• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ اب ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔؟‘عمر نے پوچھا

’’ اسٹیٹ بینک ۔۔‘‘

’’ اوہ ۔۔اس کا مطلب ہے آپ ،جاوید باقری کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں ۔‘‘

’’ ہاں،جب تک اس کے بارے میں پوری معلومات نہ اکٹھی ہو جائیں، قاتل تک پہنچنا ناممکن ہوگا ۔‘‘

کچھ ہی دیر میں وہ اسٹیٹ بینک پہنچ گئے۔ استقبالیہ پر پہنچ کر انہوں نے پوچھا ’’ صدر اسٹیٹ بینک سے ملاقات ممکن ہے ۔؟‘‘

’’ کہاں سے آئے ہیں آپ۔‘‘استقبالیہ پرپوچھا گیا۔

’’ آپ انہیں فون کریں اور کہیں کہ احمد صدیقی آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔‘‘

استقبالیہ پر موجود لڑکی نے منہ بناتے ہوئے فون اٹھایا ۔

’’ ہیلو ۔۔ایک صاحب دو لڑکوں کے ساتھ آئے ہیں کہتے ہیں پریذیڈنٹ اسٹیٹ بینک سے ملنا ہے۔‘‘

دوسری طرف سے کچھ کہا گیا، لڑکی نے سن کر فون کا ریسیور ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔’’ لیجیے ۔۔بات کیجیے۔‘‘

’’ ہیلو ,’’ جی ،کس سے ملنا ہے اور کیوں ملنا ہے ؟‘‘ ایک مردانہ، مگر کرخت آواز میں پوچھا گیا۔

’’ آپ ۔۔صدر صاحب کو میسیج دیں کہ اسپیشل فورس کے احمد صدیقی ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ اسپیشل فورس سمجھتے ہیں نا ۔‘‘آخری فقرہ انہوں نے غرا کر کہا ۔

’’ جج۔۔جی ۔۔‘‘ دوسری طرف سے بوکھلا کر کہا گیا اور رابطہ منقطع ہوگیا۔

تین منٹ بعد فون کی گھنٹی بجی۔ لڑکی نے فون اٹھایا، دوسری طرف کی بات سنی اور حیرت سے ان کی طرف دیکھا، اور پھر مودب ہوتے ہوئے بولی ۔’’ سر۔۔آپ بارہویں منزل پر تشریف لے جائیں ۔‘‘

’’ شکریہ ۔‘‘ احمد صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ تینوں لفٹ کی طرف بڑھ گئے ۔

بارہویں منزل پر ان کا استقبال ایک سوٹڈ بوٹڈ ادھیڑ عمر آدمی نے کیا ۔

’’ میں سلمان علی ہوں ،صاحب کا پی اے، آئیے میرے ساتھ ۔‘‘

وہ انہیں لے کر ایک پرتعیش آفس میں گیا، جہاں بینک کے صد رنے اٹھ کر استقبال کیا۔

’’ خوش آمدید احمد صدیقی صاحب، خوش نصیبی ہے کہ آپ نے شرف ملاقات بخشا۔‘‘

’’ حکم کیجیے احمد صاحب ۔بہت تعریف سنی ہے آپ کی ۔یہ آپ کے بچے ہیں ۔؟‘‘

’’ جی ہاں، عمر اور علی، کیس چھوٹا ہو یا بڑا میرے ساتھ ہو تے ہیں ۔‘‘

’’ ویری گڈ ۔۔حکم کیجیے ۔‘‘

’’ کام بہت چھوٹا سا ہے۔کسی بینک کی برانچ سےہو سکتا تھا ،مگر ہمارے پاس ان پیچیدگیوں میں پڑنے کا بالکل وقت نہیں ہے ،اس لیے آپ کو زحمت دی ۔‘‘

’’ معاملہ کیا ہے ۔‘‘ بینک کے صدر نے پوچھا۔

’’ایک نوجوان کے قتل کا مسئلہ ہے۔ ہم اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ہمیں اس نوجوان کے بینک اکاؤنٹ اورجن چیکوں سے آئے ان کی تفصیل چاہیے۔

