میانوالی شہر کے پاس ایک ٹول پلازہ بیس پچیس برس پہلے اس وقت وجود میں آیا تھا جب میانوالی سے چاندنی چوک تک پچاس کلو میٹر لمبی ایک سڑک تعمیر ہوئی تھی ۔شروع شروع میں اس پر ٹول ٹیکس پانچ روپے وصول کیا جاتا تھا۔ پھر وہ دس روپے ہوگیا۔تقریباً دس سال پہلے وہ بیس روپے کردیا گیا ۔ لوگوں کے ماتھے پر کوئی شکن نہ آئی ۔میانوالی کےاردگرد رہنے والے شہر آتے ہوئے بیس روپے دیتے رہے مگراب کے جب میں عید پر میں میانوالی گیا تو وہ ٹول ٹیکس ستر روپے کردیا گیا تھاجو لوگوں کےلئے قابل ِ قبول نہیں تھا سو کئی جگہوں پر لوگوں نے اس موضوع پر میرے ساتھ بات کی ۔ایسے جملے سننے کو ملے ’’سڑک عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بنتی ہے، مگر ہر گزرتے لمحے اس پر چلنے کا ٹیکس الگ لیا جاتا ہے۔ٹول پلازہ پر رکنے والا ہر مسافر، سڑک کے کرایے کا مسافر ہے۔سڑکیں عوام کے لیے بنائی جاتی ہیں، مگر ٹول ٹیکس دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ صرف امیروں کے لیے مخصوص ہیں۔ٹیکس ہم دیں، سڑکیں بھی ہم بنوائیں، اور سفر پر بھی ٹیکس دیں ،آخر یہ کیسا انصاف ہے۔یہ کیسا ترقیاتی ماڈل ہے جہاں سڑکیں عوامی ہیں، مگر سفر نجی خرچ پر ہوتاہے۔‘‘
یہ سوال بھی اٹھایا جانے لگا ہےکہ ہر ٹول پلازے کی مدت ہوتی ہے ۔یہ کیا طریقہ ہے کہ جو ٹول پلازہ ایک بار وجود میں آتا ہے پھر ختم ہی نہیں ہوتا۔کئی منصوبوں میں حکومت اور نجی شعبے کے درمیان معاہدے کیے جاتے ہیں۔ ایسے معاہدوں میں، نجی کمپنی سڑک کی تعمیر کے بعد مخصوص مدت تک ٹول ٹیکس وصول کرتی ہے تاکہ اپنی سرمایہ کاری سے جو کچھ کما سکتی ہے کما لے مگر یہ مدت عام طور پر 20 سے 30 سال تک ہو سکتی ہے۔حکومت کے نزدیک ان ٹول پلازوں کو غیر معینہ مدت تک موجود رکھنے کا جوازیہ ہے کہ حکومت اس سڑک کی دیکھ بھال کرتی ہے ،مرمت وغیرہ کراتی رہتی ہے ۔اس لئے ٹول پلازہ ختم نہیں کیے جاتے ۔حالانکہ پاکستان میں ایک سڑک جب ٹوٹ جاتی ہے وہ اس وقت تک ٹوٹی ہی رہتی ہے جب تک نئی نہیں بنتی ۔ حکومت ٹیکس وصول کرنے کیلئے یہ ٹول پلازے ٹھیکے پر دیتی ہے۔یعنی زیادہ مال تو ٹھیکہ دار کی جیب میں جاتا ہے ۔حکومت نے اگر روڈ ٹیکس وصول کرنا ہے تو دنیا کے مطابق روڈ ٹیکس وصول کرے ۔یعنی ہر گاڑی سے روڈ ٹیکس وصول کیا جائے مگر ہر سڑک ،ہرموڑ پر ٹول ٹیکس بنانا درست نہیں ۔
میں جس ٹول پلازے کا ذکر کررہا ہوں،وہاں سے روزانہ میانوالی کے گرد نواح میں رہنے والی ہزاروں موٹرسائیکلیں ،کاریں ،ٹریکٹر ٹرالیاں آتی جاتی ہیں ۔ان سے یہ ٹول ٹیکس وصول کرنا بنتا ہی نہیں ہے ۔وہ اسی شہر کے رہنے والے ہیں مگر کوئی اس بات پر دھیان ہی نہیں دیتا۔کئی جگہوں پر ایسا ہے کہ جہاں ٹول پلازہ ہے وہاں کے شہریوں سے ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا مگریہ ضابطہ ہر جگہ لاگو نہیں کیا گیا ۔
