یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک تحقیق کے مطابق غربت کے خاتمے کیلئے صنعتی انقلاب ناگزیر ہے، یعنی کسانوں کو بڑی تعداد میں کھیتوں سے نکال کر کارخانوں میں لانا ضروری ہے۔ اس تحقیق میں 1984ء سے 2017ء کے درمیان پانچ بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں جن میں چین، انڈونیشیا، میکسیکو، جنوبی افریقہ اور ہندوستان کے غربت سے نکلنے کے مختلف طریقوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چین میں غربت سے نکلنے والے افراد میں سے تقریبا 37فیصد نے کھیتی باڑی چھوڑ کر کسی اور شعبے میںقدم رکھا جبکہ انڈونیشیا میں یہ تناسب صرف13فیصد، میکسیکو میں 10فیصد اور جنوبی آفریقہ میں صرف7فیصد رہا۔ لیکن اس تحقیق کا ہم پاکستانی معاشرے سے تقابلی جائزہ نہیں لے سکتے کیونکہ ہمارے ہاں زرعی شعبے کو چھوڑ کر شہر میں آنیوالے ورکروں کیلئے صنعتوں کا فقدان ہے۔ آج اس تحقیق سے فائدہ اٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم بڑے پیمانے پر ایسی صنعتیں لگائیں جہاں زیادہ سے زیادہ لیبر کی کھپت ہو سکے ۔ لیکن موجودہ بجلی کے بحران کی وجہ سے نہ صرف پاکستان معاشی ابتری کا شکار ہو رہا ہے بلکہ غربت میں مسلسل اضافے سے عام آدمی کی زندگی بھی ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔پیداواری لاگت میں اضافوں نے نہ صرف صنعتوں کو دباؤ میں ڈال دیا ہے بلکہ عالمی منڈی میں اسکی مسابقتی حیثیت کو بھی کمزور کر دیا ہے۔بین الاقوامی توانائی ایجنسی (IEA)کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2024ء میں پاکستان میں توانائی سے وابستہ صنعتوں کیلئے بجلی کے نرخ اوسط 13.5سینٹ فی کلو واٹ آور تک پہنچ گئے تھے جو ہمارے خطے کے اہم تجارتی شراکت داروں سے بھی زیادہ ہیں۔ریاستی بے اعتنائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2024ء میں حکومت کی ملکیت میں چلنے والے اداروں کا اوسط خسارہ 851ارب روپے رہا ۔ حالانکہ ان اداروں کے نقصان میں چلنے کی اصل وجہ اشرافیہ کا لوٹ مار کا مزاج ہے، لیکن اس کا خسارہ بھی تنخواہ دار طبقے پرمزید ٹیکس ڈال کر پورا کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی ریاست اور اسکےعوام کے درمیان رشتے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے2کروڑ 62لاکھ بچے سکول نہیں جا پاتے اور ان میں سے تقریبا 30لاکھ بچے گلیوں اور محلوں میںمحنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔آج دنیا بھر کا مجموعی شرح پیدائش کم ہو کر 2.2رہ گیا ہے جبکہ پاکستان میںیہ شرح اب بھی 3.6 ہے۔ہم جتنی بھی صنعت کاری کر لیں اور متبادل ذرائع توانائی بھی ڈھونڈ لیں، تب بھی یہ شرح پیدائش ،پاکستان کی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے گی۔ پاکستان کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ریاستی مشینری ہر صورت میں اس شرح کو 2فیصد تک محدود کر ے اور اس سلسلے میں کم از کم ریاستی علما ء کرام کو اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے کی تلقین کرے ۔آج ہمیں یہ بھی دیکھناہوگا کہ 1980ءمیں چین 20ملین ڈالرزکی برآمدات کو 2004ء میں چار سو ارب ڈالرز تک کیسے لے گیا۔ اس ترقی میں شرح پیدائش میں انقلابی حد تک کمی نے بھی ایک اہم کردار ادا کیاہے۔پاکستان میں اس وقت چالیس فیصد مزدور کوحکومت کی طرف سے منظور شدہ مزدوری بھی نہیں مل رہی جبکہ ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹ (EOBI)سے صرف 10فیصد مزدور فیضیاب ہو رہے ہیں۔ مزدوروں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک شخص آصف جاوید نے مزدوروں کے حقوق کیلئے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مزدور یونین بنائی جسکی پاداش میں نہ صرف اسے نوکری سے نکال دیا گیا بلکہ لیبر کورٹ سے بحالی کے حکم کے باوجود وہ پانچ سال تک ہائیکورٹ کے چکر لگاتا رہا اور جب آخری پیشی پر بھی جج نے اسکی بات نہ سنی تو اس نے عدالتی احاطے میں ہی تیل ڈال کر خودسوزی کر لی اور وہ اپنے چھ بچوں کو یتیم چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملا۔ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے اس موقع پر ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ آئندہ عدالت کے احاطے کی سیکورٹی بڑھا دی جائے تاکہ کوئی سائل عدالتی احاطے کے اندر پٹرول لے کر نہ آسکے۔لیبر یونین کے عہدیداران نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب عدالتی احاطے میں جان دینے کا حق بھی ہم سے چھین لیا گیا ہے۔آج جہاں پاکستانی ریاست اپنے لوگوں کیساتھ نہ صرف رشتہ استوار کرنے میں ناکام ہو رہی ہے ، وہیں بڑی صنعتیں نہ لگنے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ مزدور بیروزگار ہو رہے ہیں ۔اس ماحول میں حکومت کو چاہئے کہ ہندوستان، بنگلہ دیش اور فلپائن کی طرز پرایسے مربوط ووکیشنل ٹرینگ پروگرامز کا آغاز کرے تاکہ پاکستان کی افرادی قوت کو یورپ ، جاپان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں برآمد کیا جا سکے۔بین الاقوامی اقتصادی ماہرین کے مطابق 2030ءتک دنیا بھر میں آٹھ کروڑ پچاس لاکھ کارکنوں کی کمی کا اندازہ لگایا گیا ہے جس کی اصل وجہ یورپ اور جاپان کی آبادی میں مسلسل کمی ہے۔مغربی ممالک میں یونیورسٹیوں اور اعلیٰ معیار کے کارکنوں کی کمی نہیں ہے لیکن الیکٹریشن، پلمبر ، ویلڈرز ، ترکھان، اسکول ٹیچراور ٹرک ڈرائیورز کی شدید قلت ہے ۔ آج اگر ہم اپنے بے روزگار نوجوانوں میں سے پانچ لاکھ نوجوانوں کو بھی بنیادی ہنر سکھا کر یورپ اور دوسرے ممالک میں بھیج دیں تو ہر مزدورکم از کم ایک ہزار ڈالرپاکستان کو بھیج سکتا ہے جس سے ہماری ترسیلات زر میں24بلین ڈالرز کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
آج حکومت وقت کو بجلی کے شعبے میں وسیع اور گہری اصلاحات کے ساتھ ساتھ بجلی کی چوری، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی تنظیم نو ، قابل تجدید توانائی کے ذرائع جس میں شمسی اور ہوا سے پیدا ہونیوالی توانائی کو موثر طریقے سے بروئےکار لانا ہوگا۔آج پاکستانی ریاست کو نوجوانوں کی بیرون ملک برآمد ، آبادی پر کنٹرول ، حکومت کی ملکیت میں خسارے میںچلنے والے اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی اور یہی وہ واحد طریقہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کے چنگل سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