جاوید کے گھر سے وہ لوگ نکلے تو احمد صدیقی کسی گہری سوچ میں تھے ۔
’’ آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں ابو جی ؟‘‘ علی نے پوچھا۔
’’پریشان نہیں ہوں ۔‘‘
’’ تو پھر ،کچھ تو بات ہے ۔‘‘
’’ یہ قتل کا معاملہ نہیں لگ رہا، اس کے پیچھے کوئی لمبی کہانی ہے۔دیکھو نا، رات کے وقت ایک سڑک پر دو لوگ ایک کانسٹیبل کو ملتے ہیں،ان میں سے ایک بے ہوش ہے۔ دوسر ا کانسٹیبل کو بتاتا ہے کہ اس کے دوست کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ وہ اسے ایک ٹیکسی میں سوار کراتے ہیں ۔۔دوران سفر وہ بے ہوش جاوید کی تلاشی لیتا رہا اور شاید اسے وہ چیز مل بھی گئی، اسی لیے ٹیکسی کو ایک میڈیکل اسٹور کے سامنے رکوا کر دوسرا بندہ فرار ہو جاتا ہے ۔۔تب پتا چلتا ہے کہ ٹیکسی میں بے ہوش شخص چاقو کے وار سے قتل ہو چکاہے ۔۔مقتول کی ایک فوٹو اسٹوڈیو کی شاپ ہے جہاں اس کا ملازم کام کرتا ہے۔
وہ بتاتا ہے کہ جاوید نامی مقتول کے گھر چوری ہوئی تھی اور تب سے ہی وہ کچھ گھبرایا ہوا تھا او ر پریشان بھی تھا ۔دل چسپ بات یہ کہ اس کے گھر ہونے والی چوری میں کوئی چیز بھی نہیں چرائی گئی تھی، گویا جاوید کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ چوری کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اس کی ماں جس آدمی کو اخبار کا مالک کہہ رہی ہے ۔۔وہ اس اخبار کا مالک ہے ہی نہیں ۔۔میں اس اخبار کے مالک کو جانتا ہوں ۔۔پھر اس نے اپنی ماں کو اخبار کے مالک کا نام غلط کیوں بتایا ۔۔؟‘‘
عمر نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’ ممکن ہے اخبار کا مالک تبدیل ہو گیا ہو ۔۔کسی اور نے وہ سلطان صاحب سے اخبار خرید لیا ہو ۔۔‘‘
’’ ہاں ۔۔یہ ہوسکتا ہے ۔‘‘ انہوں نے پرخیال انداز میں گردن ہلائی ۔
’’ اوہ ۔۔واؤ۔۔ جاوید کے گھر چوری ہوئی تھی، مگر کچھ چرایا نہیں گیا،اس کا مطلب ہےکہ وہ کچھ ایسی چیز چرانے آیا تھا جو اس کے خیال میں جاوید نے اپنے گھر میں چھپائی ہوگی۔‘‘
’’ ہاں ۔۔‘‘ احمد صدیقی نے اثبات میں سر ہلایا ۔
’’ اور وہ چیز اسے قتل کی رات ٹیکسی میں مقتول کی تلاشی لیتے ہوئے مل گئی ۔‘‘
ان کی گاڑی اخبار ’’ صبح نو ‘‘ کی بلڈنگ کے باہر پارکنگ میں پہنچ چکی تھی۔
کچھ دیر بعد وہ ایڈیٹر کے کمرے میں بیٹھے تھے ۔
’’ مجھ سے کیاچاہتے احمد صاحب آپ ۔۔؟‘‘
ایڈیٹر ایک ادھیڑ عمر اور جھکی سا آدمی تھا ،جھنجھلائے ہوئے انداز میں بات کر رہا تھا۔