ٹول ٹیکس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور یہ بنیادی طور پر سڑکوں، پلوں اور شاہراہوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کیلئے عائد کیا جاتا ہے۔ قدیم تہذیبوں میں بھی سڑکوں اور گزرگاہوں پر محصولات وصول کیے جاتے تھے تاکہ انکی مرمت اور حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔رومی سلطنت میں ٹول ٹیکس کا باقاعدہ نظام موجود تھا، جہاں سڑکوں اور پلوں کے استعمال پر مسافروں سے فیس وصول کی جاتی تھی۔ چین میں شاہراہ ریشم پر گزرنے والے قافلوں سے محصولات لیے جاتے تھے تاکہ تجارتی راستوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔یورپ کے قرون وسطیٰ میں جاگیردار اور بادشاہ اپنی سلطنتوں میں سڑکوں اور پلوں پر گزرنے کے عوض فیس وصول کرتے تھے۔برصغیر میں ٹول ٹیکس کی تاریخ مغلیہ دور سے شروع ہوئی ہے اس دور میں بڑے راستوں اور دریا کے پلوں پر محصول عائد کیا جاتا تھا، جو شاہی خزانے میں جمع ہوتا تھا۔برطانوی دور میں بھی کئی سڑکوں پر مخصوص مقامات پر ٹیکس وصولی کے لیے ناکے قائم کیے گئے تھے، جنہیں "چوکی" کہا جاتا تھا۔پاکستان میں ٹول ٹیکس کا باقاعدہ نظام انیس سو اسی کی دہائی میں سامنے آیا، جب حکومت نے شاہراہوں اور موٹر ویز کی دیکھ بھال کے لیے محصولات کا نظام متعارف کرایا۔انیس سو ستانوے میں موٹر وے ایم-2 (لاہور-اسلام آباد موٹر وے) کی تعمیر کے بعد باقاعدہ طور پر جدید ٹول ٹیکس نظام نافذ ہوا۔ دوہزار کی دہائی میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے ملک بھر میں قومی شاہراہوں پر مختلف مقامات پر ٹول پلازے قائم کیے۔دوہزار بیس کے بعد ٹول ٹیکس میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ موٹر ویز اور قومی شاہراہوں کی بہتری اور دیکھ بھال کو یقینی بنایا جا سکے۔ آج پاکستان میں ہر بڑی قومی شاہراہ اور موٹر وے پر ٹول ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد سڑکوں کی دیکھ بھال، نئے منصوبوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا اور سفری سہولیات کو بہتر بنانا ہے۔ ٹول ٹیکس کی شرح مختلف شاہراہوں پر الگ الگ ہوتی ہے اور یہ گاڑی کی نوعیت کے مطابق متعین کی جاتی ہے۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر کی قومی شاہراؤں اور موٹر ویز پر ٹول ٹیکس کے نئے ریٹ جاری کر دیئے ہیں جن کا اطلاق یکم اپریل سے ہو گیاہے۔اب کار سے 70 روپے اور ویگن سے 150 روپے ٹول ٹیکس وصول کیا جارہا ہےجبکہ بڑی گاڑیوں کیلئے ٹول چارجز 850 سے 5750روپے تک ہیں۔اس برس ٹول ٹیکس میں یہ دوسرا جبکہ رواں مالی سال کے دوران چوتھا اضافہ ہے جو پہلے برسوں بعد ہوا کرتا تھا ۔ٹول ٹیکس میں اضافہ یقینا مہنگائی میں اضافہ کا سبب بنتا ہے کیونکہ اِس سے بار برداری کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ اِس وقت ضرورت ہےکہ اس ہولناک مہنگائی میں ٹیکسوں کابوجھ کم کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے ۔