راحیلہ صدیقی
رمضان المبارک جوں جوں اختتام کی جانب بڑھتا ہے ایک عجیب قسم کی اداسی دل پر چھاتی جاتی ہے۔ اس اداسی کو صرف عید کی خوشی معدوم کرتی ہے جو درحقیقت شکر کا موقع ہے۔ عیدالفطر کی تیاریاں اگرچہ ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں عروج پر ہوتی ہیں، تاہم چاند رات کو بازاروں کی رونق دیدنی ہوتی ہے۔
عید کا چاند نطرآنے کے بارے میں ہونے والا اعلان لوگوں میں جوش و خروش بھردیتا ہے۔ درزیوں کی مصروفیت اور بعض اوقات اْن کے نخروں کے باعث مردوخواتین میں یہ رجحان پیدا ہو چکا ہے کہ وہ خوشی کے اس موقعے پر سلے سلائے پہناووں کو ترجیح دیں یا پھر وقت سے بہت پہلے لباس تیار کرا لیں۔
عید کے موقعے پر چوں کہ خواتین کو خصوصاً نئے لباس کی تمنا ہوتی ہے، اس لیے وہ مجبور ہوتی ہیں کہ روایتی سلائی کی طرف توجہ دیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ عید اور اس سے اگلے روز نئے پہناوے ہی پہنے جائیں۔
خواتین عید الفطر کی تیاریاں رمضان المبارک سے قبل ہی شروع کر دیتی ہیں۔ رمضان المبارک میں بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس کے باوجود ایسے بہت سے کام ہوتے ہیں،جو چاند رات کو نمٹائے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جتنی اہمیت عید کی ہوتی ہے اتنی ہی چاند رات کی بھی ہوتی ہے۔
عید الفطر کے چاند کا اعلان ہوتے ہی خواتین فوری طور پر بازاروں کا رخ کرتی ہیں اور بڑے شوق سے چوڑیاں پہنتی اور منہدی لگواتی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ عید الفطر پر پکنے والے مختلف پکوانوں کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں۔پھر اس کام کے لیے درکار مختلف اشیا بھی خریدی جاتی ہیں۔
چاند رات کو خواتین بناؤ سنگھارسے متعلق اشیاء کی خریداری کے لیے بھی بازاروں کا رخ کرتی ہیں اور اس ضمن میں کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ اکثر خواتین چاند رات کو بیوٹی پارلرز کا رخ کرتی ہیں اورفیشل، بلیچ وغیرہ کروا کے اور ہاتھوں پر منہدی لگوا کر اپنی خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔
خواتین کے علاوہ منچلے نوجوان بھی چاند رات کا بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔ منچلے افراد گروہ کی شکل میں بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم نوجوانوں کی یہ تعداد خریداری کے بجائے مختلف اسٹالز سے کچھ نہ کچھ کھاتی پیتی اور موج مستی کرتی نظر آتی ہے۔ اب تو یہ رواج بھی ہوگیا ہے کہ نوجوان اورمرد حضرات بھی خواتین کی طرح چاند رات کو فیشل اور بلیچ کراتے ہیں۔چاند رات کو صرف خواتین اور بچّوں ہی کو نہیں بلکہ مردوں کو بھی کئی کام ہوتے ہیں۔ تاہم وہ اپنے تمام کام چھوڑ کر اہل ِ خانہ کو شاپنگ کراتے نظر آتے ہیں ۔اس دوران وہ اپنے لیے بھی کچھ نہ کچھ خریدلیتے ہیں۔