’’ ہمیں اس اخبار کے مالک سلطان صاحب سے ملنا ہے ۔‘‘
’’ سلطان صاحب ۔۔۔کون سلطان صاحب ۔؟‘‘ اس نے جھنجھلا کر کہا ۔
’’ آپ کے اخبار مالک۔‘‘
’’کیوں مذاق کر رہے ہیں جناب، یہاں کوئی سلطان ولطان نہیں ہے ۔اس اخبار کے مالک رمزی صاحب ہیں ۔۔‘‘
’’ اوہ ۔۔‘‘ وہ چونکے ۔’’ میرا بھی یہی خیال تھا کہ اخبار کے مالک رمزی آفاق ہیں ۔۔میں جانتا ہوں رمزی صاحب کو ذاتی طور پر ۔‘‘
’’ عجیب آدمی ہیں آپ۔‘‘ ایڈیٹر نے جھلا کر کہا ۔
’’ جب آپ جانتے ہیں کہ اس اخبار کے مالک رمزی صاحب ہیں تو پھر یہ سلطان سلطان کیا لگا رکھا ہے۔‘‘
’’ اصل میں ہمیں کسی نے بتایا تھا کہ اس اخبار کے مالک سلطان صاحب ہیں ،میں سمجھا کہ شاید رمزی صاحب نے اخبار فروخت کردیا ہوگا ۔۔اس لیے ۔‘‘
’’ جی نہیں،اس اخبار کو کون خریدے گا۔ اس کی تو سیل ہی ختم ہو چکی ہے۔۔‘‘
’’ اچھا ٹھیک ہے ۔۔مجھے رمزی صاحب کا نمبر دے دیں ۔میں ان سے بات کرلوں گا ۔۔‘‘
’’ کس سلسلے میں بات کرنی ہے ؟‘‘ اس کا لہجہ بیزاری لیے ہوئے تھا ۔
’’ بات یہ ہے جناب کہ جاوید نامی ایک فوٹوگرافر اس اخبار میں کام کرتا تھا۔‘‘
’’وہ فوٹو گرافر جاوید باقری تھا؟‘‘ اس نے چونک کر پوچھا۔
’’ جی ہاں، کل رات اس کا قتل ہوگیا ہے ۔‘‘
ایڈیٹر یوں ہی بیٹھا رہا، بالکل بھی نہیں چونکا ۔
’’ آپ حیران یا پریشان نہیں ہوئے ۔‘‘
’’ کیوں کہ مجھے اس مرڈر کے بارے میں معلوم ہے۔ہمارے اخبار میں خبر بھی لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’ اوہ اچھا، اسی کے سلسلے میں بات کرنی ہے رمزی صاحب سے۔‘‘
ایڈیٹر نے اب مشکوک انداز میں ان کی طرف دیکھا اور کان کھجاتے ہوئے بولا۔ ’’ آپ رمزی صاحب کو جانتے ہیں لیکن اتنا نہیں جانتے کہ وہ یہاں نہیں رہتے۔‘‘
’’ کہاں رہتے ہیں؟‘‘ علی نے پوچھا ۔
’’ملک سے باہر رہتے ہیں ۔‘‘
عمر اور علی کو غصہ آرہا تھا کہ یہ شخص بات کس طرح کر رہا ہے۔ مگر احمد صدیقی نے انہیں آنکھ سے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔
’’ یہ مجھے معلوم نہیں تھا ۔۔‘‘
’’ ویسے کس سلسلے میں ملنا تھا آپ کو رمزی صاحب سے ۔؟‘‘
احمد صدیقی نے ایک طویل سانس لے کر کہا ،’’ میں اپنا تعارف کرادیتا ہوں۔میرا نام احمد صدیقی ہےمیں ایک ایجنسی کے لیے کام کرتا ہوں ۔‘‘
’’ کیا بیچتی ہے آپ کی ایجنسی ۔؟‘‘ اس نے رکھائی سے پوچھا۔
’’ یہ وہ والی ایجنسی ہےملک دشمنوں کے خلاف کام کرتی ہے۔ اسپیشل فورس کا نام تو سنا ہوگا آپ نے میں اس کا۔‘‘
