’’ واقعہ چار سال پرانا ہے ۔ جانے کتنی بار اس نے اپنے گھر میں تصویریں ڈویلپ کی ہوں گی ۔‘‘عمر نے کہا۔
’’ ہاں ۔۔مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ ننانوے فیصد یقین ہے کہ اس کی ماں کو یہ بات یاد نہیں ہوگی کہ بارہ جولائی کو ان کا بیٹا شام کو تصویریں ڈویلپ کرنے آیا تھا یا نہیں۔ احمد صدیقی نے کہا۔
کچھ ہی دیر میں وہ گلی نمبر تین میں داخل ہو کر مکان نمبر سولہ کے سامنے پہنچ گئے۔
ایک جانب گاڑی کھڑی کرکے احمد صدیقی نے آگے بڑھ کر دروازے کے ساتھ لگی گھنٹی بجائی۔
کچھ دیر بعد ایک خاتون نے دروازہ کھولا ۔یہ خاتون جاوید باقری کی پڑوسن تھیں ،ان سے وہ لوگ پہلے بھی بات کر چکے تھے۔
’’ جی ۔۔‘‘
’’ کیا ہم ایک بار پھر جاوید کی امی سے مل سکتے ہیں ۔؟‘‘
عورت نے ایک لمحہ سوچا۔
’’ وہ آرام کرنے کے لیے لیٹی ہیں۔ آپ جانتے ہیں نا کہ کیا بیت رہی ہے ان پر بڑی مشکل سے انہوں نے خود کو سنبھالا ہے ۔‘‘
احمد صدیقی نے ا س کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’ زحمت کی معذرت لیکن میں سمجھتا ہوں کہ، انہیں اصلی سکون تب ہی ملے گا جب ان کے بیٹے کا قاتل پکڑا جائے گا اور ہم وہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔‘‘
اس نے ایک لمحہ سوچا، پھربولی ۔’’ جی، اندر آجائیں۔‘‘ اس نے دروازہ کھول کر انہیں راستہ دیا۔
وہ اندر داخل ہو گئے ایک بار پھر انہیں اسی سادہ سے ڈرائنگ روم میں بٹھا یا گیا۔
گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ کچھ دیر بعد وہی پڑوسن جاوید باقری کی والدہ کو لے کر ڈرائنگ روم میں آگئی۔
احمد صدیقی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔’’ معذرت چاہتے ہیں، آپ کو بار بار زحمت دے رہے ہیں۔‘‘
’’ کوئی بات نہیں ۔۔ آپ اپنا کام کر رہے ہیں ۔‘‘وہ کہتے ہوئے بیٹھ گئیں۔
وہ لوگ بھی بیٹھ گئے ۔’’ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی یاد داشت کتنی اچھی ہے ؟‘‘
جاوید باقری کی والدہ نے چونک کر ان کی طرف دیکھا ۔’’ یاد داشت ۔۔؟‘‘
’’ میری یاد داشت تو بہت اچھی ہےمجھے تو اپنا پورا بچپن تک یاد ہے ۔‘‘
’’ ہمیں صرف چار سال پہلے کی ایک بات پوچھنی ہےممکن ہے آپ کی یاد داشت میں رہ گئی ہو۔ اصل میں ہمارے تفتیش کی گاڑی ایک جگہ رک گئی ہے، اگر آپ کو اس حوالے سے اگر کچھ یاد آجائے تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ۔‘‘
’’ آپ پوچھیے شاید مجھے یاد آجائے ۔۔‘‘
احمد صدیقی نے ایک ہنکا رہ بھرا ۔’’ کوئی چار سال پہلے کی بات ہے، اسی شہر میں ایک ریلوے کالونی توڑ دی گئی تھی اور ‘‘
