قومی اسمبلی میں دیئے گئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے اس بیان سے ، کہ پاکستان بھارت سے کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے تعمیری روابط اور نتیجہ خیز مذاکرات کررہا ہے، دونوں ملکوں کے امن و آشتی کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہونے کے امکانات نمایاں ہوئے ہیں۔ اجلاس میں پیش کئے گئے ایک تحریری جواب میں وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں مشکلات کے باوجود پاکستان نے ذمہ داری سے کام جاری اور لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کو برقرار رکھا ہے، بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ امن بات چیت کے لئے سازگار ماحول پیدا کرے کیونکہ بھارت کے جموں و کشمیر میں غیر قانونی قبضے سے دوطرفہ ماحول سازگار بنانے میں مشکلات کا سامنا ہوا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا مذکورہ بیان پاک بھارت تعلقات کی مشکل صورت حال میں پورے خطے کے لوگوں کے لئے اچھی امیدوں کا ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ جبکہ صدر ٹرمپ کی جیت کے بعد عالمی سطح پر بدلتے ہوئے جیوپولیٹکل حقائق پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ برٹش انڈیا کی آزادی اور دو ملکوں میں تقسیم کے وقت قائداعظم محمد علی جناح اور موہن داس کرم چند گاندھی جی جیسے رہنمائوں کو توقعات تھیں کہ دونوں آزاد ملکوں کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کی طرح اچھی ہمسائیگی پر مبنی ہوں گے مگر بوجوہ یہ امیدیں تاحال پوری نہیں ہوئیں۔ کئی جنگوں کا سامنا کرنے والے دونوں ممالک کو یہ حقیقت کسی طور نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ دوست خواہ بدل جائیں، پڑوسی ملکوں کو ایک دوسرے ساتھ ہی گزارا کرنا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ جم کر بات چیت کرنا وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے مشکل ترین مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ ملکوں کے پیچیدہ مسائل کے حل کا یہ ایسا طریقہ ہے جس سے یقیناً پائیدار دوستی کا راستہ نکلے گا۔