وہ ایک دم کھڑ اہو گیا ۔’’ اوہ آپ وہ والے احمد صدیقی ہیں۔ آئی ایم سوری میں پہچانا نہیں تھا ۔‘‘ایڈیٹر ایک دم مودب ہو گیا۔
’’ چلیں شکر ہے ۔۔آپ مجھے پہچانتے تو ہیں نا ۔۔‘‘
’’ایڈیٹر نے خاموشی سے کوئی بٹن دبایا ۔اگلے ہی لمحے ایک اردلی اندر آیا ۔
’’ جی صاحب ۔۔‘‘
’’ بھئی مہمان آئے ہیں ۔۔کچھ لاؤ۔۔کوئی ٹھندا گرم ۔۔‘‘
’’ نہیں شکریہ ۔۔‘‘ احمد صدیقی نے فورا انکار میں سرہلایا۔’’ دوران تفتیش ہم کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں۔‘‘
’’ آپ پوچھیے ۔۔کیا پوچھنا ہے ۔۔؟‘‘
’’ جاوید باقری، جس کو کل رات قتل کردیا گیا ۔۔اخبار کی نوکری کے ساتھ ساتھ ایک فوٹو اسٹوڈیو بھی چلاتا تھا۔ اس نے اپنی ماں کو بتایا تھا کہ یہ اسٹوڈیو کھولنے کے لیے رقم اسے اخبار کے مالک سلطان صاحب نے دی تھی ۔‘‘
’’ دیکھیے احمد صاحب ۔۔یہ بات تو صاف ہو چکی ہے کہ اس اخبار کے مالک کوئی سلطان نہیں بلکہ رمزی صاحب ہیں ۔‘‘
’’ بالکل جھوٹ بولا دوسری بات یہ کہ ہمارا اخبار کوئی بڑا اخبار تو ہے نہیں ،بڑی مشکل سے یہ آفس چل رہا ہے،پھر ہم کسی کو فوٹو اسٹوڈیو چلانے کے لیے اتنے پیسے کہاں سے دے سکتے ہیں۔؟‘‘
’’ یہ بات تو آپ کی ٹھیک ہے، مگر جاوید فوٹو گرافر آپ کے اخبار میں کام تو کرتا تھا نا، کیسا آدمی تھا۔؟‘‘
’’جی ہاں ۔۔ یہاں کام ضرو کرتا تھا مگر یہ پرانی بات ہے۔‘‘
’’کیا مطلب ۔۔؟‘‘ وہ بری طرح چونکے ۔
’’ مطلب یہ کہ وہ چار سال پہلے یہاں کام کرتا تھا۔‘‘
’’اوہ ۔۔ چار سال پہلے ۔۔‘‘احمد صدیقی کے ہونٹ سکڑ گئے ۔
ایڈیٹر بتا رہاتھا’’چار سال پہلے اس نے یہاں سے کام چھوڑ دیا ۔۔جب وہ یہاں کام کرتا تھا ۔۔تو اس کی تنخواہ تھی ساڑھے چودہ ہزار روپے تھی وہ ہمیشہ کنگال رہتا تھا اور آفس کے دوسرے لوگوں سے پیسے ادھار مانگتا رہتا تھا ۔‘‘
تینوں حیرانی سے اس کی شکل دیکھنے لگے ۔
’’ کمال ہے، پھر وہ اتنا پیسہ کہاں سے لایا کہ اتنا بڑا اسٹوڈیو بنا لیا ؟‘‘
ایڈیٹر نے کاندھے اچکا کر کہا ۔’’ اس بات پر تو میں بھی حیران ہوں کہ اس کی زندگی کیسے بدل گئی۔ وہ تو ایک عام سا فوٹو گرافر تھا ۔‘‘
احمد صدیقی سوچ میں پڑگئے۔
اخبار کے ایڈیٹر نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔ اسے تو فوٹو گرافی کے بنیادی رموز سے بھی آگاہی نہیں تھی ۔اس بات کی تصدیق اخبار کے ایک دو اور لوگوں نے بھی کی ۔
احمد صدیقی، عمر اور علی کے ساتھ اخبار کے آفس سے نکلے تو ان کے چہرے پر اُلجھن تھی۔ ( جاری ہے)