کراچی ( جنگ نیوز) چیئر مین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی وجودیاتی خطرہ ہے اور اسے جنگ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے، مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا نے سنگاپور میں شنگریلاڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا عالمی سطح کے بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔
انہوں نے متنوع موضوعات پر سنجیدہ خطاب اور جنوبی ایشیا میں تصادم کے بڑھتے ہوئے خطرات کو اجاگر کرتے ہوئے ایشیا پیسفک اور قریبی خطوں میں شمولیتی، اداراتی، بحرانوں کی مینجمنٹ کے فریم ورک کی ضرورت پر زور دیا۔
سخت الفاظ میں کی گئی اس تقریر میں جنرل مرزا نے کہا کہ اسٹریٹجک استحکام اعتماد، تحمل اور ایک دوسرے کی سرخ لکیروں سے آشنائی کے ذریعے حاصل کیاجانا چاہیے نہ کہ دوسروں کے اخراج سے یا ان پر غلبہ حاصل کرکے حاصل کیاجائے۔
ان کے یہ الفاظ تھے کہ’کوئی بھی میکنزم اعتماد کے خلا میں کام نہیں کر سکتا اور نہ ہی نظمیاتی عدم توازن پر قائم ہوسکتا ہے‘۔
جنرل مرزا نے واضح کیا کہ جب علاقائی سیکیورٹی آرکیٹکچر کی بات ہو تو شمولیت محض کوئی آپشن نہیں ہوتا۔
اُنہوں نے کشمیر کے مسئلے، بھارت، پاکستان و چین کے بگڑتے تعلقات اور افغانستان میں عدم استحکام کو اس خطرے کی بنیادی وجوہات قرار دیا۔
جنرل مرزا نے خبردار کیا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی سے غلط اندازے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور رابطے کے فعال چینلز کا نہ ہونا صورتحال کو اور خطرناک بنا رہا ہے۔
انہوں نے بھارت پر عسکری جارحیت، مغرب کی پشت پناہی اور خطے میں بالادستی کی خواہش کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا خطے کا حکمران بننے کا خواب اس کے لیے بحران سے نمٹنے کے میکانزم میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔
جنرل مرزا نے خبردار کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی حد خطرناک حد تک نیچے آ چکی ہے جو 1.5 ارب افراد پر مشتمل خطے کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
انہوں نے بھارت کی جانب سے شہری علاقوں کو نشانہ بنانے اور سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کی دھمکیوں کو پاکستان کے لیے وجودی خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات جنگ کے مترادف سمجھے جا سکتے ہیں۔