• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

حسن جعفر زیدی سے میرے دو پرانے رشتے ہیں ۔اقبال ٹاؤن لاہور میں میرے اور ان کے گھر کی دیوار ایک تھی، چنانچہ بعض اوقات ہم دونوں گھرانے اونچی آواز میں ہونے والی گفتگو بھی سن لیتے تھے۔ ان سے دوسرا تعلق بھی بہت پرانا ہے اوراس کا اتار چڑھاؤ بہت دلچسپ ہے۔ میں ان دنوں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں بطور سامع شریک ہوا کرتا تھا۔ اس حلقے کے اجلاسوں میں انتظار حسین، انجم رومانی ،شہرت بخاری، اعجاز حسین بٹالوی، احمد مشتاق اور اس دور کے دیگر مشاہیر باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ پھر یہاں ایک باغی گروپ ابھر کر سامنے آیا، ان کا موقف یہ تھا کہ ادب برائے ادب کوئی چیز نہیں، حقیقی ادب وہ ہے جو عوام کے دکھ درد بھی محسوس کرتا ہو اور اس کا اظہار بھی اس میں نظر آئے۔ حسن جعفر زیدی، سعادت سعید، شاہد محمود ندیم، جوزی، محمد عظیم اور بہت سے دوسرے نوجوان حلقے کے اجلاسوں میں اپنا نقطہ نظر بہت بلند آہنگ کے ساتھ پیش کرنے لگے۔ زاہد چودھری ایک بلند پایہ صحافی تھے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ بڑے صحافی تھے یا بڑے دانشور۔ وہ ان نوجوانوں کےرہبر تھے۔ ایک ڈاکٹر عزیز الحق بھی تھے وہ بھی حلقے کے ان ترقی پسند ادیبوں اور کارکنوں کیلئے مرشد کا درجہ رکھتے تھے۔ سو ایک دن یہ ہوا کہ بزرگان ادب نے ان نوجوانوں سے اپنی راہیں الگ کرلیں اور وائی ایم سی اے سے ’’ہجرت‘‘ کرکے پاک ٹی ہاؤس آگئے، میں ان دونوں دھڑوں کے اجلاسوں میں گاہے گاہے شریک ہوتا اور یوں دل و دماغ کیلئے دہری غذا حاصل کرتا اس طرح مجھے دہری توانائی حاصل ہوتی۔

وائی ایم سی اے ہال مکمل طور پر ان ترقی پسند ادیبوں اور کارکنوں کے ’’قبضہ قدرت‘‘ میں آ گیا۔ خالص ادبی گفتگو کیلئےمیں ٹی ہاؤس میں چلا آتا۔ یہاں صف اول کے ادیب، ادب کی شرح اپنے نقطہ نظر سے کرتے تھے اور بلند آہنگ بحث کیلئے وائی ایم سی اے بھی چلا جاتا، یہاں مجھے بحث سننے کا بہت مزا آتا تھا۔ بعض اوقات یہاں بحث نہیں، تقریریں ہوتی تھیں، بس انقلاب زندہ باد کے نعرے سنائی تو نہیں، دکھائی دیتے تھے۔ یہاں ایک کارکن جن کا اصل نام جانے کیا تھا وہ لڈو کے نام سے جانے جاتے تھے اور ان کی تقریر ’’جٹ دا کھڑاک‘‘ قسم کی ہوتی تھی ان دنوں وہ بیمار ہیں اللہ انہیں صحت کاملہ عطا کرے۔ فہیم جوزی بھی یہاں بہت ایکٹو تھے گزشتہ دنوں وہ انتقال کر گئے، اللہ اگلی منزل کا سفر ان کیلئے آسان کرے۔ بہر حال ٹی ہاؤس کے حلقہ کے لوگ اور ان کا نظریہ ادب میری سوچ کے بہت قریب تھا اور یہ وہ لوگ تھے جن کا ادب بھی عمر پانے والا تھا اور دوسرے حلقے کے ’’زعما‘‘ ادب میں اس حیثیت کے حامل نہیں تھے جو انہیں زندہ رکھتا تاہم ان کی سوچ پاکستا ن کے عوام کے دلوں کی دھڑکن تھی مگر وہ اپنے خیالات کا اظہار ادبی پیرائے میں نہیں ایسے سُروں میں کرتے تھے جیسے آج ہمارے ’’استاد چاہت علی خان‘‘ کے سُر ہیں۔

