• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیر تعمیر عمارت پر زکوٰۃ کیسے ادا ہو گی؟

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میرا ایک دوست اسلام آباد میں ایک 10منزلہ بلڈنگ اپارٹمنٹ کی صورت میں تعمیر کر رہا ہے، تعمیر ابھی ابتدائی مراحل میں ہی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ ان اپارٹمنٹس کو قسطوں میں بیچنا چاہتا ہے اور کچھ اپارٹمنٹس کی بکنگ بھی ہو چکی ہے اور تعمیرات بھی جاری ہیں، نیز وہ اس بلڈنگ کا گراؤنڈ فلور اپنے پاس رکھ کر اس میں اپنا بزنس شروع کرے گا۔

پوچھنا یہ ہے کہ اس پروجیکٹ پر زکوٰۃ کیسے ادا کی جائے گی؟ کیا تعمیراتی اخراجات کو بھی زکوٰۃ کے حساب میں شامل کیا جائے گا؟

جواب: واضح رہے کہ از روئے شرع خرید و فروخت صحیح ہونے کے لیے فروخت کردہ چیز کا وجود میں آنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا زیرِ تعمیر عمارت کے وہ فلیٹ جن کا وجود نہ ہو، انہیں فروخت کرنا، شرعاً جائز نہیں ہوتا۔

البتہ ایسے فلیٹ کی بکنگ کرانا جائز ہوتا ہے، جو کہ درحقیقت فریقین کے درمیان وجود میں آنے کے بعد اس کی خرید و فروخت کا وعدہ ہوتا ہے اور وعدے کی بنیاد پر قسطیں وصول کرنے کی اجازت ہوتی ہے، پس جیسے جیسے عمارت تعمیر ہوتی جاتی ہے، فریقین کے درمیان خرید و فروخت کا سودا مکمل ہوتا جاتا ہے اور فروخت کنندہ رقم کا مالک ہو جاتا ہے، جبکہ خریدار اپنے فلیٹ کا مالک بن جاتا ہے اور تعمیرات نہ ہونے کی صورت میں رقم کا مالک بدستور بکنگ کرانے والا ہوتا ہے اور رقبہ پر ملکیت بلڈر کی باقی رہتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں قسطوں کی مد میں جمع شدہ رقم کی زکوٰۃ بکنگ کرانے والے افراد پر واجب ہو گی اور رقبے کی زکوٰۃ بلڈر پر واجب ہو گی۔

زکوٰۃ کا سال مکمل ہونے کی تاریخ تک جو رقم تعمیرات میں صرف ہو چکی ہے وہ رقم تو زکوٰۃ کے حساب میں شمار نہیں ہو گی لیکن اس تاریخ میں مذکورہ پروجیکٹ کی موجودہ مالیت پر زکوٰۃ واجب ہوگی، ہاں اس میں سے اس تاریخ تک واجب الادا قرض منہا کیے جائیں گے، خواہ وہ تعمیرات کی مد میں ہوں۔ (فقط واللّٰہ اعلم)

خاص رپورٹ سے مزید