کراچی (بابر علی اعوان/اسٹاف رپورٹر ) امریکہ میں ٹیسلا اسٹورز کے باہر مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ سی ای او ایلون مسک کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر حکومتی اخراجات میں کٹوتیوں کی وکالت کی جارہی ہے جس کے خلاف مظاہرین بول رہے ہیں۔ یہ مظاہرے واشنگٹن میں مسک کے بااثر کردار کے حوالے سے شمالی امریکہ اور یورپ دونوں میں عدم اطمینان کی بڑھتی ہوئی لہر کی عکاسی کرتے ہیں۔ ٹرمپ اور مسک دونوں کے ناقدین کا مقصد ٹیسلا کاروں کی خریداری کی حوصلہ شکنی اور کار ساز کمپنی کی ساکھ کو داغدار کرنا ہے۔ لبرل گروپوں نے ان ٹیسلا مخالف مظاہروں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کا مقصد مسک کے محکمہ برائے حکومتی کارکردگی کے خلاف احتجاج کرنا اور نومبر میں ٹرمپ کی فتح سے ابھی تک ڈیموکریٹس کو متحرک کرنا ہے۔ نیوٹن میساچوسٹس سے تعلق رکھنے والے 58 سالہ ماحولیات کے ماہر نیتھن فلپس جنہوں نے بوسٹن کے احتجاج میں حصہ لیا کا کہنا تھا کہ ہم ٹیسلا کا بائیکاٹ کر کے اسے براہ راست معاشی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مسک، ٹرمپ کی رہنمائی میں، وفاقی اخراجات اور افرادی قوت میں نمایاں کمی کی وکالت کر رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ٹرمپ کی فتح انہیں امریکی حکومت کی تشکیل نو کا مینڈیٹ دیتی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (DOGE) کے حکام نے حساس ڈیٹا بیس تک تیزی سے رسائی حاصل کی ہے، ہزاروں وفاقی ملازمتوں میں کٹوتی شروع کی ہے، معاہدے ختم کیے ہیں، اور امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی سمیت کئی اداروں کو بند کیا ہے۔ مسک کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے اقدامات کانگریس کے اختیارات کی نفی کرتے ئیں، امریکی بجٹ کو کنٹرول کرنے اور ان کے لیے خود کو مالا مال کرنے کے لیے بہت سے طریقے پیش کرتے ہیں۔