’’ اس نوجوان کا کوئی نام وغیرہ ۔؟‘‘صدر اسٹیٹ بینک نے پوچھا

احمد صدیقی صاحب نے جاوید باقری کے شناختی کارڈ کی کاپی ان کے سامنے رکھ دی۔

’’ گڈ ۔۔شناختی کارڈ کی موجودگی میں ریکارڈ نکالنے میں دس منٹ لگیں گے۔‘‘

صدر نے ایک بیل بجائی ۔ان کا پی اے اندر آیا ۔’’ جی صاحب۔‘‘

انہوں نے شناختی کارڈ کی کاپی اس کی طرف بڑھائی ۔’’ اس نوجوان کے اکاؤنٹس کی تمام تفصیل جتنی جلدی ممکن ہو سکے بتاؤ‘‘۔

وہ شناختی کارڈ کی کاپی لے کر چلا گیا ۔ کچھ ہی دیر میں صدر صاحب کا پی اے کاغذوں کا ایک پلندہ لے کر آگیا ۔

’’ لیجیے سر ۔۔تمام تفصیل کا پرنٹ نکال دیا ہے ۔‘‘لفافے میں ڈال کر وہ پلندہ احمد صدیقی کی طرف بڑھا دیا گیا۔

’’ اور کوئی خدمت ۔‘‘

’’ یہی بہت ہے، بہت شکریہ ۔‘‘احمد صدیقی ہاتھ ملا کر باہر نکل آئے ۔

اپنی گاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے سرسری انداز میں کاغذات کا معائنہ کیا تو ان کی آنکھیں پھیلتی گئیں۔ عمر اور علی حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے ۔

’’ کوئی خاص بات ابو جی ۔۔‘‘

انہوں نے اثبات میں سرہلایا۔’’ ہاں ۔۔بہت خاص بات اور حیرت انگیز بھی مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا۔‘‘

’’ کیسی خاص بات ۔۔؟‘‘ عمر نے چونک کر پوچھا۔

’’ جاوید باقری ایک معمولی فوٹو گرافر اور چند ہزار روپے سیلری پر کام کرتا تھا، پھر اچانک اس نے ایک فوٹو اسٹوڈیو بنالیا۔ لاکھوں کی تو صرف جگہ ہوگی۔ چار سال پہلے تک اس کا ایک ہی بنک اکاؤنٹ تھا، جس میں سیلری آتی تھی، پھر اچانک اس نے کئی بنکوں میں اکاؤنٹ کھلوالیئے۔ ہر اکاؤنٹ میں اس وقت کئی کئی لاکھ روپے موجود ہیں ۔‘‘

عمر اور علی تعجب سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

’’کیسی عجیب بات ہے نا۔ ایک عام سا اخباری فوٹو گرافراچانک ہی ایک بڑا فوٹو اسٹوڈیو کھول لیتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مالا مال ہو جاتاہے ، پھر چار سال کے بعد اچانک قتل کردیا جاتا ہے۔ کیا مطلب ہے اس کا۔؟‘‘

انہوں نے دونوں کی طرف دیکھا ۔

’’ لگتا ہے ۔۔جاوید کسی چکر میں پھنس گیا تھا۔ شاید کوئی اسے یہ رقمیں کسی کام کے عیوض دے رہا تھا جو غیر قانونی تھا ۔‘‘علی نے کہا ۔

احمد صدیقی ایک لمحے کو سوچ میں پڑگئے ۔’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کو بلیک میل کر رہاتھا ۔‘‘

’’ ہاں ۔۔ شایداس کے ہاتھ کوئی ایسی تصویر لگ گئی ہو گی ، جس سے وہ اسے بلیک میل کر رہا تھا ۔‘‘

علی بری طرح چونکا ۔’’ اوہ۔۔بالکل یہ زیادہ قریں قیاس ہے۔‘‘

احمد صدیقی نے اس کی تائید میں سرہلاتے ہوئے بات آگے بڑھائی ۔

’’ اس کا مطلب ہے ۔جاوید کا قاتل کوئی ایسا شخص ہے جس نے کوئی جرم کیا تھا اور اس کا ثبوت کسی تصویر کی صورت جاوید کے ہاتھ لگ گیا ، اس کے بعد جاوید نے اسے بلیک میل کرکے بڑی بڑی رقمیں اینٹھنا شروع کردیں۔‘‘

