• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

آج ہمیں کیا ہوگیا؟

نہ جانے ہم لوگ سالِ نو کی آمد پر مبارک باد دیتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم تو اُمتِ مسلمہ سے وابستہ ہیں اور اللہ کا بڑا شُکر کہ اس نے ہمیں ایک مسلم قوم اوراُمتِ محمدیہؐ میں پیدا کیا۔ ہمارا سالِ نو جنوری سے نہیں، ماہ محرم سے آغاز ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال حکومتِ وقت کا ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی طرف سے ’’سُود‘‘ کے لیے کُھل کر وعید آئی ہے، اِس کے باوجود بڑے فخر سے میڈیا کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ مُلک میں شرحِ سود 2 فی صد کم ہوگئی ہے، یعنی اللہ سے کُھلم کھلا جنگ جاری ہے اور اِس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔

منہگائی، بھاری بھرکم یوٹیلیٹی بِلز، اَن گنت ٹیکسز اور نہ جانے کن کن گورکھ دھندوں میں ہمیں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ ارکانِ اسمبلی کی تن خواہوں میں اضافہ ناگزیر ہے اور عوام کو پیٹ پر پتّھر باندھنے کےمشورے دیئے جارہے ہیں۔ 

تُف ہے، اِن حُکم رانواں پر۔ اوہو!! یہ آج ہمیں کیا ہوگیا کہ میگزین کے ہائیڈ پارک سے کیسی آوازیں بلند کرنے بیٹھ گئے، حالاں کہ جریدے کی تو ابتدا ہی ’’شُکر‘‘ سے ہوئی تھی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں متنوّع موضوعات پر انتہائی جامع، عُمدہ نگارشات پڑھنے کو مل رہی ہیں۔

حافظ بلال بشیر نے قائد کو عہدساز شخصیت کے رُوپ میں خُوب پیش کیا۔ ترقی پسند ادب کا ستارہ، سعیدہ گزدر کی صُورت چمکا، تو ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ نے سال بھر کے آڈٹ کے عنوان سے جو مضمون لکھا، وہ سال کے چند بہترین مضامین میں سے ایک تھا۔ جب کہ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شریف الحسن عثمانی کی تحریر پڑھنے کے بعد بھی دل بہت خوش ہوا۔ (چاچا چھکن، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج: آج جو آپ کو ہوا ہے، وہ اکثر ذی حِس، ذی شعور، حسّاس طبع لوگوں کو ہوہی جاتا ہے، کچھ زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہے۔

شدید ترین خواہش

’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا دنیا بھر میں اسلحے کی ریکارڈ فروخت کا تذکرہ کر رہے تھے۔ بڑی طاقتیں اِسی لیے جنگیں کرواتی ہیں کہ اُن کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا پہیا چلتا رہے اور پھر کیا خُوب لطیفہ ہے کہ یہی طاقتیں امن کی دعوے دار بھی ہیں۔ 

ٹرمپ صاحب دعویٰ کر رہے تھے کہ مَیں چند دن میں ’’یوکرین، غزہ جنگ‘‘ بند کروادوں گا، لیکن اُن کی اسلحہ ساز کمپنیاں ہرگز ایسا نہیں ہونے دیں گی۔ کھوکھلے وعدوں، دعووں کا ہم سے زیادہ تجربہ کِسے ہوگا۔ روٹی، کپڑا، مکان سے لے کر پچاس لاکھ گھر، نوکریاں، سب ہی کچھ تو ہمیں مل چُکا۔ پی ٹی آئی کو بڑی اُمید ہے کہ گولڈ اسمتھ اور ٹرمپ کے نام زد مشیرِخاص کی رہائی کی اپیل کام کرجائے گی، لیکن پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کو ایسا ہلکا نہ لیں۔ 

امریکا آج تک شکیل آفریدی کو رِہا نہیں کرواسکا، تو بانی پی ٹی آئی نے تو اوپر سے نیچے تک سب کو خفا کررکھا ہے۔ ’’لازم ملزوم‘‘ میں ڈاکٹر قمرعباس نے طارق عزیز کی مختصر سوانح عُمری عُمدہ اندازمیں قلم بند کی۔ واقعتاً نیلام گھر کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پروگرام آن ائیر ہوتے ہی بازار سنسان ہو جایا کرتے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں فرّخ شہزاد نے بلوچستان کے تاریخی ریلوے اسٹیشنز کانوحہ ہی بیان کیا۔’’خُودنوشت‘‘ میں ذوالفقار چیمہ کی کہانی کا ہر ایک موڑدل چسپ، حیران کُن ہے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے نڈر، بےباک اور انتہائی معتبر سیاست دان، سابق امیرِ جماعت اسلامی، قاضی حسین احمد (اپنے عظیم والد) کو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا۔

