• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے 28اکتوبر 2024ء کے کالم ’’چاول کی ایکسپورٹ پر مغربی ممالک کے تحفظات‘‘ میں بتایا تھا کہ پاکستانی چاول کی ایکسپورٹ پر یورپی ممالک کے تحفظات میں چاول میں غیر معیاری کیڑے مار ادویات کی باقیات (MRLs) ہونا ہے جس کے باعث یورپی ممالک نے فوڈ سیفٹی کے تناظر میں پاکستان کو الرٹ نوٹسز بھیجے تھے حالانکہ یہ نوٹسز بھارت کے مقابلے میں کم ہیں لیکن یورپی خریداروں کے تحفظات کے باعث وزارت تجارت اور وزارت فوڈ سیکورٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ انکی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کریں۔ میں نے یہ مسئلہ حال ہی میں قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں بھی اٹھایاہے۔ اس سلسلے میں میری ساتھی رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے اپنے توجہ دلاؤ نوٹس میں اسکی وجہ فیومگیشن کمپنیوں کی اجارہ داری اور غیرمعیاری جراثیم کش ادویات کا استعمال بتایا اور انکشاف کیا کہ چاول کی فیومگیشن کا عمل صرف پسندیدہ 4 کمپنیوں کو دیا گیا ہے جن کے ایڈریس بھی ایک ہی ہیں جو چاول کے ایکسپورٹرز کیلئے مشکلات پیدا کر رہی ہیں جس پر اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چاول کی فیومگیشن صرف 4کمپنیوں تک محدود رکھنے کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر 57کمپنیوں کو اسکا لائسنس دیا جائیگا تاکہ چند کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کی جاسکے۔ اس موقع پر میں نے یہ بھی بتایا کہ چاول میں مضر صحت اجزا کیڑے مار ادویات کی باقیات (MRLs) ہیں جن پر یورپی یونین کی جانب سے الرٹ نوٹسز بھیجے گئے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اسکی روک تھام کیلئے عملی اقدامات کرنے کیساتھ فصلوں کی کٹائی کے وقت کمبائنڈ ہارویسٹر استعمال کئے جائیں، چاول کو کھیتوں میں خشک کرنے کیلئے جدید طریقوں کو استعمال کیا جائے، ہائبرڈ بیجوں کی دستیابی اور زرعی ادویات کی باقیات کو کنٹرول کرنے کے جدید طریقوں سے کاشتکاروں کو آگاہی دی جائے تاکہ پاکستان مغربی ممالک کی طرف سےچاول کی ایکسپورٹ پر ممکنہ پابندیوں سے بچ سکے۔

چاول کی عالمی ایکسپورٹ 30ارب ڈالر ہے جس میں سالانہ 8.7فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا میں چاول کی طلب تقریباً 45 ملین ٹن ہے جس میں نصف 22 ملین ٹن باسمتی اور نان باسمتی چاول شامل ہوتے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا، یورپی یونین، خلیجی ممالک اور ایران باسمتی چاول کی بڑی مارکیٹ ہیں جبکہ افریقی ممالک نان باسمتی چاول (اری) کی مارکیٹ ہیں۔ بھارت دنیا میں چاول ایکسپورٹ کرنیوالا سب سے بڑا ملک ہے جو 140 ممالک کو چاول ایکسپورٹ کرتا ہے۔ بھارت کے نان باسمتی چاول کے خریداروں میں افریقی ممالک میں انگولا، کیمرون، جبوتی، آئیوری کوسٹ اور کینیا شامل ہیں۔چاول کی عالمی ایکسپورٹ میں بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر تھائی لینڈ، تیسرے نمبر پر ویت نام، چوتھے نمبر پر پاکستان اور پانچویں نمبر پر امریکہ ہے۔ گزشتہ سال بھارت میں الیکشن کی وجہ سے مودی حکومت نے مقامی مارکیٹ میں چاول کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے چاول کی ایکسپورٹ پر 20فیصد ایکسپورٹ ڈیوٹی عائد کردی تھی جسکے باعث بھارتی چاول کی ایکسپورٹ 22ملین ٹن سے کم ہوکر صرف 4ملین ٹن پر آگئی تھی اور گزشتہ سال یہ مارکیٹ شیئر پاکستان نے حاصل کیا جس سے پاکستانی چاول کی ریکارڈ ایکسپورٹ 4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی جس میں باسمتی چاول کی ایکسپورٹ 3.2ارب ڈالر اور نان باسمتی چاول کی ایکسپورٹ 0.8ارب ڈالر شامل تھی۔ مودی حکومت نے الیکشن میں کامیابی کے بعد چاول کی ایکسپورٹ پر 20 فیصد اضافی ڈیوٹی ختم کردی جسکے باعث رواں مالی سال کے گزشتہ 3مہینوں (دسمبر سے فروری) کے دوران پاکستانی چاول کی ایکسپورٹ میں 15 فیصد کمی آئی ہے۔

حکومت نے رواں مالی سال چاول کی ایکسپورٹ کا ہدف 5ارب ڈالر رکھا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چاول کی عالمی مارکیٹ میں بھارت کی دوبارہ انٹری نے پاکستانی چاول کی ایکسپورٹ کو متاثر کیا ہے کیونکہ بھارت کے پاس وافر مقدار میں چاول کا اسٹاک موجود ہے جو وہ کم قیمت پر عالمی مارکیٹ میں فروخت کر رہا ہے۔ ویت نام اور بھارت کے چاول 390سے 400ڈالر فی ٹن پر بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جبکہ پاکستانی چاول 410ڈالر فی ٹن پر مل رہا ہے۔ بھارت اور تھائی لینڈ بریک اینڈ بلک نظام یعنی چھوٹے جہاز میں چاول کی بوریوں کو افریقی ممالک بھیجتے ہیں جو اسکی شپمنٹ لاگت کو کم کرتا ہے جبکہ پاکستان سے چاول کنٹینرز میں ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں جس کا فریٹ زیادہ ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان میں بیج، ڈیزل اور بجلی کے مہنگے نرخ بھی چاول کی ایکسپورٹ کی لاگت میں اضافہ کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی ممبران نے رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (REAP) کے نمائندوں کو بھی بلایا تھا جنہوں نے فیومگیشن کمپنیوں کی اجارہ داری کے علاوہ چاول کی ایکسپورٹ کیلئے 17ٹیسٹوں پر اعتراض اٹھایا جو انکی لاگت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ایسوسی ایشن کے نمائندے نے چاول کی افریقی ممالک ایکسپورٹ کیلئے اضافی ٹیسٹوں پر بھی اعتراض کیا جن کی افریقی ممالک کو ضرورت نہیں۔ میں نے اس سلسلے میں حکومت کو تجویز پیش کی کہ کوالٹی اسٹینڈرڈز پر سمجھوتہ کئے بغیر موجودہ ٹیسٹوں کی تعداد کو کم کیا جائے تاکہ ایکسپورٹرز کی لاگت مقابلاتی بنائی جاسکے اور پاکستان چاول کی ایکسپورٹ میں اپنا مقام برقرار رکھ سکے۔

تازہ ترین