(گزشتہ سے پیوستہ)
مجھے تنہائی پسند نہیں، چنانچہ میں ہر وقت کسی نہ کسی کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہوں۔ کبھی احمد ندیم قاسمی کے ساتھ، کبھی منیر نیازی، کبھی انتظار حسین، کبھی مشتاق احمد یوسفی، کبھی سلیم احمد، کبھی امجد اسلام امجد، کبھی اشفاق احمد، کبھی شفیق الرحمان، کبھی ابن انشاء اور کبھی ضمیر جعفری کے ساتھ گپ شپ کر رہا ہوتا ہوں۔اس وقت میرے ابا جی میرے ساتھ ہیں۔ اسلامک ٹرسٹ ماڈل ٹاؤن لاہور کی طرف سے اباجی کیلئےجو رہائشی مکان بنایا گیا تھا میں اس وقت ابا جی کے ساتھ وہاں موجود ہوں۔ میں نے ابھی ان کیلئے حقہ تازہ کیا ہے، ابا جی چارپائی پر لیٹے ہیں، میںنے حقہ ان کے قریب رکھ دیا ہے۔ اس دوران انہیں اچانک کچھ یاد آتا ہے وہ اٹھتے ہیں اور ایک فارم فل کرکے مجھے دیتے ہیں اور کہتے ہیں ڈاکخانے جاؤ اور جو رقم میں نے فارم میں درج کی ہے وہ لے کر آؤ۔ ابا جی کا اکاؤنٹ ڈاکخانے میں تھا، یہ اسی روپے کا چیک ہے جو میں نے کیش کرانا ہے۔ میں سائیکل پر پیڈل مارتا ہوں اور چھ سات منٹ میں ڈاکخانے تک کی مسافت طے کرکے وہ ’’چیک‘‘ کاؤنٹر پر بیٹھے داڑھی والے ایک شخص کے سپرد کرتا ہوں اس کی رنگت سیاہی مائل ہے اور وہ ماڈل ٹاؤن کے قریب و جوار میں واقع کسی گاؤں میں رہتا ہے، وہ ’’چیک‘‘ لے کر پیسے گننے لگتا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اسی روپے تو پورے ہوگئے ہیں مگر اس کے باوجود وہ گنتا چلا جاتا ہےبالآخر اسی روپے کی بجائے آٹھ سو روپے کی خطیر رقم میرے سپرد کردیتا ہے، اس وقت مجھ پر شیطان غالب آ جاتا ہے اور میں اتنی بڑی رقم کرتے کی جیب میں ڈال کر گھر کی راہ لیتا ہوں، میں نے کبھی اتنے پیسے اکٹھے نہیں دیکھے تھے۔ واپس گھر کی طرف جاتے ہوئے اسے خرچ کرنے کا پلان بناتا ہوں، مگر اچھی خاصی عیاشی کےبعد بھی لگتا ہے کہ ابھی کافی پیسے باقی ہیں، مگر پھر اچانک یہ خیال دماغ آتا ہے کہ یہ تو حرام ہے، اس میں اسی روپے تو ہمارے ہیں باقی پیسوں پر میرے یا میرے گھر والوں کا کوئی حق نہیں۔گھر تک پہنچنے سے پہلے ذہن میں حلال اور حرام کی کشمکش جاری رہتی ہے۔ حتیٰ کہ جب گھر میں داخل ہوتا ہوں تو میں شیطان کے شکنجے سے نکل چکا ہوتا ہوں۔میں ابا جی کو آٹھ سو روپے دیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ کیشئر نے غلطی سے اسی کی بجائے آٹھ سو دے دیئے ہیں۔ یہ سنتے ہی ابا جی شدید غصے کی حالت میں مجھے مخاطب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حرام تم گھر کی دہلیز تک لے کر کیسے آئے، جب تمہیں پتہ چل گیا تھا کہ وہ غلطی سے تمہیں زیادہ پیسے دے رہا ہے تم نے اسی وقت زائد رقم اس کے حوالے کیوں نہ کی۔ میرا خیال تھا کہ ابا جی میری اس ایمانداری پر خوش ہوں گے مگر انہیں یہ بات بھی ناگوار گزری کہ یہ حرام مال گھر تک کیسے لے کر آگئے۔ خیر میں تیز تیز پیڈل مارتے ہوئے ڈاکخانے پہنچ گیا۔ ڈاکخانہ اس وقت بند ہونے کو تھا اور کیشئر سخت پریشانی کی حالت میں بار بار نوٹ گنتا مگر ظاہر ہے صرف گننے سے تو خسارہ پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ سو جب میں نے آٹھ سو روپے میں سے اسی روپے اپنے پاس رکھ کر باقی رقم اس کے حوالے کی تو اس کے چہرے پر خوشی کے جو آثار نظر آئے وہ میرے لئے بہت قیمتی اثاثہ تھے۔
