• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1599ءمیں انکی وفات کے بعد پنجابی کے صوفی شاعر حضرت شاہ حسینؒ المعروف مادھو لعل حسین کا عرس پنجاب کے مسلم اور ہندو طویل عرصہ تک اکٹھے مناتے اور انکی یاد میں منعقدہ میلہ چراغاں میں اکٹھے شرکت کرتے رہے۔ 19ویں صدی میں سکھ بھی اس میں شریک ہونے لگے۔ حتی ٰ کہ پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ اس مسلمان روحانی ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بڑے ہی اہتمام سے شرکت کرتے۔ لاہور کے شاہی قلعہ سے مزار اور میلہ چراغاں کی طرف آتے ہوئے وہ راستے کی دونوں جانب پیسے پھینکتے آتے اور میلے میں رونما ہونے والی ہر مصروفیت میں بڑے انہماک اور عقیدت سے حصہ لیے تھے۔انگریز کے دور حکومت میں میلہ چراغاں شالا مار باغ کے اندر منعقد ہوتا رہا اور تمام مذاہب کے پنجابی اس میں شرکت کو سعادت سمجھتے رہے۔ حتیٰ کہ 1947میں بر صغیر تقسیم ہو گیا اور ہندو، سکھ اکثریت بارڈر پار ہجرت کر گئی۔ پاکستان میں جب پہلے فوجی ڈکٹیٹر ایوب نے حکومت سنبھالی تو اپنی دیگر اوچھی حرکتو ں کے علاوہ اس نے شاہ حسین ؒ جیسی عظیم ہستی کو بھی نہ بخشا اور میلہ چراغاں کو شالامار باغ سے دیس نکالا دے دیا۔ جوبعد میںہر سال سڑک کے کنارے اور مزار کے آس پاس منعقد ہوتا رہا۔ اس بار67برس بعد دوبارہ میلہ چراغاں بڑے اہتمام سے شالامار باغ کے اندر منعقد کیا گیا ہے۔ تاہم 200روپے فی کس ٹکٹ اس صورت حال کے پس منظر میں کچھ زیادہ معلوم ہوا کہ میلے میں کھانے پینے کی اور دیگر اشیا ء کی قیمتیں نارمل لیول سے بہت زیادہ تھیں۔ صرف کتابوں کے سٹال پر معمول سے زیادہ ڈسکاؤنٹ میسر تھا۔ جوکہ بہت ہی خوش آئند پہلو ہے۔ سہہ پہر 2بجے سے رات 10بجے تک میلے کےتمام دنوں میں باغ عوام سے پُر تھا۔ میلہ چراغاں پر ایسا نہیں ہو ا جو ’’پنجاب کلچرل ڈے‘‘ مناتے ہوئے الحمراء میں ہوا۔ پہلے روز الحمراء گیٹ پر سیکورٹی گارڈ اور پولیس بدتمیزی سے تمام عوام کو واپس بھیجتی رہی۔ کیونکہ وزیر اعلی ٰ کی آمد آمد تھی۔ دوسرے تیسرے روز بھی بہت سے لوگو ں کو الحمراء گیٹ سے واپس بھیجا گیا۔ عوامی نمائندو ں کو عوام سے دور رکھنے اور عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت بھرنے کے لیے سیکورٹی ایک اچھا بہانہ ہے!! بہرحال میلہ چراغاں پر شالا مار باغ میں لوگ جوق در جوق آتے رہے اور لطف اندوز ہوتے رہے۔ باغ کے تیسرے تخت کے اختتام پر موسیقی کا سٹیج سجا تھا۔ ہر روز مختلف گویوں نے شاہ حسین کی کافیاں اور ہیر وارث شاہ گاکر مسحور کیا۔ جبکہ دوسرے روز عارف لوہار نے جگنی عمدگی سے گائی۔ البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کر لینے کے باوجود ہم 77سال بعد غیر ملکی سامراج کی خوش آمد میں لکھی گئی ’’جگنی‘‘ آج بھی کیو ں گا رہے ہیں؟ تینوں تختوں پر راہداری کے دونوں اطراف کھانے پینے اور دیگر اشیاء کے اسٹال سجے تھے۔ اور تین دن مشاعرہ منعقد ہونے کی وجہ سے اس میلے کو چار چاند لگ گئے۔ باغ کے پہلے تخت کی ابتدا ء میں ’’گوشہء ادب‘‘ کے مقام پر پہلے دن پنجابی مشاعرے کے بعد شاہ حسینؒ کی شخصیت، شاعری اور نظریات پر بھر پور اجلاس ہوا۔ میں نے اس میں یہ تجویز رکھی کہ اس عظیم شخصیت کو خراج ِ عقیدت پیش کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انکے خوبصورت نظریات پر عمل کیا جائے۔ اپنی طریقت پر قائم رہتے ہوئے وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے تھے۔ اس لیے میری تجویز تھی کہ اگلے سال انڈیا سے ہندوؤں او رسکھوں کو میلہ چراغاں کے لیے مدعو کیا جائے تاکہ ماضی بعید کی مذہبی رواداری کی عظیم روایت زندہ کی جا سکے۔ اور بر صغیر میں مذہبی بنیادو ں پر لڑائی کروانے کے انگریزوں کے منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے۔ میری اس مثبت ترین تجویز کو حاضرین نے باقاعدہ نعرے لگا کر قبو لیت اور پذیرائی بخشی۔ اسی موقع پر شہنشاہ جلال الدین اکبرکی رواداری کا بھی ذکر ہوا۔ کہ اکبر کی یہ سوچ ہی متحدہ بر صغیر پر اسکی تقریبا ً آدھی صدی کی حکمرانی کی بنیاد بنی۔ یہ تذکرہ بھی ہوا کہ جبر کی موجودہ فضا سے چھٹکارے کا واحد راستہ بھی یہ اتفاق و یگانگت والی مثبت سوچ ہی ہے۔