والدہ نے بات کاٹ دی ۔’’ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے۔‘‘
’’ واقعی ۔۔‘‘
’’ ہاں، یہ بارہ جولائی کی بات ہے کیوں میں غلط تو نہیں کہہ رہی ۔؟‘‘
’’ جی جی ۔۔آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔‘‘وہ حیرانی سے بولے ۔
’’ بارہ جوالائی میرے بیٹے کی سال گرہ کا دن تھا۔ میں نے جاوید سے کہا تھا کہ وہ شام کو جلدی گھر آجائے، مگر اس سے ایک دن پہلے ریلوے کالونی توڑ دی گئی اور شہر میں ہنگامے شروع ہو گئے تھے۔
وہ دن مجھےبہت اچھی طرح سے یاد ہے۔ جلاؤ، گھیراؤ پتھراؤ، گاڑیاں جلائی جا رہی تھیں اور میرا بیٹا جاوید ان ہگامو ں کی تصویریں بنانے گیا ہوا تھا۔مجھے بہت ڈر لگ رہا تھاکہ کہیں کچھ ہو نہ جائے جاوید کو ۔‘‘
احمد صدیقی نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
’’ ہاں ۔۔پھر ۔۔پھر کیا ہوا ۔۔؟‘‘
’’اس شام جاوید گھر نہیں آیا۔ رات کو پونے ایک بجے کے قریب واپس آیا،ان دنوں ہم غریب آباد میں رہا کرتے تھے اور اس نے باتھ روم کو ہی ڈارک روم بنا رکھا تھا۔آتے ہی وہ اس میں گھس گیا اور رات بھر وہ وہاں فلم دھوتا رہا اور فوٹو بناتا رہا۔‘‘
احمد صدیقی نے عمر اور علی کی طرف دیکھا۔
’’ جی شکریہ ۔۔ہمیں یہی معلوم کرنا تھا۔‘‘ وہ کھڑے ہوگئے ۔
جاوید کی ماں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا ۔’’ بس۔؟‘‘
’’ جی ہاں، بہت سی چیزیں کلیر ہوگئی ہیں۔ ہماری تفتیش کی گاڑی اس سے آگے چلے گی نہیں دوڑنے لگے گی ۔‘‘
جاوید کی ماں نے پوچھا،’’ کیا میرے بیٹے کا قاتل پکڑا جائے گا۔؟‘‘
’’ ہاں، بالکل پکڑا جائے گا ،اب وہ ہم سے زیادہ دور نہیں ہے ۔‘‘جاوید باقری کے گھر سے نکل کر وہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ۔
شام ہو رہی تھی ،ان کی امی جی شام کی چائے پر ان کا انتظار کررہی تھیں ۔
چائے کے دوران بھی و ہ اسی کیس پر باتیں کرتے رہے ۔
احمد صدیقی کسی گہری سوچ میں تھے۔ چائے پی کر اپنی لائبریری میں چلے گئے۔
ان کی امی جی نے دونوں کی طرف دیکھا ۔’’ کوئی ٹینشن ہے تمہارے ابو جی کو۔؟‘‘
عمر مسکر اکر بولا۔’’ ایک کیس میں ایسے الجھے ہیں کہ سکون کا سانس لینا بھول گئے ہیں ۔‘‘
عمر اور علی نے انہیں جلدی جلدی تفصیل بتائی اور ابو جی کی لائبریری میں پہنچ گئے۔
وہ دیوار پر شہر کا ایک بڑا سا نقشہ لگائےکھڑےتھے اوراسے غور سے دیکھ رہے تھے۔
عمر اور علی ان کے قریب گئے تو انہوں نے مسکرا کر کہا ۔’’ آؤ۔۔میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا ۔‘‘
پھر انہوں نے ایک مارکر اٹھایااور ایک جگہ دائرہ بنایا۔’’ یہ وہ جگہ ہے، جہاں ہنگامے ہورہے تھےیعنی ریلوے کالونی ۔‘‘