چاند رات کے متعلق خواتین کا کہنا ہے کہ خریداری تو توسارا سال کی جاتی ہے، لیکن چاند رات کو شاپنگ کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ بہت سی خواتین خاندان کے ساتھ بازار جاتی اور پسند کی چیزیں خریدتی ہیں، خاص طور پر منہدی، چوڑیاں اور بناؤ سنگھار کی اشیا ضرور خریدی جاتی ہیں۔ مختصر یہ کہ چاند رات کے بغیر عید کا لطف ادھوراہے۔
’’چاند رات‘‘ نزدیک آتے ہی شہر میں رونق عودکرآتی ہے اور بازار وں میں چہل پہل بڑ ھ جاتی ہے۔ خواتین کواپنی تیاری کے ساتھ گھریلو آرائش کی اشیاء بھی خریدناہوتی ہیں۔ وہیں عید کا چاند نطر آنے کے بعدعید کی دعوت کے لیے مختلف اقسام کے پکوان کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں۔ خصوصاً ’’سویّوں‘‘ اور ’’شیر خرمے‘‘کے بغیرعید کا تصور ممکن نہیں ہوتا۔
چاند رات کو بچّے عید کی خریداری کرنے کے لیے ادھم مچا دیتے ہیں، کسی کو چوڑیاں اور منہدی خریدنا ہوتی ہے تو کسی کو جوتے اور ٹوپیاں۔ اور کوئی بناؤ سنگھار کا سامان خریدنے کی جلدی میں ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ رونق بچوں کے چہروں پر ہوتی ہے جنہیں یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہا نہیں خریدناکیا ہے، مگر وہ بازار جانے کے لیے سب سے زیادہ پرجوش نظر آتے ہیں۔
عہدِ مغلیہ میں دِلّی کی چاند رات
کسی زمانے میں برّصغیر میں عیدالفطر کے اسلامی تہوار سے بہت سی خوب صورت تہذیبی اور ثقافتی روایات بھی وابستہ تھیں۔ اُس زمانے میں دہلی چوں کہ پایۂ تخت اور تہذیب و ثقافت کا مرکز تھا، لہٰذا وہاں عیدالفطر کے رنگ کچھ اور ہی ہوتے تھے۔ کئی بار اجڑنے اور پھر بسنے والے اس شہر کے باسی بہت زندہ دل تھے۔
وہاں مختلف تہوار، ایّام اور میلے ٹھیلے بہت اہتمام کے ساتھ منائے جاتے تھے۔ مغلیہ عہد کی دِلّی میں عیدالفطر کے موقع پر کس قسم کے مناظر دیکھنے کو ملتے تھے اور اس موقع پر کس قسم کی تہذیبی اور ثقافتی روایات پر عمل کیا جاتا تھا؟ یہ جاننے کے لیے آئیے! اُس دور میں چلتے ہیں۔
ممتازا دیب اور صاحبِ طرز افسانہ نگار، انتظار حسین اپنی کتاب ’’دِلّی تھا جس کا نام‘‘ میں اُس دور کی عید کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
’’لیجیے! شُتر سوار جو چاند کی خبر لینے گیا تھا، مبارک خبر لے کر واپس آگیا۔ اب یہ رات چاند رات ہے۔ توپیں دغنے لگیں، نوبت بجنے لگی۔ 29 کا چاند ہوا تو دِلّی والوں کے حساب سے یہ جوان عید ہوئی۔ 30 کا ہوا تو بوڑھی عید کہلائے گی۔ بوڑھی ہو یا جوان، عید بہ ہرحال عید ہے۔
بوڑھے، جوان، بچّے، بڑے، کوئی پالکی میں، کوئی نالکی میں، کوئی تام جھام میں، کوئی رتھ میں۔ رُخ سب کا عیدگاہ کی طرف ہے۔ بادشاہ سلامت بھی ہاتھی پر سوار آن پہنچے۔ نماز پڑھی گئی۔ دھائیں دھائیں سلامی کی توپیں چلنے لگیں۔‘‘
ممتاز ادیب سید یوسف بخاری دہلوی نے اپنی کتاب ’’یہ دِلّی ہے‘‘ میں بہت خوب صورت انداز میں مغلیہ عہد میں منائی جانے والی عیدالفطر کا نقشہ کھینچا ہے۔ انہوں نے عید کا چاند دیکھنے سے لے کر نمازِ عید کی ادائیگی اور اس کے بعد تک کے مراحل کی یوں منظر کشی کی ہے کہ قاری خود کو اُن مناظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ عید کا چاند دیکھنے کا منظر یوں بیان کرتے ہیں:
’’چاند رات ہے، شہرِ دہلی میں جامع مسجد سے نمازی مغرب کی نماز پڑھ پڑھ کے کچھ اوپر بُرج پر اور بہت سے دروازے کے باہر سیڑھیوں پر کھڑے ہیں۔ ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں۔ سب کی نگاہیں آسمان کی طرف ہیں۔ ہر ایک کو چاند کی جستجو ہے۔ اے لو! وہ چاند دکھائی دیا۔ دیکھنا کیسا شور ہو رہا ہے۔
’’چاند ہوگیا، چاند ہوگیا۔‘‘
’’کہاں ہے بھئی کہاں؟ ذرا ہمیں بھی تو دکھاؤ‘‘۔
’’ وہ ہے وہ اُس مکان کے بائیں طرف کبوتروں کی چھتری کے اوپر دیکھو۔‘‘
’’ہاں،ہاں نظر آیا۔ افوہ۔ بھئی بڑا باریک ہے، انتیس کا ہے نا‘‘
’’مبارک ہو، مبارک ہو۔‘‘
’’آپ کو بھی مبارک ہو۔‘‘
بچّے بھی خوشی سے بے تحاشا چیخ رہے ہیں۔
’’آہا ہا ہا! چاند ہو گیا، آہا ہا چاند ہوگیا، کل عید ہے۔‘‘
وہ لال قلعے میں ہمیں یوں لیے چلتے ہیں:
’’ابھی تک نقّارے کی آواز سنائی نہیں دی۔ توپیں بھی نہیں چلیں۔ شاید بادشاہ سلامت نے ابھی تک چاند نہیں دیکھا۔ ادھر دیکھیے، لال قلعے میں جہاں پناہ دیوانِ عام کی چھت پر تشریف فرما ہیں۔ اُستاد ذوق اور چند خاص مصاحب بھی خدمت میں حاضر ہیں اور چاند دیکھنے میں محو ہیں، اُمرا بھی بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں، بلکہ استاد ذوق نے تو شاید دیکھ بھی لیا ہے، لیکن جب تک بادشاہ سلامت چاند نہ دیکھ لیں، شاہی ادب کے سبب وہ کیوں کر یہ کہیں کہ چاند ہو گیا۔ لیجیے، وہ بادشاہ سلامت نے بھی چاند دیکھ لیا۔ ایک دفعہ ہی جوشِ مسرّت کے ساتھ فرمایا۔
’’وہ دیکھو اُس اونچے درخت کی چوٹی پر چاند نظر آتا ہے۔‘‘
سب اُس طرف متوجہ ہیں اور گُھور گُھور کر دیکھ رہے ہیں۔یکایک اُستاد ذوق اُچھل کر کہتے ہیں:
’’ہاں حضور دیکھ لیا، وہ ہے سامنے، ظِلِّ سبحانی کی نظر مبارک کے پرتو سے فدوی نے بھی دیکھ لیا۔‘‘
یہ کہہ کر چند قدم پیچھے ہٹتے ہیں اور جُھک کر سات سلام بادشاہ کو عید کی تہنیت میں ادا کرتے ہیں۔ پھر رومال میں نذر رکھ کر مودبانہ پیش کرتے ہیں۔ مصاحبین موقع پا کر اُستاد ذوق پر چوٹ کرنا چاہتے ہیں۔
’’کیوں اُستاد! یہ نذر کا کون سا وقت ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں کل عید کے دربار ہی میں پیش کرنا۔‘‘
’’نہیں حضور، یہ تو ابھی قبول ہو جائے۔ ہماری عید تو جہاں پناہ کے دم سے ہے، چاند ہو یا نہ ہو، جب اپنے آقا اور ولیِ نعمت کو دیکھ لیا تو چاند بھی ہو گیا اور عید بھی۔‘‘
’’مصاحبین اپنا سا منھ لے کر رہ جاتے ہیں۔ اتنے میں ایک سانڈنی سوار ہانپتا کانپتا خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ قدم بوسی کے بعد دست بستہ عرض کرتا ہے۔
’’خداوندِ نعمت کو عید مبارک ہو، یہ غلام چاند کی نوید لایا ہے۔‘‘
