• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میٹرک تک میں پی ایچ ڈی کو ایک ہی لفظ سمجھتا رہا، بعد میں پتا چلا کہ میں ٹھیک تھا۔ آج کل اتنے پی ایچ ڈیز ہوگئے ہیں کہ آن لائن ٹیکسی بھی منگوائیں تو ڈرائیور کوئی ’ڈاکٹر‘ ہوتاہے۔چند روز پہلے ایک افطاری پر پی ایچ ڈیز کے جم غفیر سے ملاقات ہوئی جہاں اُن کی پی ایچ ڈی بریفنگ سے بہرہ مند ہونے کا موقع ملا۔ایک لدی پھندی محترمہ نے اردو لٹریچر کے ایک موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہوئی تھی۔موضوع میں نہیں بتاؤں گا ورنہ مزید اصلیت کھل جائے گی۔ بہرحال یہ افسانے کے حوالے سے کوئی موضوع تھا۔ کچھ گفتگو کے بعد انہوں نے ایک بہیمانہ انکشاف کیا کہ اب انہوں نے افسانے بھی پڑھنے شروع کر دیے ہیں۔اس پر سائنس کے سبجیکٹ پر پی ایچ ڈی ہولڈر ایک ڈاکٹر صاحب نے اُنہیں داد دی اور کچھ اچھے افسانہ نگاروں کے نام شیئر کیے۔یہاں ایک زیرتعمیر پی ایچ ڈی سے بھی ملاقات ہوئی جوساون بھادوں کے بعدڈاکٹر بننے والے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ موضوع کی تلاش میں بہت مشکلات پیش آئیں۔پندرہ بیس موضوعات کی سلیکشن کے بعد بالآخر یونیورسٹی نے ان کا ایک منفرد موضوع منظور کرلیا اور اب وہ اُسی پر کام کر رہے ہیں۔حاضرین نے بڑے اشتیاق سے پوچھا کہ وہ منفرد موضوع کیا تھا؟۔ فخر سے بولے’علامہ اقبال کی افسانہ نگاری‘۔کچھ دیر موت کی سی خاموشی طاری رہی۔ پھر کسی طرف سے لرزتی ہوئی آواز آئی’علامہ اقبال نے افسانے کب لکھے؟‘۔چہک کر بولے’یہی تو منفرد موضوع ہے۔میرے قریب بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے جلدی سے پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک ہی گھونٹ میں غٹاغٹ پیتے ہوئے لمبی سانس لے کر بولے’موضوع تو منفرد ہوگیا لیکن اقبال کے افسانے کہاں سے لائیں گے؟‘۔انہوں نے لاجواب کردیا’اقبال کا ہر شعر ایک افسانہ ہے‘۔میں نے ان سے یونیورسٹی کا نام تو نہیں پوچھا لیکن میرا گمان ہے کہ اِ س کا حدوداربعہ کچے کے علاقے کا ہوگااور جس تیقن کے ساتھ قبلہ اپنے موضوع کا دفاع کر رہے تھے مجھے شدید خطرہ ہے کہ کسی دن سوشل میڈیا پر ان کی تصویر اِس کیپشن کے ساتھ دیکھنے کو ملے گی کہ ’الحمد للہ آج وائیوا بھی کلیئر ہوگیا‘۔پاکستان میں تین قسم کے ڈاکٹرز پائے جاتے ہیں۔میڈیکل ڈاکٹر، پی ایچ ڈی ڈاکٹراور ہومیوپیتھک ڈاکٹر۔ پہلی قسم والے ڈاکٹرز کو عام طور پر ’ٹیکے والے ڈاکٹر‘ کہا جاتاہے حالانکہ دوسری قسم کے ڈاکٹر وں میں بھی اکثر ٹیکے لگا کر آئے ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے ہومیوپیتھک ڈاکٹر ٹھیک ہیں۔ ہومیوپیتھک بندے کا بھلا کیا نقصان۔