پھر انہوں نے اسی کی سیدھ میں اُسی روڈ پر دوسرا دائرہ بنایااور بولے ۔’’ اسی روڈ پر کوئی دس کلو میٹر آگے،اس اخبار کا آفس ہے جہاں جاوید باقری کام کرتا تھا۔ اس آفس سے جاوید کو اس جگہ بھیجا گیا تھا،جلتی ہوئی گاڑیوں کی تصویریں بنانے کے لیے ۔‘‘
احمد صدیقی نے ان دونوں دائروں سے ذرا ہٹ کر ایک اور جگہ دائرہ بنایا۔’’ اور یہ وہ جگہ ہے۔ جہاں ان دنوں جاوید باقری رہتا تھا۔
’’ جاوید باقری اس شام آفس سے کوئی شام چھے بجے نکلا تھا اور اپنے گھر پہنچا رات بارہ پینتالیس پر ۔۔‘‘
علی نے چونک کر دیکھا ۔’’ یعنی تقریباً پونے سات گھنٹے بعد ۔‘‘
’’ بالکل ۔۔‘‘ احمد صدیقی نے سوچتے ہوئے کہا ۔’’ اس شام جو کچھ بھی ہوا تھا۔ ان ہی پونے سات گھنٹوں کے درمیان ہوا ہوگا ۔۔سو چو کیا ہوا ہوگا ؟‘‘
عمر اور علی سوچ میں پڑگئے۔ علی نے کہا ۔
’’ شاید ۔۔جاوید نے راستے میں کچھ دیکھ لیا تھا۔‘‘
’’ شاباش ۔۔‘‘ احمد صدیقی نے بے ساختہ کہا ۔
’’اس نے واقعی ایسا کچھ دیکھ لیاتھا ،جس کی اس نے تصویریں بنائیں پھر وہاں سے وہ اپنے گھر گیا ۔۔ساری رات بیٹھ کر ان نگیٹیوز کو پازیٹو میں تبدیل کیا اور دوسرے دن سے آفس جانا بند کر دیا ۔‘‘
’’ اوہ ، پھر ایک مہینے بعد اس کے پاس اتنے پیسے آگئے کہ اس نے اپنا فوٹو اسٹوڈیو بنالیا ۔‘‘
عمر نے بات آگے بڑھائی ۔’’اس کا مطلب ہے ۔وہ واقعی کسی کوبلیک میل کر رہا تھا۔ بڑی بڑی رقمیں اینٹھ رہا تھا۔‘‘
’’ لیجیے ۔۔بے چارے مقتول کا اپنا کردار پازیٹو سے نیگیٹو ہو گیا ۔‘‘
’’ ہونا ہی تھا ۔۔برے کام کا انجام اچھا کیسے ہو سکتاہے ۔؟‘‘
احمد صدیقی نے اپنا فون اٹھایا اور تین بار زیرو دبایا پھر فون کان سے لگا لیا ’’ ہیلو سر۔‘‘
دوسری طرف سے ایک لڑکی کی آواز سنائی دی ۔۔
’’ یس باس زیرو تھری اسپیکنگ ۔۔‘‘
’’آج سے چار سال پہلے بارہ جولائی کی رات کو چھے بجے سے لے کر پونے ایک بجے کے درمیان اس شہر میں کیا کیا ہوا، اس کی تفصیل چاہیے۔‘‘
’’او کے سر ۔۔کتنا وقت ہے میرے پاس ۔۔؟‘‘ دوسری طرف سے پوچھا گیا ۔
’’ جتنی جلد ممکن ہو سکے۔ میں انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ انہوں نے مختصر جواب دیا۔
’’ سر ۔۔صرف ایک رات کے واقعات ۔۔؟‘‘
’’ ہاں ۔۔صرف ایک رات کے واقعات ۔۔مجھے معلوم ہے یہ کام آسان نہیں پھر بھی ایک ایک ریکارڈ چیک کرو اس سے اگلے دن کا ہر اخبار چیک کرو ۔ہر اخبار کی ایک ایک خبر کی ایک ایک فوٹو گراف مجھے چاہیے ۔‘‘
’’ او کے سر ۔کچھ دیر بعد آپ کی گوگل ڈارئیو میں ہوگا ۔‘‘
’’ یہ کون تھا ۔۔؟‘‘ عمر نے پوچھا ۔
’’ مونا ۔۔ایجنٹ تھری زیرو ۔۔‘‘
’’ اوہ ۔۔‘‘ دونوں چپ ہو گئے۔ ( جاری ہے)