’’شاباش! تم سب سے پہلے چاند کی خوش خبری لائے ہو۔ اچھا، اپنا انعام لے لو۔ اور بھی انعام و اکرام تقسیم ہو جائیں اور ہاں ہماری رعیّت کو بھی عید کی خبر ہوئی یا نہیں‘‘۔
’’کیوں نہیں جہاں پناہ! نوبت خانے سے نفیری کی آواز بلند ہو رہی ہے، وہ دیکھیے توپیں بھی تو چل رہی ہیں۔‘‘
جہاں پناہ محل میں تشریف لائے ہیں۔ شہزادیاں اور بہورانیاں چاند کا آداب بجا رہی ہیں۔ فوج دار خاں فیل خانے کا داروغہ حاضرِ خدمت ہوتا ہے۔ ’’مولا بخش‘‘ ہاتھی کو رنگنے کا حکم صادر فرماتے ہیں۔ توپیں، ڈیرے، فرش، فروش عیدگاہ بھیجا جا رہا ہے۔‘‘
چاند رات کو دہلی کے گلی کوچوں اور بازار کا نقشہ کھینچتے ہوئے مصنف رقم طراز ہیں:
’’شہر میں نقّارے کی آواز اور توپوں کی دھوں دھاں نے گھر گھر چاند کا اعلان کر دیا ہے۔ ہر گھر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ کیا چھوٹا اور کیا بڑا، ہر ایک عید کی تیاری میں مصروف ہے۔ خریدوفروخت کا بازار گرم ہے۔
بھیڑ اس قدر ہے کہ راستہ چلنا اور سودا خریدنا دشوار ہے۔ یہ کلاہ فروش کی دکان ہے۔ خریداروں کا ہجوم ہے۔ کوئی دو پلڑی، کوئی چوگوشی اور کوئی مغلیٔ ٹوپی خرید رہا ہے۔ کوئی مُنڈیل پسند کرتا ہے تو کوئی بنارسی دوپٹّہ اور کوئی گولے دار پگڑی۔ گندھی کی بِکری بھی خوب ہو رہی ہے۔
لوگ دھڑا دھڑ عطر، تیل، مِسّی اور مہندی خرید خرید کر لے جا رہے ہیں۔ گندھی کی دُکان کے نیچے سڑک کے کنارے دو پھول والے پھولوں کا چھیبہ لگائے پھول پھیلائے کنٹھے بنانے میں مصروف ہیں۔ پھولوں کی خوش بو سے سارا بازار مہک رہا ہے۔ ان کے چاروں طرف پھولوں کے عاشق اور کنٹھوں کے شوقین کھڑے ہیں کہ کب کنٹھا تیار ہو اور ہم خریدیں۔ دونوں پھول والے کنٹھے بناتے اور باری باری لہک لہک کر آواز بھی لگاتے جاتے ہیں:
’’لو کٹورے موتیا، میاں۔ لو کٹورے موتیا۔ کیا لپٹیں آ رہی ہیں چنبیلی میں۔ کیا بہار ہے زردچنبیلی میں‘‘۔
منہیار کی دکان بھی عطر والے کی دکان سے تھوڑی ہی دور آگے ہے، طرح طرح کے رنگین اور جڑاؤ چوڑیوں کے لچھے اور لاکھ کے جوڑے چراغ کی روشنی میں پڑے جگمگ جگمگ کر رہے ہیں اور لوگ جلدی جلدی اس طرح خرید رہے ہیں، گویا وہ ہیرے اور یاقوت کی بانکیں ہیں کہ پھر کبھی نہ ملیں گی۔
جوتے والے کی دکان پر یوں تو ہر قسم کے گھٹیا اور بڑھیا جوتیوں کے جوڑے موجود ہیں، لیکن لمبے پنجے کی کام دار سلیم شاہی جوتی کے مقابلے میں گول پنجے کی جوتی کو کوئی نہیں پوچھتا، جسے دیکھو وہ سلیم شاہی خرید رہا ہے۔
درزیوں کی دُکانوں اور دھوبیوں کے گھروں پر بھی لوگ گھڑی گھڑی آ جا رہے ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر کڑا تقاضا کر رہا ہے اور وہ ہیں کہ نرمی اور خوشامد سے باتیں ملا کر ٹھنڈا کر رہے ہیں۔
’’سرکار گھبرایئے نہیں برس دن پیچھے تو آپ کو ستانے اور انعام لینے کا موقع ملا ہے۔‘‘
’’حضور! ذرا دم لیجیے، استری کر رہا ہوں، ساتھ ہی لیتے جایئے گا۔‘‘
