• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈیا چونکہ میرا شعبہ ہے لہٰذا اس حوالے سے مختلف یونیورسٹیز میں ماس کمیونیکیشن اور فلم اینڈ ٹی وی کے طلباء سے گفتگو کا موقع ملتا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں اسی حوالے سے ایک یونیورسٹی کے سیشن میں طلبا و طالبات سے ایک سوال پوچھا کہ آپ نے اِس شعبے میں داخلہ کیوں لیا؟ کچھ متفرق جوابات یوں ملے۔ ”نمبروں کی وجہ سے اور کسی شعبے میں داخلہ نہیں مل رہا تھا۔ سُنا ہے میڈیا والوں کو بڑی بڑی تنخواہیں ملتی ہیں۔ فارغ بیٹھنے سے تو بہتر تھا کچھ نہ کچھ کر لیا جائے۔ مجھے سب خاندان والے کہتے تھے کہ تمہیں اسکرین پر نظر آنا چاہیے۔ میڈیا والوں کو کوئی پولیس یا بدمعاش تنگ نہیں کرتا۔“ میں نے پوچھا کہ آپ لوگ یہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد بننا کیا چاہتے ہیں؟ 90فیصد کا جواب تھا کہ ’ڈائریکٹر‘۔ بڑی خوشی ہوئی۔ پوچھا کہ ڈائریکٹر کون ہوتا ہے؟ جواب ملا ’ڈائریکٹر از دی کیٹپن آف دا شپ‘ (ڈائریکٹر جہاز کا کپتان ہوتا ہے)۔ یہی رائج الوقت جواب چلا آ رہا ہے۔ طلباء نے بڑے فخر سے ایک ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں بتائیں کہ اُسے لائٹنگ کا پتا ہونا چاہیے، کیمرے کا پتا ہونا چاہیے۔ کس شاٹ کو کیسے لینا ہے یہ علم ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا کہ یہ سارے کام تو ایک اچھا کیمرہ مین بھی کر سکتا ہے تو ڈائریکٹر کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر طلباء نے پرجوش انداز میں آگاہ کیا کہ ڈائریکٹر وہ بندہ ہوتا ہے ساری ٹیم جس کی بات مانتی ہے لہٰذا اس کا ہونا بہت ضروری ہے۔ میں نے سوال کیا کہ ڈائریکٹر کو نفسیات اور ادب کا بھی کچھ پتا ہونا چاہیے کہ نہیں؟۔ سب نے مشترکہ طور پر ہاں میں جواب دیا۔ پوچھا کہ آپ میں ڈائریکٹر بننے کے خواہشمند کتنے طلباء ہیں جو مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتے ہیں؟۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر جواب اندازے کے عین مطابق آیا۔

یونیورسٹیز میں زیادہ تر یہی ہو رہا ہے۔ میڈیا کی کلاسز میں بہت کم بچے اسکرپٹ رائٹنگ کی طرف آتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق پڑھنے لکھنے سے ہے۔ جو کالم نگاری کی طرف آنا چاہتے ہیں اُن سے پوچھا جائے کہ آپ کس کس کالم نگار کو پڑھتے ہیں تو 90 فیصد کالم ہی نہیں پڑھتے۔ نیوز کاسٹر بننے کے خواہشمند اپنے غلط تلفظ پر توجہ دینے کی بجائے ایک چانس ملنے کے منتظر ہیں۔ اینکر بننے کا خواہشمند ہر دوسرا بچہ حامد میر بننا چاہتا ہے لیکن حالات حاضرہ پر توجہ کا یہ عالم ہے کہ نہ ملک کے وزیر داخلہ کا نام پتا ہے نہ وزیر خارجہ کا۔ اخبار پڑھنے کا وقت نہیں، کتابیں بوجھل لگتی ہیں، ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے البتہ سوشل میڈیا پر کچھ نظر میں آجائے تو اسی پر یقین کر کے پورا بیانیہ ترتیب دے لیتے ہیں۔ کبھی کبھی میں خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹیز سےجو میڈیا اسٹڈیز کے طلباو طالبات ڈگریاں لے کر نکل رہے ہیں یہ کہاں ملازمت کریں گے؟ زیادہ تر شعبوں کا یہی حال ہے۔ میڈیکل کے شعبے میں کئی والدین اس لیے بھی بیٹیوں کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں تاکہ اُن کے اچھے رشتے ہو سکیں۔ اُردو اور مادری زبانوں کی ڈگریاں اس لیے لی جاتی ہیں کہ نمبر اچھے آتے ہیں اور کوئی سر کھپائی بھی نہیں کرنی پڑتی۔ پرانے دور میں ایم اے ہی سب سے بڑی ڈگری شمار ہوتی تھی لہٰذا جو ایم اے کر لیتا تھا وہ پھر ڈبل ایم اے کرتا تھا اور ٹرپل ایم اے والے کی تو شان ہی نرالی ہوتی تھی۔ آج کل ایم فل اور پی ایچ ڈی پر زور ہے۔ میں نے آج تک نہیں سنا کہ کوئی پی ایچ ڈی کے وائیوا میں رہ گیا ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اکثر نگران اپنی نگرانی میں یہ پل صراط پار کروا دیتے ہیں حالانکہ وائیوا کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ مقالہ نگار نے جو کچھ لکھا ہے کیا اس کے بارے میں خود بھی واقف ہے یا نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ فارغ بیٹھے ہوں تو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ کیوں نہ کوئی ڈگری ہی لے لی جائے۔ بیٹھے بٹھائے ڈگریوں کے ڈھیر لگتے جاتے ہیں اور ڈھنگ کا ایک کام بھی نہیں آتا۔ دنیا بھر میں ڈگریوں کی ڈیمانڈ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر پرائیویٹ کمپنی کو کسی کام کے لیے کوئی بندہ چاہیے تو تین صورتیں ہو سکتی ہیں کہ بندے کے پاس ڈگری ہو لیکن کام نہ آتا ہو، دوسرے یہ کہ کام آتا ہو لیکن ڈگری نہ ہو اور تیسرے یہ کہ ڈگری بھی ہو اور کام بھی آتا ہو۔ تیسری صورت بہرحال دوسری صورت کے مترادف ہے۔ سو دُنیا ہنر کو ترجیح دے رہی ہے۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ ڈگریاں تعلیم کی رسیدیں ہیں۔ آج کل یہی رسیدیں دکھا کر لوگ ملازمتیں لینا چاہ رہے ہیں لیکن تھک ہار کر کھانے پینے کی کوئی ریڑھی لگا لیتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر تصویر شائع ہوتی ہے کہ ’ایم اے پاس نوجوان نے دال چاول کی ریڑھی لگا لی‘۔ گویا دال چاول کی ریڑھی لگانا صرف ان پڑھ کو سوٹ کرتا ہے۔ ہُنر کا اعجاز یہ ہے کہ اپنے کام کے ماہر شخص نے بے شک پی ایچ ڈی کیوں نہ کی ہوئی ہو لیکن اگر وہ اپنے فن میں ممتاز ہے تو اُس پر پی ایچ ڈی ہوتی ہے۔ میں تعلیم کے خلاف نہیں لیکن بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھانا چاہیے۔ اُس عملی زندگی میں دھکیلئے جہاں اُس نے صحیح معنوں میں کچھ سیکھنا ہے۔ موٹر مکینکوں کی بڑی تعداد زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتی، فٹ پاتھ پربریانی بیچنے والے نے عموماً کوئی ڈگری نہیں لی ہوتی، تنور لگانے والے نے ایم بی اے نہیں کیا ہوتا لیکن اپنے بزنس کی ایڈمنسٹریشن بہترین انداز میں کر رہا ہوتا ہے۔ جو چھوٹا موٹر سائیکل کا پہیہ کھول کر پنکچر لگا لیتا ہے وہ اُس بڑے سے بہتر ہے جو روز نوکری کی تلاش میں موٹر سائیکل دوڑاتا پھرتا ہے۔ کسی یونیورسٹی میں پڑھنا ہے تو کم از کم اُس شعبے کی تمام تر باریکیوں کو ضرور سیکھئے ورنہ دنیا بھری پڑی ہے ایسے لوگوں سے جو ہنر مند کم اور ضرورت مند زیادہ ہیں۔ ایسے لوگ ڈگری میڈیکل کی لیتے ہیں اور کنسٹرکشن کمپنی میں منیجر کی نوکری بھی مل جائے تو فوراً قبول کر لیتے ہیں۔

تازہ ترین