پھر ایک دن میری زندگی کا ایک ’’یادگار‘‘ واقعہ ہوا۔ یہاں میں یہ بتانا بھول چلا تھا کہ یار لوگوں نے ٹی ہاؤس والے حلقہ ارباب ذوق کو ادبی اور وائی ایم سی اے والے حلقے کو ’’سیاسی‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ ایک دن پتہ چلا کہ حلقہ ارباب ذوق سیاسی کا اجلاس یوم پاکستان کے حوالے سے ہو گا، یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور اس ہفتے میں نے اس اجلاس میں شرکت کی جس کی صدارت ایرک سپرین کر رہے تھے اور جو اس دور کے ترقی پسندوں کے امام تھے۔ اجلاس کے آخر میں صدر جلسہ ایرک سپرین نے اپنی تقریر میں جونہی وہ کلمات جو قیام پاکستان کی مخالفت میں محسوس ہوتے تھے، اس سے پہلے بھی کچھ مقرروں نے ایسی باتیں کی تھیں جو میری اس دور کی سوچ کے منافی تھیں، چنانچہ میرے اندر جو غصہ جمع ہو رہا تھا میں نے کھڑے ہو کر وہ غصہ پوری طرح نکالا اور اس کے ساتھ ہی باقاعدہ ’’جنگ و جدل‘‘ کا آغاز ہو گیا۔ اس دوران مجھے احساس ہوا کہ صرف میں ہی نہیں مستنصر حسین تارڑ اور بہت سے دوسرے اراکین بھی ایسی باتوں کو بہت مشکل سے برداشت کر رہے تھے چنانچہ میرے ساتھ مستنصر حسین تارڑ کے علاوہ دوسرے اراکین نے بھی جوابی نعرہ بازی شروع کر دی، حتیٰ کہ ایک دوسرے پر کرسیاں چلانے کی نوبت بھی آ گئی۔ میں نے بھی سبط الحسن ضیغم پر جوابی کارروائی کیلئے ایک کرسی اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ اٹھائی نہ جا سکی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس پر کوئی بیٹھا ہوا تھا۔ بہرحال اس جلسہ کا اختتام اس ’’مار دھاڑ‘‘ کے دوران ہو گیا۔ اگلے دن اخباروں میں سرخیاں لگیں حتیٰ کہ بی بی سی نے بھی اس حوالے سے خبر چلا دی۔ ان دنوں اس حلقہ کے سیکرٹری شہزاد احمد تھے اور انہوں نے اخبار میں ان خیالات سے برات کا اظہار کیا جو اس ’’جنگ و جدل‘‘ کا باعث بنے تھے۔

آخر میں واضح ہوکہ میں یہ کالم حسن جعفر زیدی کی مدح میں لکھنا چاہتا تھا کہ انہوں نے گزشتہ کچھ عرصے میں بہت بڑے بڑے کام کئے، انہوں نے تحریک پاکستان پر تیرہ جلدوں میں ایک اہم کتاب لکھی جو میرے نزدیک ایک جناتی کام تھا اور اس سے بھی جدا جو کام انہوں نے کیا وہ بھی جان جوکھوں کا تھا۔ انہوں نے حلقہ اربابِ ذوق وائی ایم سی اے کے مباحث مارچ 1973سے مارچ 1976تک قلمبند کئے اور یہ کتاب بھی عنقریب شائع ہو جائے گی اور ایک بات میں نے یہ کہنا تھی کہ میں آج بھی کٹر پاکستانی ہوں جتنا کل تھا، مگر اس دور میں کوئی ایسی بات سننے کا روا دار نہیں تھا جو میرے خیالات سے رتی بھر بھی مختلف ہو۔ مجھے سبق یہ ملا کہ ہر ایک کو اپنے خیالات کے اظہار کا مکمل استحقاق حاصل ہے۔ اب میں کسی کو اینٹی پاکستان نہیں سمجھتا مگر یہ سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے قلم اور زبان میں کڑواہٹ نہیں مٹھاس ہونی چاہیے۔ حسن جعفر زیدی نے بڑا کام کیا ہے اور وہ اس حوالے سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔

تازہ ترین