’’میر صاحب! آپ بے فکر رہیں۔ آپ کی شیروانی میں صرف بٹن لگانے باقی ہیں۔ بچّوں کی اچکنیں رات کو سِی کر اٹھوں گا۔ خدا نے چاہا تو صبح نماز سے پہلے یہ سب کپڑے آپ کے گھر پر ہوں گے، لیکن حضور میری عیدی نہ بھولیے گا۔ آپ کے دم سے بچّے عید منا لیتے ہیں۔ خدا حضور کو سلامت رکھے۔‘‘
لوگ عید کا ضروری سامان لے کر اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔ گلیوں میں ہٹّے کٹّے مسٹنڈے بے نوا آزاد خُمرے، رسول شاہی چار ابرو کی صفائی کیے اپنی اپنی صدا لگانے میں مصروف ہیں:
’’یاد رب کی اور خیر سب کی، یہاں دے اور وہاں لے۔ تیرے آگے کی بھی خیر، تیرے پیچھے کی بھی خیر۔‘‘
’’مائی آج دے، کل لے، سائیں بابا کا سوال پورا کردے۔ مولا کے شیر میری ہانڈی بھر دے۔ اللہ کے شیر میری ہانڈی بھر دے۔‘‘
وہ دیکھیے، ایک صاحب اپنے بال بچّوں کو لیے گلی میں داخل ہوئے۔ فقیر نے صورت دیکھتے ہی پیسے ٹھگنے کے لیے دعائیں دینی شروع کیں:
’’الٰہی نواب صاحب کی خیر ہو، حویلیاں آباد رہیں، دُعائیں دیں گے سائیں بابا۔‘‘
’’خدا نواب صاحب کو ہر سال عید منانی نصیب کرے۔‘‘
’’بابا کچھ راہِ خدا دے جا، بھلا کر بھلا ہو گا۔‘‘
ایک گھر میں ہونے والی عید کی تیاری کا نقشہ کتاب میں کچھ یوں کھینچا گیا ہے:
’’گھر میں عید کی جو خوشی بچّوں کو ہے، اتنی کسی کو بھی نہیں، ایک ایک کو اپنی ٹوپیاں اور جوتیاں دکھاتے اور بغل میں لیے اُچھلتے پھرتے ہیں۔ اُسے دیکھیے، وہ اپنی جوتی سرہانے ہی رکھے سو رہا ہے۔ لڑکیاں اپنے گوٹے کناری کے کپڑے دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہیں۔ کھانا پینا سب بھولی ہوئی ہیں۔ بچّیاں مہندی کی رکابی لیے بڑی بہن کے سر پر سوار ہیں۔ مہندی لگانے کا تقاضا ہو رہا ہے۔
آج کی چاند رات اور تیّاریوں کا احوال
پی ای سی ایچ ایس میں رہایش پزیر سیکنڈری اسکول کی ایک ریٹائرڈ استانی، مہ جبیں کے بہ قول پہلے عید کی خوشیوں میں دولت اور ثروت کا بہت زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا تھا۔ اب نہ تو رمضان کے لیے وہ اہتمام کِیا جاتا ہے اور نہ ہی عید کے لیے، جو پہلے کیا جاتا تھا۔ اب ہر شخص دولت کے پیچھے بھاگتا نظر آتا ہے، لہٰذا اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ چاند رات کا لطف اٹھائے اورعید کے لیے روایتی انداز میں تیاریاں کرے۔
غریب روپے پَیسے سے مجبور ہے اور امیر دھن دولت کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ اب لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہر خوشی پَیسوں سے خریدی جا سکتی ہے، چناں چہ خوشیاں خریدنے کے لیے دولت کمانے کی فکر لوگوں کو لاحق رہتی ہے۔ اب محبّت اور خلوص کو روپے پَیسے کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔
اُن کے بہ قول پہلے لوگ لباس، فرنیچر اور کھانے کی ڈشیں نہیں دیکھتے تھے۔ پینتیس، چالیس برس قبل تک کراچی میں شا ذ و نادر ہی عید کارڈ ملتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ سادہ کاغذ پر بیل بوٹے بنا کر ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد بھیجا کرتے تھے۔ کون اور پاؤڈر والی منہدی بہت بعد میں آئی۔