’’ بالکل ایسا ہی لگ رہا ہے ابو جی ۔

احمد صدیقی نے گاڑی اسٹارٹ کردی۔

’’ اب ہم کہاں جا رہے ہیں ۔؟‘‘

’’ ہم ایک بار پھر اخبار کے آفس جا رہے ہیں ۔‘‘

’’اخبار کے آفس ۔۔ کیوں ۔۔؟‘‘ دونوں چونکے ۔

’’ وہ اخبار میں کام کرتا تھا نا۔۔اب اس اندازے کی بنیاد پر اس کیس کی گاڑی وہیں سے چلے گی ۔‘‘

کچھ ہی دیر میں وہ ایک بار پھر اخبار کے آفس پہنچ گئے ۔

ایڈیٹر نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا ۔’’ آپ لوگ پھر آگئے۔ کوئی بات پوچھنی رہ گئی تھی کیا۔؟‘‘

’’ جی ہاں ،’’ جاوید باقری نے نوکری کب چھوڑی تھی اور کیوں ۔؟‘‘ احمد صدیقی نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

’’ کیوں کا تو مجھے نہیں معلوم ۔۔ہاں کوئی چار سال پہلے اس نے اچانک یہاں سے نوکری چھوڑ دی تھی ۔جولائی کی بارہ تاریخ تھی۔مجھے اس لیے یاد رہ گئی کہ اس روز میرے گھر پہ ایک تقریب تھی ۔‘‘

’’ کوئی بات ہوئی تھی ۔۔نوکری چھوڑنے کی کوئی تو وجہ ہو گی ۔۔کوئی بد مزگی ۔۔؟‘‘

’’ بالکل نہیں ،اس نے اچانک کام پر آنا چھوڑ دیا تھا۔

’’ کمال ہے ۔۔بالکل اچانک کوئی لگی بندھی نوکری کیسے چھوڑ سکتا ہے۔‘‘ احمد صدیقی نے کہا۔

’’میں سچ کہہ رہا ہوں ۔۔بالکل اچانک ۔۔بغیر کچھ بتائے۔ آپ کو یاد ہوگا ۔ان دنوں شہر ہنگامے ہورہے تھے۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے۔‘‘

احمد صدیقی نے ذہن پر زور دیا ۔’’کہیں یہ ہنگامے وہ تو نہیں جو ریلوے کی زمین پر قائم کچی بستی یعنی ریلوے کالونی توڑنے پر شروع ہوئے تھے ۔؟‘‘

’’ جی جی ۔۔وہی، اس شام میں نے جاوید کوان ہنگاموں کی ایکسکلوسیو تصویریں بنانے کے لیے بھیجا تھا۔۔ وہاں کچھ گاڑیاں جلادی گئی تھیں ۔۔‘‘

احمد صدیقی چونکے ۔ ’’اچھا ۔۔ تو ۔۔لایا تھا وہ ایکسکلوسیو تصویریں ۔۔؟‘‘

’’خاک لاتا،اول تو اس کے پاس ڈیجیٹل کیمرا ہی نہیں تھا۔ باوا آدم کے زمانے کا کیمر الٹکائے لٹکائے گھومتا تھا ۔، اس نے گھر میں ہی ڈارک روم بنا رکھا تھا۔وہاں سے پازیٹو بنا کر واپس لاتا تھا۔ باُس دن وہ جو یہاں سے گیا ہے،پھر واپس نہیں آیا۔ میں تصویروں کا ہی انتظار کرتا رہ گیا۔۔

موبائل فون تک نہیں تھا اس کے پاس جو فون کرکے بلالیتے ۔۔وہ تو شکر ہے پریس کلب سے دوسرے ایک فوٹو گرافر سے تصویریں منگوالی تھیں جو اخبار میں چھپ گئیں ۔۔ورنہ بڑی بے عزتی ہوتی ۔‘‘

’’ ہوں۔۔‘‘ احمد صدیقی نے پرخیال انداز میں سر ہلایا ۔کچھ دیر بعد ان کی گاڑی جاوید باقری کے گھر کی طرف اڑی جا رہی تھی ۔

ایڈیٹر سے ملنے کے بعد یہ جاننا بہت ضروری ہو گیا تھا کہ، بارہ جولائی کی رات جاوید باقری آفس سے نکل کر تصویریں ڈویلپ کرنے کے لیے اپنے گھر گیاتھا یا نہیں۔ (جاری ہے)