• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلگام میں چھبیس بے گناہ انسانوں کو جس بے دردی و سفاکی سے قتل کیا گیا ہے کوئی انسان اس سانحہ کی مذمت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ریاستی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں چیف منسٹر عمر عبداللہ کی تقریر کا ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا تھا۔ ”وزیر اعلیٰ اور وزیر سیاحت کی حیثیت سے میں ان کا میزبان اور وہ میرے مہمان تھے، ان کی محفوظ واپسی یقینی بنانا میری ذمہ داری تھی جو میں ادا نہیں کر سکا، میرے پاس معافی مانگنے کیلئے الفاظ نہیں، میں اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہوں، میں ان بچوں سے کیا کہہ سکتا ہوں جنہوں نے اپنے والد کو خون میں لت پت تڑپتے ہوئے مرتے دیکھا۔ میں اس بیوہ کو جس کی چندر وز قبل شادی ہوئی تھی، اس نے پوچھا کہ ہماری غلطی کیا تھی؟ میں اسے کیا جواب دوں؟‘‘۔ جن لوگوں نے یہ گھناؤنا فعل کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ انھوں نے یہ ہمارے لیے کیا ہے لیکن کیا ہم نے ان سے یہ مانگا تھا؟“۔‎ یہ تو تھے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی تقریر کے اقتباسات جبکہ ریاستی اسمبلی نے متفقہ طور پر مذمتی قرارداد منظور کی۔ وادی کی مساجد میں نمازِ جمعہ سے قبل مرنے والوں کیلئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی یہ عوامی دکھ جہاں مرنے والوں کے سوگ میں تھا وہیں ان کشمیریوں کی ہونے والی معاشی تباہی پر بھی تھا کیونکہ بڑی مدت کے بعد سرینگر سے لے کر وادی کے عام قصبوں اور دیہات تک ٹورسٹ آرہے تھے جس سے انکی روزی روٹی جڑی ہوئی تھی۔ بلاشبہ پورا بھارت غم و غصے میں ڈوبا ہوا ہے جسے نارمل کرنے کیلئے انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی نے شتابی میں کچھ ایسے اقدامات کیے جو غیر ضروری ہی نہیں نتائج کے لحاظ سے نقصان دہ ہیں۔ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے انہوں نے بغیر کسی مناسب پلاننگ کے اپنا سارا غصہ پاکستانیوں پر نکال دیا۔ تمام پاکستانیوں کے ویزے کینسل کر کے انہیں کہا کہ بلاتا خیر ہندوستان سے نکل جائیں۔ جو لوگ خطرناک بیماریوں کا علاج کروانے بھارت گئے ہوئے تھے ان کا کیا بنے گا؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی خاندان بٹ گئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ماں پاکستانی اور باپ انڈین ہے ثناء خاتون کی مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جسے اپنے خاوند 11سالہ بیٹی اور آٹھ سالہ بیٹے کے بغیر ہی پاکستان روانہ کر دیا گیا ہے یہ بچے اپنی نانی سے ملنے انڈیا گئے تھے۔ اسی طرح ایک پاکستانی نوجوان عمران اپنی بیوی بچوں کے ساتھ انڈیا گیا اور میڈیا پر بتا رہا تھا کہ میں اپنی بیٹیوں اور بیوی کے ساتھ آیا تھا لیکن اب میری بیوی شرمین کو پاکستان واپس جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ ان کا پاسپورٹ انڈین ہے۔ درویش کے اپنے بھتیجے سعد کی شادی ایک انڈین سے ہوئی ہے اور انکا ایک چھوٹا بیٹا زیان بھی ہے بیوی کا پاسپورٹ انڈین ہے اب وہ دونوں پاکستان یا انڈیا میں اکٹھے کیسے رہ سکیں گے؟؟ ‎دونوں ممالک کے سیاستدانوں کو انسانی دکھوں کے حوالے سے ضرور سوچنا چاہیے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سوچ سے اوپر اٹھ کر پونے دو ارب انسانوں کی بھلائی کا سوچنا چاہیے۔‎ اس وقت ہر دو ممالک میں جو خوفناک حالات بنے ہوئے ہیں ہر دوسرا بندہ پوچھ رہا ہے کہ کیا پاکستان اور انڈیا میں جنگ چھڑنے والی ہے؟ مشکل ہے عرِض حال، کہنے سے ہو ملال، ہم کیا جواب دیں؟ ‎ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف بھی بادشاہ آدمی ہیں جو میڈیا کے سامنے کبھی یہ کہتے ہیں کہ تین دن کے بعد جنگ شروع ہو جائے گی، کبھی کہتے ہیں ایک ہفتے یا چار دن بعد شروع ہو سکتی ہے، کیونکہ مودی بہت غصے میں ہے وہ ہم پر حملہ کر دے گا جس کا ہم پوری تیاری سے جواب دیں گے۔

‎درویش انڈین پرائم منسٹر مودی کو بھی یہ یاد دلانا چاہتا ہے کہ یہ آپ ہی کہا کرتے تھے کہ اے پاکستانی حکمرانو آؤ غریبی کے خلاف جنگ کریں۔ آپس میں لڑنے کی بجائے بھوک، ننگ، بیماری، جہالت اور دہشت گردی کے خلاف لڑیں۔ یہ آپ ہی کا دیا ہوا نعرہ تھا کہ ”یدھ نہیں بدھ“ یعنی ”جنگ نہیں شعور“ کو اپنی سیاست کا محور بنا لیں۔ لیکن آج آپ کبھی ہمارا بارڈر بند کر رہے ہیں ،کبھی ہمارا پانی بند کرنے کا بیان دے رہے ہیں اور کبھی اپنی فورسز کو جنگ لڑنے کی اتھارٹی دے رہے ہیں، ٹھیک ہے آپ کی طرف دہشت گردی ہوئی ہے آپ کے بے گناہ لوگ مرے ہیں جن پر پاکستان نے بھی اظہارِ افسوس کیا ہے اور یہ پیشکش بھی کی ہے کہ اس سانحہ کی انکوائری یا تفتیش کسی مشترکہ ضابطے کے تحت کروالی جائے۔ کوئی شک نہیں کہ اس وقت ٹیرر ازم دونوں ہمسایہ ممالک کا مشترکہ ایشو ہے پاکستان خود دہشت گردی سے کونسا بچا ہوا ہے۔ باہم جتنی بھی تلخیاں ہیں ان کا حل کسی یدھ یا جنگ سے تو نہیں نکل سکتا شعور یا سمجھداری سے حوصلے کے ساتھ مل بیٹھ کر ہی امن و سلامتی کی کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ پہلی جنگوں کے ذریعے کون سے ایشوز حل ہوئے ہیں جو اب ہو جائیں گے۔ ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا‎

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسل آدم کا خون ہے آخر‎

جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں

امن عالم کا خون ہے آخر‎

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی‎

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

تازہ ترین