بلاشبہ، اُنہوں نے عُمر بھر غلبۂ اسلام کےلیے بھرپور جدوجہد کی۔ ہماری شدید ترین خواہش تھی کہ سالِ رفتہ کی آخری اعزازی چٹھی ہمارے نام رہے اور صد شُکر کہ ایسا ہی ہوا۔ ہاں کئی خطوط نگاروں کی صرف اونگیاں بونگیاں ہی شائع کرتے رہنا، تحمّل و برداشت کا بڑا ثبوت نہیں، توکیا ہے۔ ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کے حرف آغاز میں ایڈیٹرصاحبہ نے حسبِ روایت گزشتہ برس کے واقعات کا تجزیہ بہترین انداز میں پیش کیا۔

گویا ایک صفحے پر پورے سال کی تاریخ رقم کرڈالی۔ ہماری دلی دُعا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ ادارے اور کارکنوں کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ ہم نے تو سنڈے میگزین سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اِن شااللہ آئندہ بھی سیکھتے رہیں گے۔ نعیم کھوکھر خونِ مسلم کی ارزانی اور دنیا کی بےحسی پر شکوہ کُناں تھے۔ طلعت عمران پاک افواج کی قربانیوں کا ذکر کررہے تھے۔ اویس یوسف زئی عدلیہ انقلاب کی کہانی لائے۔

محمّد بلال غوری، عمران خان کی منفی سیاست کے مُلک پر مضر اثرات سے متعلق فکرمند دکھائی دیئے۔ وہ جو ایک گیلپ سروے میں عوام کی اکثریت نے کہا کہ ہمیں کسی بھی لیڈر پر اعتماد نہیں، تو یہ آپس میں دست و گریباں سیاست دانوں کے لیے لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ ’’کلکس‘‘ میں سال2024 ء کے واقعات کی تصویری جھلکیاں بےمثال تھیں کہ شاید ہی کوئی اہم واقعہ مِس کیا گیا ہو۔

اعزاز سید کی پارلیمنٹ کی سالانہ کارکردگی پر رپورٹ مفصّل اورجامع رہی۔ صوبوں کے منظرناموں کا بھی جواب نہ تھا اور سال کی بہترین چٹھی کااعزاز شائستہ اظہر کو حاصل ہوا، تو سب سے زیادہ اعزازی چٹھیوں کی سند ہمیں مل گئی۔ نیز، ہمارے تجزیے اور مطالعے کی ستائش، حوصلہ افزائی کا بھی بہت شکریہ۔ (شہزادہ بشیراحمد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: وہ ایک شعر ہے ناں ؎ دل بھی کیا کیا خواہش کرتا رہتا ہے… جب دیکھو فرمائش کرتا رہتا ہے۔ تو چلیں، غیرارادی طور پر ہی سہی، آپ کی خواہش پوری ہو جانے کی ہمیں بھی خوشی ہے۔

دو دھاری تلوار کے مثل

اللہ کے فضل و کرم سے آس رکھتا ہوں کہ اہلِ بزم خوش وخرّم ہوں گے۔ سورج نامہ چمکا، تو ہمارا چہرہ دمکا اور اس دفعہ تو ہمارا ماتھا بالکل بھی نہیں ٹھنکا کہ سال نامے کے چوتھے شمارے، پیغامات کے دوسری قسط میں، ہمارا پیغام بھی شامل تھا۔ جلی حروف میں نمایاں پیغام پر نظر پڑی تو دل خوشی سے بھرگیا۔ حوصلہ افزائی کا شکریہ۔ سلطان محمّد فاتح نے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں اسوۂ رسولﷺ پر بہت ہی خُوب صُورت لکھا، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ہمیشہ کی طرح شان دار تجزیہ پیش کیا گیا۔