آئے روز مجھے کسی نہ کسی اسٹوڈنٹ کا میسج آیا ہوتاہے کہ آپ کے کام پر ایم فل کا مقالہ لکھنا ہے،اِسی سے مجھے وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی تعلیمی گراوٹ کا اندازہ ہوجاتاہے۔تازہ ترین خوشخبری یہ ہے کہ بیشتر یونیورسٹیز اور کالجز میں بی ایس یا ایم فل کے مقالےکیلئے اتنی سی شرط ہے کہ مصنف کی عمر پچاس سال ہوچکی ہو اور وہ صاحب کتاب ہو۔حالانکہ ایک وقت تھا کہ اس کام کیلئے اکثر مصنف کا قبر میں ہونا ضروری ہوتا تھا، یہ بہت اچھی بات ہوتی تھی کیونکہ مقالہ نگار مصنف کے سر پر سوار ہونے کی بجائے اُس کے تخلیقی کام کی تلاش میں سرگرداں رہتاتھا لیکن اب پچاس سال اور ایک کتاب،سو اگر آپ نے ’مجرب وظائف‘ کتاب بھی لکھی ہے تو منتظر رہیں، کہیں نہ کہیں سے آپ کے حصے کا عقلمند آپ پر مقالہ لکھنے ضرور آئے گا۔اندھیر ہے، دیر نہیں۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کو میرا مشورہ ہے کہ پی ایچ ڈی کیلئے شرط عائد کردیں کہ مقالہ نگار کا میٹرک پاس ہونا ضروری ہے۔پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بندہ خودبخود صاحب کتاب ہوجاتاہے کیونکہ پھر مقالہ بھی تو کتابی شکل میں شائع کروانا ہوتاہے۔یہ کتابیں مصنف کو خود بھی دوبارہ پڑھنا نصیب نہیں ہوتیں لہٰذا تین چار سال بعد آپ صاحب کتاب سے اُسی کی کتاب میں سے کوئی بات پوچھ لیں تو نہایت دانشورانہ انداز میں فرماتے ہیں ’یہ بات میں نے کہیں پڑھی تھی لیکن کتاب کا نام یاد نہیں آرہا‘۔فی الوقت پی ایچ ڈی کا فائدہ صرف نوکری کی شکل میں ملتاہے لیکن وہ بھی شائد اب نہیں رہا۔ہاں البتہ نام کے ساتھ ڈاکٹر لگوانے کا قانونی جواز مل جاتاہے اور پھر ملنے جلنے والے جب اصل نام کی بجائے ’ڈاکٹر صاحب‘ کہہ کر بلاتے ہیں تو دل باغ باغ ہوجاتاہے۔کہاں ہیں یہ پی ایچ ڈیز؟ چند ایک کو چھوڑ کر اِن کی ریسرچ سے معاشرے کو کتنا فائدہ ہوا؟اِن کی لیاقت اِن کے علاوہ کس کیلئے علمیت کا باعث بنی؟۔ ذرا یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز سے بات کر کے دیکھیں، کئی ایسے ملیں گے جن سے بات کرکے اندازہ ہوگا کہ انہیں تو شائد کسی اسکول کا ہیڈ ماسٹر بھی نہیں ہونا چاہیے۔البتہ ان کی ڈریسنگ اچھی ہوتی ہے، ٹائی کی ناٹ درست لگانا جانتے ہیں، کچھ تمغے بھی حاصل کیے ہوتے ہیں اور دفتر میں وہ خوفناک طول و عرض والی ٹرافیاں بھی سجائی ہوتی ہیں جو یونیورسٹی کے طلباء جیت کے لائے ہوتے ہیں۔یہ روٹین کی گفتگو کے شیر ہوتے ہیں، جونہی ٹریک سے ہٹ کردلیل یا منطق پر مبنی کوئی بات شروع ہوتی ہے یہ کومے میں چلے جاتے ہیں۔لاہور کی ایک یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر آج بھی پورے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’اسامہ زندہ ہے‘۔ دلیل یہ دیتے ہیں کہ اگر وہ مرگیا ہے تو امریکہ اس کا ثبوت دے۔ایک دفعہ میں نے کہہ دیا کہ ’اگر وہ زندہ ہے تو آپ کیوں نہیں ثبوت دے دیتے؟‘ اس پر انہوں نے تمسخرانہ انداز میں یوں سرجھٹکا گویا مجھ سے اس قدر جاہلانہ سوال کی امید نہیں تھی۔یقین کریں کبھی کبھی بڑا دل کرتاہے کہ میں بھی پی ایچ ڈی کرلوں لیکن سمجھ نہیں آتی کہ جب مجھے مقالہ لکھنا ہوگا تو موضوع کیا رکھوں گا؟ ایک دوست نے مشورہ دیا ہے کہ تم اپنے مقالے کا موضوع رکھنا’آئن اسٹائن کی کالم نگاری‘۔شائد میرے دوست نے مذاق کیا ہو کیونکہ آئن اسٹائن تو کالم نگار نہیں تھا۔لیکن ممکن ہے یہ سچ بھی ہو۔دماغ پوری طرح پی ایچ ڈی کی طرح سوچنے لگا ہے، ماشاء اللہ!

تازہ ترین