مارچ وہ مہینہ ہے جس میں قیام پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔22 سے 24مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی جسکی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کیلئے عليحدہ وطن کے حصول کیلئے تحریک شروع کی اورسات برس میں اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ مگر قیام پاکستان کے بعد ہم نے اپنے ان اکابر کے کار ناموں اور ان کے بتائے ہوئے اصولوں کو فراموش کردیا جو وطن عزیز کو ترقی کی راہ کی جانب لے جاتے، ایک حصہ جدا ہونے کے باوجود ہم ہوش کے ناخن نہیں لے سکے، اس ملک کو آزادی کے بعد عوام کا پاکستان بنانے کے بجائے اشرافیہ کا وطن بنادیا گیا،آج پاکستان کی حالت زار لمحہ فکریہ بنی ہوئی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار سیاسی کارکن اور نوجوان اب ملک و قوم کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ پر سوال اٹھانے کی جرات کرنے لگےہیں، یہ ایک اچھی اور مثبت تبدیلی ہے جسکے مستقبل میں اچھے نتائج آئیں گے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ملک میں بے روزگاری، سیاسی بے چینی،بے قراری اور پریشانی کا عالم ہے، معاشی بدحالی کی بدولت عام آدمی کا جینا محال ہوچکا ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کا ناسور ایک بار پھر سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت ملکی معاشی صورت حال کے بہتر ہونے کا دعویٰ تو کررہی ہے مگر خود ساختہ ، مہنگائی کو روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے، ماہ مقدس رمضان المبارک میں مہنگائی کا ایک طوفان ہے، برسر اقتدار حکمران مہنگائی کم کرنے، ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں اور مہنگائی مافیا کے خلاف کارروائی کرنے اور عوام کو سستے نرخوں پر اشیا کی فراہمی یقینی بنانے کے بلند بانگ دعوے تو کر رہے ہیں مگر اس پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، متوسط وغریب طبقے کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
دنیا بھر میں مذہبی اور قومی تہواروں پر لوگوں کو ریلیف دیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں رمضان جیسے اہم ترین مہینے میں مہنگائی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے، دوسری جانب رمضان میں بھی عالمی دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی سے باز نہیں آرہے ہیں، سکیورٹی اہلکاروں پر حملے روز کا معمول بنتا جا رہا ہے، ایسے نازک وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ، الزام تراشی کی بجائے سرجوڑ کر ملک کے معاشی حالات میں سدھار لانے اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ اس وقت ملک میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت اور افغانستان براہ راست ملوث ہیں، امریکا نے افغانستان میں جو اسلحہ چھوڑا ہے وہ پاکستان کے خلاف استعمال ہورہاہے جس پر پاکستان کو افغان حکام سے احتجاج کرنا چاہئے۔ حالیہ دہشت گرد ی قومی سلامتی، معاشی استحکام اور علاقائی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، کے پی کےاور بلوچستان میں عسکری تنظیموں کا دوبارہ منظم ہونا، بیرونی مداخلت اور داخلی عدم استحکام کا نتیجہ ہے، عسکریت پسندی کی بحالی نے سیکورٹی اداروں اور پالیسی سازوں میں تشویش پیدا کر دی ہے، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ہونے والی دہشت گردی میں مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت مذہبی یگانگت کو تباہ کرنے کی غیر ملکی سازش ہے، مولانا حامد الحق حقانی ملک میں یک جہتی کے فروغ کیلئے کام کر رہے تھے، ان کی شہادت ناقابل تلافی نقصان ہے، وہ ایک جید عالم دین تھےان کی اسلام کیلئے بے پناہ خدمات ہیں۔ کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی پرپاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر اٹھایا جا رہا ہے مگر افغان عبوری حکومت اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہے۔ دہشت گرد کارروائیوں میں افغان زمین کا استعمال ہونا واضح حقیقت ہے۔ طالبان کا یہ اقدام دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس میں یقین دلایا گیا تھا کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں بننے دیں گے۔ اس تشویشناک مسئلے کو جہاں مغربی ہمسایہ ممالک کیساتھ دوبارہ اٹھانے کی ضرورت ہے وہیں داخلی حکمتِ عملی کا بھی ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا ہو گا، پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے، وہ عید کے بعد تحریک چلانے کی جو دھمکیاں دے رہے ہیں اس میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔
آخر میں کچھ بات کراچی شہر کے بارے میں جہاں آئے روز ڈکیتی و چھینا جھپٹی کی وارداتوں میں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں وہاں اب ڈمپر، ٹرالر، ٹینکر بھی لوگوں کو کچل رہے ہیں لیکن انہیں روکنے ولا کوئی نہیں۔ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ شہر میں امن و امان خراب نہیں ہو سکے۔ ایک اور اہم مسئلہ ملک میں اس وقت بینکوں اور دیگر معاملات میں بائیو میٹرک کا بھی ہے، اکثر افراد خصوصاً بزرگوں کی انگلیوں کے نشانات واضح نہیں ہو پاتے ہیں، شناخت کی تصدیق میں درپیش مشکلات کو دور کرنے کیلئے ان کی شناخت چہروں سے کی جائے، دوسرے یہ کہ مستقل بنیاد پر ایسے شہریوں کو سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جائے جس سے ان کی مشکلات کا خاتمہ ہو سکے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ نادرا کی جانب سے شہریوں کو آسانی فراہم کرنے کے بجائے مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