سچ کہا گیا کہ تین سال ہوگئے، طالبان حکومت کو اب کاہے کی اضطراری حالت۔ خلیلی صاحب نے بھی ’’سنڈے اسپیشل‘‘ کو واقعتاً اسپیشل بنا دیا۔ جذام کے عالمی یوم پر ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں بہت معلوماتی تحریر شامل کی گئی۔ ’’خُودنوشت‘‘ تو بخدا دو دھاری تلوار کے مثل ہے۔ کیا کیا نہ پڑھنے کو ملا، کیسے کیسے چہرے بےنقاب نہیں  ہوئے۔ ’’متفرق‘‘ سلسلہ بھی بہت عُمدہ ہے۔ ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش، نئی کتابیں اور آپ کا صفحہ سب ہی بصد شوق پڑھتے ہیں۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان، ڈاھا، لاہور)

اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے

دیکھیے، عوام کویہ لتّر اُٹھانے کا مشورہ نہ دیں۔ ہمارے مُلک میں سب ہی کچھ بُرا نہیں ہو رہا، بہت کچھ اچھا بھی ہے۔ 25 کروڑ عوام روٹی کھا ہی رہے ہیں، تو کیا یہ کوئی آسان بات ہے، مُلک کے حالات پہلے ہی خراب ہیں، اوپر سے آپ عوام کو بھی لتّر اُٹھانے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ 

امن اور شانتی کی بات کیا کریں، آپ کا تعلق کہیں محکمۂ پولیس سے تو نہیں۔ ہم تو عوام کو یہی مشورہ دیں گے کہ صبر و شُکر کرنا سیکھیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ ایک نہ ایک دن اچھا وقت آئے گا، نہ بھی آیا، تواب توہم ان حالات کے عادی ہو ہی چُکے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے، اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: عوام کو ’’صبر و شُکر‘‘ کا درس آپ دے رہے ہیں، جن کے مسلسل نالہ و فریاد، آہ و فغاں نے ’’ہائیڈ پارک‘‘ کے در ودیوار ہلا رکھے ہیں۔ چلیں، ماہِ صیام سے کچھ تو سیکھا آپ نے بھی۔

پسندیدہ عالمی یوم

اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ  ہدایت‘‘ کے صفحات موجود تھے، الحمدللہ۔ ’’ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا دَور‘‘ اللہ کرے، مسلم ممالک کے لیے اچھا ثابت ہو، ’’یومِ یک جہتیٔ کشمیر سے ورلڈ این جی اوزڈے تک‘‘ ان تمام عالمی ایام میں ہمیں تو سب سے زیادہ انتظار 13؍ فروری کا رہتا ہے، کیوں کہ اُس روز ہمارا پسندیدہ ’’ریڈیو ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ سچ بتاؤں، ریڈیو سُننے کا شوق مجھے بچپن ہی سے ہے اور ہر سال عالمی لِسنرز متحدہ تنظیم آف پاکستان بہت شان دار طریقے سے یہ دن مناتی ہے۔

اِس بار یہ شان دار تقریب ننکانہ صاحب میں منائی گئی، جس میں پاکستان بھر سے ایک سو پچاس لِسنرز اور آرجیز شریک ہوئے۔ مہمانوں میں  کینیڈا سے دیوندر سنگھ اور ان کی مسز، کینیڈا ہی سے شیخ محمد پرویز، سعودی عرب سے حاجی نعیم احمد، ’’لندن، یوکے 24 آور ریڈیو‘‘ کی سی ای او نینا شاہ نے بھی شرکت کی۔ وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے اپنے ’’انٹرویو‘‘ میں سرکاری محصولات میں اربوں روپے کے گھپلے کا ذکر کیا۔

کراچی کا کالا پُل 150 برس کا ہوگیا، پڑھ کے حیرت ہوئی۔ ہم بھی وہاں سے دسمبر 2024ء میں گزرے تھے۔ ’’یادداشتیں‘‘سلسلہ بہترین ہے۔ کراچی کی سڑکیں کھنڈر بن چُکی ہیں، پڑھ کے دل بہت دُکھی ہوتا ہے۔ جماعتِ اسلامی، بلوچستان کے امیر، رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کا انٹرویو بہترین تھا۔ 

آپ نواب زادہ بےکار ملک کو ہمیشہ ہی بہت کرارے جواب سے نوازتی ہیں، مگر وہ بھی اپنے نام کے ایک ہی ہیں۔ ضیاء الحق قائم خانی کو میرا خط گلشن میں گُل کی مانند مہکتا محسوس ہوتا ہے، تو یہ اُن کا حُسنِ نظر ہے اور بَزم کے راجا محمّد سلیم ایک ای میل کر کے پھر سے غائب ہوگئے ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نارد شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: آپ کی ریڈیو سے اِس قدر محبّت و انسیت کا اندازہ ہوتا، تو عالمی یوم کی مناسبت سے کوئی مضمون ہی لکھوا لیتے۔ چلیں خیر، بشرطِ زندگی اگلے سال ضرور لکھنے کی کوشش کیجیے گا۔