ایک دفعہ ماڈل ٹاؤن میں آوارہ گردی کے دوران مجھے سڑک پر سے ایک سو روپے کا نوٹ نظر آیا اور میں نے وہ اٹھا کر جیب میں ڈال لیا۔ گھر پہنچ کر میں نے ابا جی کو بتایا کہ مجھے سڑک پر سے یہ نوٹ ملا ہے۔ ابا جی نے مجھے شاباش دی اور پھر تین دن مسجد میں اعلان کرایا کہ سڑک پر سے کچھ رقم ملی ہے وہ بطور امانت ان کے پاس موجود ہے جس کی ہو وہ آ کر لے جائے، جب تین دن تک کوئی نہ آیا تو ابا جی نے وہ ’’رقم‘‘ اسلامک ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دی۔ جب میں کالج میں لیکچرار مقرر ہوا تو تعلیمی ادارے قومیانے کے بعد میری تنخواہ ساڑھے چار سو روپے ماہانہ ہوگئی تھی۔ ایک بار میں کیش لینے بینک گیا تو وہاں بھی ویسا ہی واقعہ پیش آیا جو ماڈل ٹاؤن کے ڈاکخانے میں پیش آیا تھا، کیشئر نے ساڑھے چار سو کی بجائے ساڑھے چار ہزار گن کر کاؤنٹر پر رکھ دیئے ، میں نے اس میں سے ساڑھے چار سو اٹھائے اور باقی واپس کاؤنٹر کی طرف دھکیل دیئے۔ اس کے بعد زندگی میں حرام مال کی آفر سینکڑوں ، ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہوئی مگر میں کیا کرتا، ابا جی دیکھ رہے ہوتے تھے۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مجھے اپنا اخبار نکالنے کی آفر ایک ’’ادارے‘‘ کی طرف سے ہوئی تھی جس کا آغاز ہی کروڑوں سے ہونا تھا اور یہ آفر میرے ایک قریبی دوست نےکی تھی اور اس کا ’’بگ باس‘‘ میرے جواب کا انتظار کر رہا تھا مگر ابا جی کو کون سمجھائے وہ ایسے ہر موقع پر میرے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ سو میں نے معذرت کردی، میں نے تو حرام کے علاوہ خالص حلال رقم بھی واپس کردی جو ڈیڑھ کروڑ کے قریب تھی۔اس کا حوالہ کہیں پہلے دے چکا ہوں چنانچہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔
مگر میرے خدا نے مجھے گھاٹے کا سودا نہیں کرنے دیا ، اب الحمد للہ میرا اپنا گھر ہے، گاڑی ہے، چند لاکھ کا بینک بیلنس بھی ہے اور سب سے بڑی نعمت اللہ نے اولاد کی صورت میں عطا کی۔ میرے تینوں بیٹے بہت اچھے مناصب پر فائز ہیں، وہ اپنے باپ اور اپنے دادا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو کبھی گھاٹے میں نہیں رہنے دیتاچنانچہ ان تینوں پر اللہ کا خصوصی کرم ہے۔ بعض اوقات یہ راستہ طویل ہو جاتا ہے مگر آپ کو منزل تک پہنچا کر رہتا ہے۔ اگر کسی کو وہ منزل اور وہ سب کچھ نہ ملے جس کی خواہش اس نے کی تھی اگر اس کی روح پاکیزہ ہے تو پھر اسے کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا، آپ ایسے کسی شخص سے ملیں تو آپ اس کے چہرے کو دیکھیں وہاں شانتی ہی شانتی ہوگی۔(جاری ہے)