4 مارچ کو دہشتگردوں نے بنوں چھاؤنی پر حملہ کی صورت پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کرکے وہی کیا جو 9 مئی کوتحریک انصاف نے فوج اور فوجی تنصیبات پر حملے کرکے اعلان بغاوت کیا تھا اور یہ ثابت کیا عمران خان اور افغان طالبان کا کہیں نہ کہیں کنکشن ہے کیونکہ دونوں کا ٹارگٹ پاکستان ہے اور دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے تحریک انصاف کے طالبان کے ساتھ گہرے راہ و رسم اور رابطے ثابت ہوتے ہیں۔عمران خان کی پالیسی کے تحت پاکستان کی جیلوں میں قید دہشتگردوں کے افغانستان میں روپوش 42 دہشتگردوں پاکستان لاکر انہیں سرحدی پٹی میں آباد کیا گیا۔جیسا کہ 9 مئی کوعمران خان کے ریاست دشمن اقدامات اور دھمکیوں کے تناظر میں اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ عمران خان ملک دشمنی میں اس سے کہیں آگے جا سکتے ہیں، افغان طالبان سے ان کے خفیہ رابطے اور پاکستان میں آباد کئے گئے دہشتگردوں کی جانب سے دہشتگردی کی بڑھتی ہوئی واداتوں سے یہ اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ خیبرپختونخوا میں موجود شرپسند عناصر اور پاکستان میں پھیلے ہوئے 42 ہزار دہشتگرد افغان طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان پر اٹک اور بنوں کے اطراف سے حملہ کر سکتے ہیں جسے ناکام بنانے کے لئے ملک کی حفاظت کے ذمہ دار ادارے بہت پہلے سے پوری طرح تیار تھے جبکہ دوسری جانب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ مختلف حیلے بہانوں سے افغانستان کا دورہ کرنے کے لئے بیچین تھے لیکن انہیں اس دورے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ خارجہ پالیسی مرتب کرنا اور اس پر عمل درآمد وفاقی حکومت کے دائرۂ اختیار میں ہے لیکن طالبان تعاون کا یہ سلسلہ خفیہ ذرائع سے آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ 4مارچ کو دہشتگردوں کے جتھے نے بنوں چھاؤنی پر حملہ کرکے عمران خان کی حمائت کا باقاعدہ اعلان کردیا۔اس حملے میں بھی دہشتگردوں نے ایسی "جرات" کا مظاہرہ کیا کہ سامنے سے فوجی گاڑیوں کو آتا دیکھ کر اسلحہ سے لیس دو گاڑیاں چھاؤنی سے باہر ایک مسجد کی دیوار سے ٹکرا دیں اور رب ذوالجلال کے گھر کا ایک حصہ شہید کر دیا اور بچوں سمیت سولئنز جانبحق ہو گئے۔اگرچہ اس ملک کے محافظوں نے دہشتگروں کا حملہ با آسانی ناکام بنا دیا لیکن پاکستان کے دشمنوں کو یہ پیغام دے دیا کہ آئندہ 9مئی اور 4مارچ جیسے واقعات دہرانے کی جرات کسی پاکستان دشمن جماعت یا گروہ کو نہیں ہونی چاہیے۔9مئی کو تحریک انصاف کے شرپسند گروہوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملوں کے دوران حساس اداروں نے باوجوہ ردعمل ظاہر کرنے میں جس تاخیر کا یہ غلط مطلب لیا گیا کہ فوج تحریک انصاف کا سامنا کرنے کے قابل نہیں اور اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں اینٹی پاکستان سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے پاکستان اور فوج کے خلاف زہریلی تحریک شروع کردی، پھر کیا ہوا کہ 9مئی )جسے تحریک انصاف نے بغاوت کا نام دیا تھے( کی بغاوت میں شریک ایک ایک ’’باغی‘‘ کو ڈھونڈ کر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے ان تمام علاقوں پر طالبان کا غلبہ ہے جہاں عمران دور میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کی جیلوں میں دہشتگردی کے جرائم میں سزائیں بھگتنے والے پاکستان دشمنوں کے علاوہ افغانستان فرار ہو جانے والے 42 ہزار سے زائد دہشتگردوں کی آبادکاری کی گئی تھی۔خود بقول عمران خان 42 ہزار سے زائد پاکستانی طالبان جن میں 7ہزار باقاعدہ ’’جنگجو‘‘ ہیں پاکستان میں آباد کر رہے ہیں۔ان دہشتگردوں کی آبادکاری کے لئے اربوں روپے کی رقم اس وقت بجٹ میں مختص کی گئی جب پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا تھا۔اگرچہ عمران خان کے مخصوص ایجنڈے کے بارے میں زیر لب خدشات ظاہر کئے جاتے رہے ہیں لیکن ناقدین مسئلہ کشمیر کے حوالے عمران خان کے پر اسرار کردار کے علاوہ ایٹمی پروگرام کی بندش کا اعادہ، اسرائیل اور قادیانیوں کی حمائت اور 9مئی کو فوج فوجی تنصیب پر حملوں اور دنیا کے مختلف فورمز پر فوج دہشتگرد ثابت کرنے کے لئے زہریلی تحریک کی بنیاد پر عمران خان کے غیر ملکی ایجنڈے اور اس پر عملدرآمد کی کوششوں پر کھلی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اب حالات ایسے آ رہے ہیں کہ عوام کا ’’بخار‘‘ رفتہ اترنے لگا ہے اور عمران خان کے ایجنڈے کی حقیقت سے آگاہی ہونے لگی ہے اور ابھی تک باہر نکلنے اور معافی تلافی کے لئے کبھی فوجی قیادت سے مذاکرات کی خواہش اور کبھی سول حکومت بات کرنے سے انکار کی ضد لیکن نتیجہ صفر+ صفر کیونکہ عمران خان کو بے مقصد ضد کی صورت دائرے میں سفر کرنے کا شوق ہے اس شوق نےانہیں
نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم--- نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے۔