                                  فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو۔ طویل غیر حاضری کے بعد حاضرِ خدمت ہوں۔ 2024 ء کا بیش تر وقت مانٹریال، کینیڈا میں  گزرا۔ 2023ء میں یہ سوچ کر واپس آیا تھا کہ اپنی جنتِ ارضی میں باقی وقت گزاریں  گے، لیکن شومئی قسمت، قدم قدم پر دھوکا دہی، بد دیانتی، منافقت اور خُود غرضی نے دونوں بوڑھوں (مَیں اور اہلیہ) کو ایک سال بعد ہی اولاد کے پاس دیارِغیر جانے پر مجبور کر دیا۔ رمضان المبارک کی پُرنور ساعتوں کے سحر میں ڈوبا، چند ماہ کے لیے دوبارہ وطنِ عزیز حاضرہوگیا ہوں۔ 

انٹرنیٹ سے ناواقفیت کی بناء پر اخبارات اور میگزین سے کوئی رابطہ نہیں رہتا اور وہاں اولاد کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ آپ کو نیٹ سے لوڈ کر کے دیں۔ وِیک اینڈ پر پارک میں کچھ بھارتی دوستوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ اُن سے حالاتِ حاضرہ اور میگزین، خاص طور پر ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پر بات چیت بھی رہتی ہے۔ 

پاکستان آکر طویل عرصے بعد میگزین دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا، میگزین کا سرسری سا جائزہ لینے کے بعد میرا اور اہلیہ کا پہلا تاثر بہت خوش گوار تھا۔ وزن کم ہونے کے باوجود میگزین کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ وہی اسمارٹنِس، وہی چاشنی، دل کشی، بانکپن، تر و تازگی۔ میگزین ہاتھ میں لیا اور بےاختیار تمہارے اورتمہاری ٹیم کےلیے دل کی گہرائیوں سے خُوب خُوب دعائیں نکلیں۔ موجود گمبھیر اور سخت مشکل حالات میں تم لوگوں نے جو میگزین کی زینت و شادابی برقرار رکھی ہوئی ہے، وہ اَن تھک محنت اور خداداد صلاحیتوں کی مظہر ہے۔ 

ٹیم کے مستقل ارکان منور راجپوت، رؤف ظفر، منور مرزا، وحید زہیر، حافظ ثانی اور ہمایوں ظفر بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مجھ ناچیز کی دُعائیں تم لوگوں کے ساتھ ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ بھی مختلف موضوعات پر خُوب صُورت مضامین سے مزّین دیکھا۔ دو تین شمارے دیکھنے، پڑھنے کا موقع ملا، ماشاءاللہ خُوب سے خُوب تر تھے۔ محمود میاں نجمی کی کمی البتہ محسوس ہوئی۔ 

میرے مانٹریال پارک کے ایک بھارتی دوست نے مجھے بتایا تھا کہ مانٹریال کی ایک مسلم کمیونٹی لائبریری میں اُن کے سنڈے میگزین میں شائع شدہ مضامین کی ہارڈ کاپیز بھی موجود ہیں کہ مجھ جیسے انٹرنیٹ سے ناواقف بابے بھی وہاں بیٹھ کر استفادہ کر سکیں۔ 

پچھلے سال کینیڈا گیا تھا، تو شاید دنیا کی بدترین قوم یہودیوں کی اسلام دشمنی پر مبنی مضامین کا سلسلہ چل رہا تھا۔ اچھا بٹیا! اجازت چاہتا ہوں، جب تک یہ خط چَھپے گا، مَیں فرنگیوں کے دیس واپس جاچکا ہوں گا کہ جہاں امن بھی ہے اور سُکون بھی، مگر مساجد دُور ہیں۔ 

