ایک روز کپریانی مجھے کہنے لگا وجہ کوئی خاص نہیں بلکہ صرف مشورہ ہے کہ جب وکٹر سوال کرنے لگے تم اس کے پاؤں پر اپنے جوتے کی ایڑی کس کر مارو تاکہ اس کے سوالوں سے نجات مل جائے۔ کویت کا احمد قلندر بہت خوب صورت عادات کا مالک تھا مگر بہت شائی تھا چنانچہ زیادہ لوگوں کے سامنے کھل کر بات نہیں کرسکتاتھا۔ فینیکس کے میئر مسٹر ڈانک واٹر کی طرف سے دیئے گئے عصرانے میں ہم سب غیر ملکی مندوبین کو مائیک پر آ کر اظہار خیال کرنا تھا چنانچہ ہم قطار میں روسٹرم کے پاس کھڑے تھے اور باری باری مائیک پر جا کر اظہار خیال کرتے تھے ۔ احمد قلندر میرے برابر میں کھڑا تھااور جوں جوں اس کی باری قریب آ رہی تھی اس کے ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا حتیٰ کہ جب اس کا نام پکارا گیا تووہ سیدھا منہ کے بل فرش پر گر گیا۔ سوڈان کا ڈاکٹر ہر وقت اداس اداس رہتا تھا بس اس کے چہرے پر رونق اس وقت آتی تھی جب اسکے سامنے سفید فام کیرولین کا ذکر ہوتا تھا۔ اس وقت وہ ٹھنڈی آہ بھرتا اور کہتا تھا کوئی ہے جو میرے جذبات اس تک پہنچائے ۔اردن کا محمد حلال شاہ انتہائی دلچسپ آدمی تھا بہت بذلہ سنج اس کے گیارہ بچے تھے جب کوئی اس سے پوچھتا کہ تم اردن میں کیا کام کرتے ہو تووہ اپنی ننھی منی سفید داڑھی کو کھجلاتے ہوئے کہتا میں نے تمہیں بتایا نا کہ میرے گیارہ بچے ہیں۔ پیرو کا الفانسو تصویریں کھینچنے کا شوقین تھا بسا اوقات وہ خالی دیوار کی تصویریں بنانے لگتا تھا۔ قبرص کا حسن ہر وقت ڈالروں کا حساب کرتا رہتا کہ کتنے ڈالر خرچ ہوگئے ہیں اور کتنے ابھی مزید ملنے کی توقع ہے۔ ڈنمارک کا پال صحیح معنوں میں ایک نستعلیق آدمی تھا اس کا مزاح انتہائی شستہ ہوتا تھا۔ڈنمارک کی بی بی بیٹن اس سے زیادہ نستعلیق تھی عمر چالیس کے قریب خوبصورت دراز قد تیکھے نین نقش مگر انتہائی ریزرو رہتی تھی وہ جانتی تھی کہ مردوں سے عزت کس طرح کرائی جاتی ہے چنانچہ ان چار ہفتوں میں کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ اس کے بارےمیں کوئی جعلی ’’کلیم‘‘ ہی داخل کرسکے۔ بس یہ وہ لوگ تھے اور یہ وہ فضا تھی جس میں چار ہفتےمختلف النوع مسائل کے باوجود بہت اچھی طرح گزرے اور ہاں کویت کا احمد قلندر اور ڈنمارک کا پال ہوٹل کے سالم کمرے میں رہتے تھے، ڈنمارک کی بیٹن بھی کسی کے ساتھ کمرہ شیئر نہیں کرتی تھی۔
ایک اسی طرح کا سفر میں نے 1980ءکی دہائی میں چین کا بھی کیا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب سال میں ایک دفعہ چینی ادیبوں کا وفد پاکستان آتا تھا اور اس سے اگلے سال پاکستانی ادیبوں کو چینی ادیبوں سے ملاقات کیلئے چین جانا ہوتا تھا پریشان خٹک کی سربراہی میں چین جانے والے وفد کا ایک رکن میں بھی تھا چنانچہ جب پروین شاکر،مہتاب راشدی،بشیر بلوچ وفد کے قائد پروفیسر پریشان خٹک اور راقم پہلے روز کھانے کی میز پر بیٹھے تو ’’اڑنے سے پیشتر ہی میرا رنگ زرد تھا‘‘ کے مصداق ہم کھانے کی چیزوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈر رہے تھے ۔ہمارے ہاں کھانے سے پہلے تو سٹارٹر کے طور پر سلاد وغیرہ رکھے جاتے ہیں یہاں اس کام کیلئے مچھلی کے قتلے ایک پلیٹ میں رکھے تھے ایک پلیٹ میں چینی کھجوریں تھیں جن میں گٹھلیوں کی بجائے بیج تھے ایک اور چیز جو شکل سے کھیرا لگتی تھی چکھنے پر بھی کھیرا ہی ثابت ہوئی مگر یہ ایک قسم کا کھیرے کا اچار تھا یہ سب چیزیں نہایت لذیذ تھیں چنانچہ حوصلے بلند ہونے پر ہم اصل کھانے کی طرف متوجہ ہوئے جس میں اُبلے ہوئے چاول تھے خرگوش کا گوشت اور بانس کے درخت کی جڑوں کا سالن تھا اُبلی ہوئی پالک تھی فرائڈ پران تھے انڈوں کا سالن تھا اور اس کے علاوہ مچھلی شوربہ تھا ان میں کسی سالن میں بھی مرچیں نہیں تھیں مگر کھانے کے بعد پتہ چلا کہ غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں۔یعنی ابلی ہوئی پالک کے علاوہ باقی سب کچھ مزیدار تھا چینی ہمارے حلال حرام کا بہت خیال رکھتے ۔ہوٹل کے کمروں میں دھرے ریفریجریٹر ز میں مہمانوں کیلئے دو عدد کوکاکولا ،دوعدد منرل واٹر کی بوتلیں ،ایک تھرماس میں اُبلتا ہوا پانی اور چائے کی پڑیوں کے علاوہ دو عدد بیئر کی بوتلیں بھی ہوتی ہیں لیکن ہمارے لئے سب کچھ رکھا گیا تھا بس بیئر کی بوتلیں نہیں تھیں۔ اسی طرح ویٹرس غلطی سے خنزیر کا گوشت ہمارے کھانے کی میز پر رکھ گئی جس پر ہمارے میزبان مسٹر لیو نے اسے کہا کہ یہ فوراً سے پیشتر اٹھا کر لے جاؤ مسٹرلیو ایک دراز قد دبلا پتلا سا نوجوان تھا عینک لگاتا، بہت زندہ دل، وہ عوامی جمہوریہ چین کی رائٹر ایسوسی ایشن کا افسر میزبانی تھا اس نوجوان سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال ہوا چین کے دشمنوں نے چین کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں ان میں سے ایک غلط فہمی یہ بھی ہے وہاں تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا لیکن لیو سے مل کر ہماری یہ غلط فہمی دور ہو گئی کیونکہ یہ نوجوان اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاتے ہوئے بھی نہ جھجھکتا ،میں نے اس سے پوچھا کہ آیا چین میں غریب لوگ موجود ہیں اس نے بلاتامل جواب دیا ہاں ہیں ۔ (جاری ہے)