شام کو واپسی کے وقت باغ کا صرف سائیڈ والا چھوٹا دروازہ کھولا گیا تھا جو مقامی آبادی میں کھلتا ہے۔ اسلئے ایسا گھڑ مس مچا مچا کہ دو منٹ کا پیدل راستہ دو گھنٹوں میں طے ہوا۔ حقیقتاً واپسی کیلئے جی ٹی روڈ پر واقع دونوں مین گیٹ کھولے جانے چاہئیں تھے۔ بروز اتوار اس چھوٹے دروازے کے سامنے باہر کھڑے ایک بے زرر سے نوجوان کا بغیر وجہ کے پولیس نے حسب ِ عادت مار مار کر بھرکس نکال دیا ۔وہ تو ہائی کورٹ کا ملازم تھا۔ پھر عام لوگوں کا کیا حشر کیا جاتا ہو گا؟ کوئی ہےجو لاہور پولیس اور اس کی ذیلی برانچ سی آئی اے کو لگام دے؟ مزید تجویز یہ ہے کہ شالا مار باغ Aکیٹگری کا قومی ورثہ ہونے کے ناطے اسے ہمیشہ کیلئے محفوظ کرنے کیلئے ماہرین کی ٹیم خصوصی اقدامات کرے۔ تاکہ میلہ چراغاں میں آنے والے ہزاروں افراد کے پاؤں اور جسموں کی رگڑ سے اس کی دیواریں، فرش، فوارے اور درخت محفوظ رہیں۔ اس دفعہ یہ انتظام نہ ہونے کیوجہ سے کافی شکست و ریخت ہوئی۔ بروز سوموار تیسر سے مشاعرے کی صدارت ننکانہ صاحب سے آئے پنجابی کے بہترین شاعر رائے محمد خان ناصر نے کی۔ تینوں دن پسند کیے گئے کلام کے نمائندہ اشعار یو ں تھے۔ تیسرا دن :

سُن او بھائیا تینوں دساں

وچھڑ جاناں دوری نَہِیوں

(رائے محمد خان ناصر )

دوسرا دن :

آٹا گُنھ کے بنایاں چڑیاں

اُڈیاں تے کاں پَے گئے

(انجم سلیمی)

پہلا دن:

جنگل دے وچ شہر اساڈا جا وڑیا

انساناں نوں بندے کھاون لگ پَے نیں

(محمد نوید نواز)

تازہ ترین