالگی ریکارڈ کا معاملہ ہے، کیا آپ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 94 کو چیلنج کیا ہے؟ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کے وقت جرم کا تعین نہیں ہوا تھا، سیکشن 94 کے لامحدود صوابدیدی اختیار کو بھی چیلنج کیا ہے، ملزمان کی ملٹری حوالگی کا فیصلہ کرنے والے افسر کا اختیار لامحدود ہے۔

اہم خبریں سے مزید