خلیجی ریاست عمان میں امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات کا پہلا دور بخیروخوبی مکمل ہوگیاہے۔ہفتے کے روزفریقین نے اڑھائی گھنٹے بات چیت کی اور اسے آئندہ بھی جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔دونوں وفود علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھے،جس کیلئے عمانی وزیرخارجہ نے پیام رسانی کا کام انجام دیا۔ ایرانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکہ کی طرف سے یہ ذمہ داری صدر ٹرمپ کے نمائندے اسٹیووٹکاف نے نبھائی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نےصدارت کا حلف اٹھاتے ہی تیزی سے جو فیصلے کیے ،ان میں سے بیشتر عالمی نوعیت کے ہیں ،جن سے پوری دنیا میں سفارتی، سیاسی اور بالخصوص معاشی منظرنامے میں ہلچل دکھائی دے رہی ہے۔ امریکہ روز اول سے ایران کے جوہری پروگرام کی شدید مخالفت کرتا آرہا ہے اور صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں تہران کو یہ کہتے ہوئے مذاکرات کی دعوت دی کہ انکار کی صورت میں اسے امریکی فوجی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے ایرانی رہبراعلیٰ علی خامنائی کو ایک خط میں تہران کو مذاکرات کیلئے دو ماہ کی مہلت دی گئی تھی۔ امریکی پیشکش کی روشنی میں ایرانی حکام نے اپنے اجلاس میں مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ بات چیت تعمیری اور باہمی احترام کے ماحول میں ہوئی۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے بھی مذاکراتی عمل مثبت اور تعمیری قرار دیا گیا ہے۔ ایران کا یہ کہنا بجا ہے کہ اگر امریکہ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرے تو ابتدائی مفاہمت کا امکان موجود ہے۔ امریکہ اور ایران کے مابین مذاکرات پوری دنیا ،بالخصوص خطے کے ممالک کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے پیدا ہونے سے پاکستان غیر معمولی طور پر متاثر ہوا تھا،امریکہ اور ایران سے عالمی برادری کی یہ امید ہے بجا ہےکہ وہ مذاکرات کو خلوص نیت سے کامیاب بنانے کی بھرپور سعی کریں گے۔