جمعے کی نماز کے لیے کبھی بہو کو آدھے دن کی چُھٹی کرنی پڑتی ہے، تو کبھی بیٹے کو۔ اپنے وطن کے لیے ہمیشہ دُعاگو رہتا ہوں کہ ان شاء اللہ وہ دن بھی آئے گا، جب یہاں قانون کی حُکم رانی ہوگی۔ کسی بچّی کے ساتھ زیادتی ہوگی، نہ کسی نوجوان کو زندہ جلایا جائے گا۔ نہ سرکاری محکموں میں رشوت ہوگی اور نہ اُمّت کی ماؤں، بیٹیوں کو اپنے حقوق کے لیے ’’عورت مارچ‘‘ کی ضرورت پڑے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اُس وقت تک ہم نہ ہوں، لیکن یہ خواب ہی اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی تعبیر و مقدّر ہے۔ میگزین کے تمام قارئین اور لکھاریوں کو اس پردیسی بابے کا سلام۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، مانٹریال ، کینیڈا)

ج: اللہ رب العزت آپ کو صحت و تن درستی کے ساتھ لمبی عُمرعطافرمائے۔ آپ ماشاءاللہ پروفیسر رہے ہیں، کسی سے بھی ایک بار لیپ ٹاپ یا موبائل پر ’’سنڈے میگزین‘‘ ڈاؤن لوڈ کرنا سیکھ لیں اور ہمیں یقین ہے، آپ سیکھ لیں گے کہ اِس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں، نسلوں کو تعلیم و تربیت دینے کی نسبت کہیں آسان کام ہے۔ اور پھر مانٹریال بیٹھے بھی جریدے سے منسلک رہیں۔ یوں بھی پردیس میں تو زیادہ فراغت ہوتی ہوگی، تو وقت بھی اچھا کٹ جائے گا۔

گوشہ برقی خطوط

* مجھے’’سنڈے میگزین‘‘ میں ’’تاریخ‘‘ شایع کروانی ہے، کیا کرنا ہوگا؟ (صدام حسین سومرو)

ج: کس کی تاریخ…؟؟ ای میل کرنے کی زحمت کر ہی لی تھی، تو کچھ وضاحت تو فرماتے۔

* مجھے ایک مختصر کہانی بھیجنی ہے، براہِ کرم ایڈریس کی تصدیق کر دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ تحریر ہاتھ سے لکھی ہوئی بھیجنی ہے یا ٹائپ کرکے؟ اگر ہاتھ سے لکھ کے، تصویر کھینچ کے بھیج دوں ، توکیا آپ وہ بھی شایع کر دیں گی؟ (محمد نعمان جاوید، محمدی روڈ، شیر شاہ کالونی، کراچی)

ج: ایڈریس کی کیا تصدیق کردیں؟ یہ جو ہرہفتے ’’آپ کاصفحہ‘‘ پرتحریریں بھیجنےکے لیے ایک پتا شایع کیا جا رہا ہے، کیا آپ کے خیال میں قارئین کے ساتھ مذاق ہورہا ہے۔ تحریر ای میل کرنا چاہتے ہیں تو کمپوزڈ فائل بھیجیں، بذریعہ ڈاک بھیج رہے ہیں، توہاتھ سے لکھ کے بھی بھیج سکتے ہیں، لیکن تحریر کی پکچر کھینچ کر ہرگز مت بھیجیں۔

* پورے میگزین میں ’’نئی کتابیں‘‘ کا صفحہ، میرا پسندیدہ ترین صفحہ ہے۔ میں ہرایک ری ویو بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھتی ہوں۔ (آسیہ شہباز ، اوکاڑہ)

* مَیں پہلی بار جنگ، سنڈے میگزین میں کچھ لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں۔ پلیز، آپ میری مدد کریں۔ مَیں دراصل ہر ہفتے ایک کالم یا کہانی لکھنے کی خواہش مند ہوں۔ (ماورا ایزا)

ج: ڈائریکٹ ہر ہفتے…؟؟ کُجاکہ کبھی کچھ لکھا ہی نہیں اور کہاں ایک ہی ای میل کے بعد ہر ہفتے؟ پہلے اپنی کوئی ایک آدھ مختصر تحریر بھیجیں، تاکہ اندازہ تو ہو کہ کتنے پانی میں ہیں۔

* کیا آپ میگزین میں اُردو مضمون یا اردو نظم لکھنے کے طریقۂ کارسے متعلق معلومات شیئر کرسکتی ہیں۔ بڑی مہربانی ہوگی۔ (علینہ ارشد)

ج: آپ دراصل کہنا کیا چاہتی ہیں، کیا آپ یہ واضح کرسکتی ہیں؟ بڑی مہربانی ہوگی۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk