لہو سے مٹی کی آبیاری ہمارا شغل و شعار ہوگا
تو یہ گلستاں، یہ سُنبلستاں کرشمۂ روزگار ہوگا
حسد سے تکتے ہیں تمتماتے ہوئے ستارے زمیں کی جانب
کبھی ہمارے مقابل آیا تو آسماں شرمسار ہوگا
حیات ہوگی، نشاط ہوگی ، ترنگ ہوگا، اُمنگ ہوگی
حضور ہوگا، سرور ہوگا، سکون ہوگا، قرار ہوگا
ہَوا کے رُخ سے گریز کرنا مسافروں کے لئے غلط ہے
جو مان لے گا وہ خوش رہے گا، جو ضد کرے گا، وہ خوار ہوگا
مقابلے کا، تبادلے کا اصول رائج ہے دوستی میں
ملے گا جو تحفۂ محبّت وہ قرض ہوگا، اُدھار ہوگا
شکم پُری کے لئے بھٹکنا پسند کرتا ہے کون دل سے
چمن میں دانہ نصیب ہوگا تو کیوں کوئی بے دیار ہوگا
سُنا تھا انور شعورؔ ہم نے اجل کا ہے ایک دن معیّن
کسے خبر تھی کہ زندگی میں یہ حادثہ بار بار ہوگا
’’خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بَنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا‘‘