پہلے تمام خواتین عید، بقر عید اور خوشی کے مواقعے پرمنہدی کے تازہ پتّوں سے گُل، بُوٹے بناتی تھیں۔ عید کی چاند رات کویہ کام بہت اہتمام سے کیا جاتا تھا۔ اس میں کوئی پائی پَیسہ خرچ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ امیر و غریب، سب اسی طریقے سے حِنا لگاتے۔
پہلے ہر محلّےمیں منہدی کے ایک دو درخت ضرور مل جاتے تھے۔ لوگ گھروں کے باہر باڑ کے طور پر اس کے درخت لگاتےتھے۔ لہٰذا پتّوں کی دست یابی کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ کسی بھی چھوٹے یا بڑے کے ذریعے منہدی کے پتّے آس پڑوس سے منگوا لیے جاتے تھے۔
چاند رات کو لڑکیاں، بالیاں،گھرکے کام کاج کرنے کے ساتھ موقع ملتے ہی پتھرکی سِل پر پتّے پیس کر کٹوری میں رکھ لیا کرتی تھیں اورکام کاج سے فارغ ہونے کے بعد فوراً ہاتھوں پر حنا لگا لیا کرتی تھیں۔ اس منہدی کے رنگ، فواید اورخوش بُوسےآج کی نسل کو کیا علاقہ۔
پہلے چوڑیاں بھی سادہ سی ہوا کرتی تھیں، جنہیں ریشمی چوڑیاں کہتے ہیں۔ ہر طبقے کی خواتین وہ چوڑیاں پہنا کرتیں۔ اسی طرح ہر امیر اور غریب کے ہاں شِیر خُرمہ عیدکی مخصوص ڈش کے طور پر پکتا تھا۔ مردوں اور خواتین کے ملبوسات گھر میں سِلا کرتے ۔ سِلائی کڑھائی کا کام چاند رات تک جاری رہتا اور مرد اور خواتین گھر کے سِلے ہوئے کپڑے پہننے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔
عید کی خوشیوں پر دولت کا قبضہ
موجودہ زمانے میں غریب کس طرح عید مناتا ہے؟ اس بارے میں بلدیہ عظمی کراچی کے دفتر میں جونیئر کلرک کی حیثیت سے کام کرنے والے ریحان انصاری کا کہنا تھا کہ امیر جلد از جلد عید آنے کی دعا کرتا ہے، لیکن غریب آدمی یہ چاہتا ہےکہ عید لمبے وقفے کے بعد آئے یا اُس وقت آئے، جب اُس کے ہاتھ میں چار پَیسے ہوں۔
اُن کے بہ قول جوں جوں عید قریب آتی ہے، غریب آدمی کی پریشانی اُسی قدر بڑھتی جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے عید کی خوشیوں پر دولت کا قبضہ ہوگیا ہے اور اس تہوار کی خوشیاں دولت مندوں کے لیے مخصوص ہو گئی ہیں۔ ریحان انصاری کے بہ قول، موجودہ زمانے میں عید کو نمود و نمایش کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔ اُس روز ہمارے معاشرے کی طبقاتی تفریق نمایاں ہو جاتی ہے اور غریب اور امیر کے درمیان واضح فرق دیکھ کریوں لگتا ہے، جیسے امیر افراد غریبوں کا مذاق اُڑا رہے ہوں۔
بمبئی بازار، اولڈ ٹاؤن میں بچّوں کے ملبوسات کی خریداری کے لیے آنے والے محمد فرحان رنچھوڑ لائن میں رہتے ہیں اور ان کے چار بچّے ہیں، جو مختلف جماعتوں میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ ایک نجی ادارے میں ملازم ہیں اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے بقول ان کی ماہانہ آمدنی چالیس ہزار روپے ہے، جس میں سے چودہ ہزار روپے ماہانہ کرائے کی مد میں نکل جاتے ہیں۔
باقی بچ رہنے والی رقم میں سے تین ہزار بچّوں کی تعلیم پر خرچ ہوجاتے ہیں اور تیئس ہزار روپے میں انہیں گھر کے تمام اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق انہیں اپنے بچپن اور جوانی کے ایّام میں آنے والی عیدالفطر کی خوشیاں اور رونقیں آج تک یاد ہیں۔
اُس دور میں لوگ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے لیے خاص طور پر تیاریاں کرتے تھے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ رمضان المبارک میں عیدالفطر کے لیے ملبوسات اور چپل، جوتے خریدنے کے لیے بازار کا رخ کرتےتھے اور بہت شوق سے عیدالفطر کے لیے ان اشیاء کا انتخاب کرتے تھے۔
اُس زمانے میں دکھاوے کا زیادہ رجحان نہیں تھا۔ لوگ سادگی پسند تھے اور فیشن کے چند مخصوص انداز لوٹ پھیر کے آتے رہتےتھے۔ ملبوسات، پارجہ جات اور جوتے چپل کی بہت زیادہ اقسام دست یاب نہیں ہوتی تھیں ۔پورا خاندان زیادہ سے زیادہ دو تین روز میں عید کے لیے خریداری مکمل کرلیتا تھا۔ مگر آج کل آٹھ دس سال کے بچّے بھی ملبوسات اور جوتے چپل خریدنے کے ضمن میں بہت نخرے دکھاتے ہیں۔
وہ پسند کے رنگ، ڈیزائن اور فیشن کی خاطر والدین کو بار بار بازاروں کے چکر لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اوپر سے ہوش رُبا منہگائی نے زندگی اجیرن کردی ہے۔ اس برس انہوں نے ہر بچّے کے لیے تقریباً دو ہزار روپے مخصوص کیے تھے، لیکن بازار آکرپتا چلا کہ اس رقم میں عید کے لیے تمام ضروری اشیاء خریدنا ممکن نہیں ہے۔
بچّوں کے ملبوسات، بڑوں کے ملبوسات سے زیادہ منہگے ہیں۔ دکان دار منہ پھاڑ کر قیمت بتاتے ہیں اور ان جیسے خریدار کا دل چاہتا ہے کہ سر پر پیر رکھ کر بازار سے بھاگ جائے، لیکن بچّوں کی خوشی کے لیے والدین کو اپنا پیٹ کاٹ کر ان کے لیے ملبوسات اور جوتے چپل خریدنا پڑتے ہیں۔
ایک غیر ملکی بینک میں اعلی عہدے پر کام کرنے والے تاشفین احمد کے مطابق پاکستان میں ایک دین کے ماننے والے عید الفطر کا تہوار یک ساں نہیں، بلکہ دو طرح سے مناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طبقہ اُس روز اسراف کا مظاہرہ کرتا ہے اوردوسرا اُس روز مہمانوں کی تواضع کے لیے ڈش تیار کرنا تو کجا، اپنا پیٹ بھرنے کے لیے متفکّر دکھائی دیتا ہے۔
تاہم ہر امیر اسراف نہیں کرتا اور بہت سے امیر اُس روز اپنے غریب بھائیوں کو بھی یاد رکھتے ہیں۔ پھر بھی عید الفطر طبقات میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے، امیروں کی عید، غریبوں کی عید۔ تاہم یہ درست ہے کہ بہت سے صاحبانِ ثروت اُس روز بھی غریبوں کو یاد رکھتے ہیں۔
خیر و شر اورغربت اور امارت اپنی جگہ، اصل بات معاشرتی رویّوں کی ہوتی ہے۔ اگر معاشرتی رویّے مناسب ہوں، تو غربت گالی نہیں بنتی اور امارت زندہ رہنے کا لائسنس قرار نہیں پاتی۔ اگر عیدالفطر خوشیاں بانٹنے کے تہوار کے طور پر منائی جائے، تو اُس روز پاکستان میں ہر چہرے پر مسّرت کے رنگ ہوں۔