• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور بھارت پر جنگ کے اُمنڈتے بادلوں کے باعث غیریقینی، عدم استحکام اور تشویش کی فضاچھا چکی ہے،دونوں ممالک کی افواج کی سرحد پر غیرمعمولی نقل و حرکت جاری ہے جبکہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں، بھارت نے اپنے جنگی بیانیہ کے راستے میں رکاوٹ بننے والےجیو نیوز سمیت متعددپاکستانی ٹی وی یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کردی ہے تاکہ بھارتی عوام کو پاکستان کے موقف سے جانکاری حاصل نہ ہوسکے، بھارتی میڈیا پر ایسا بیانیہ پروان چڑھایا جارہا ہے جس سے دوطرفہ کشیدگی کو حالات کی مجبوری بتاکر خطے کو جنگ کی ہولناکیوں کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔تازہ اطلاعات کے مطابق بھارتی پردھان منتری نریندرمودی نے اپنی افواج کوپاکستان کے خلاف جنگ شروع کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔میں نے ایسے نازک حالات میں ضروری سمجھا کہ دونوں ممالک میں بسنے والے امن پسند عوام کو براہ راست مخاطب کرکے امن کا سندیسہ دیا جائے، میں نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ویڈیو پیغام میںبھارتی قیادت پرجنگ سے دور رہنے پر زور دیا کیونکہ میری نظر میں جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، جنگ سے دونوں فریقوں کا نقصان ہوتا ہے، کسی کا تھوڑا نقصان ہوتا ہے توکسی کا زیادہ لیکن نقصان ضرور ہوتا ہے، بطور محب وطن پاکستانی میں نے واضح کیا کہ پاکستان کا ہر شہری ایل او سی کے پار پہلگام حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اور جان کی بازی ہارنے والوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتا ہے،معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والوں پر خدا کا قہر نازل ہوگا، وہ کبھی دھرتی کے مالک کے عذاب کی لپیٹ سے بچ نہیں سکیں گے۔ میں نےجنوبی ایشیا کی دو بڑی جوہری طاقتوں کے مابین جنگ کو ویڈیو گیم سمجھنے والوں کو خبردارکیاکہ پاکستان کا بچہ بچہ دفاعِ وطن کیلئے کوشاں بہادر افواجِ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے، آج اگر بھارت پاکستان پر حملہ آور ہوتا ہے تو لازمی بات ہے کہ پاکستان کے دوست ملک پاکستان کی حمایت میں آگے آئیں گے، اسی طرح بھارت اپنی سفارت کاری کے بل بوتے پر دیگر عالمی ممالک کو اپنی مدد کے لیے بلائے گا، میرا بھارت میں بسنے والوں سے سوال ہے کہ اگر آپ خدانخواستہ اپنے پڑوسی پر بم گراتے ہیں یا میزائل حملہ کرتے ہیں تو کیا وہ میزائل یا بم بارڈر دیکھے گا؟ ایسا بالکل نہیں ہوگا بلکہ حملے کے تباہ کُن اثرات آپ کے اپنے ملک پر بھی پڑیں گے بلکہ کسی بھی تیسرے فریق کی شمولیت تیسری عالمی جنگ کا آغاز ثابت ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ انگریز سامراج کی آمد سے قبل ہندوستان کا معاشرہ بنیادی طور پر برداشت، رواداری اور بھائی چارے پر مبنی تھا جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے ہنسی خوشی زندگی بسر کررہے تھے، انگریز 'تقسیم کرو اور حکومت کرو، کی نفرت انگیز پالیسی کے تحت دوسو سال راج کرنے کے بعد چلا گیا تو مسئلہ کشمیر کی صورت میں ایک ایسا ایشوچھوڑ گیا جو دونوں پڑوسی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتا۔ پہلی پاک بھارت جنگ بٹوارے کے فوراََ بعد 1948 -49میں چھڑ گئی جسکے بعد دونوں ممالک میں بسنے والی اقلیتوں کو ناجائز نشانہ بنایا جانے لگا، ایسے حالات میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان آگے بڑھے اور بھارتی پردھان منتری پنڈت جواہر لال نہرو سے1950ء میں دہلی معاہدہ کرلیا جو تاریخ میں لیاقت-نہرو معاہدے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین 1965ء جنگ کا نتیجہ تاشقندمعاہدے اور 1971ء جنگ کا نتیجہ شملہ معاہدے کی صورت میں سامنے آیا ، جب مئی 1998ء میں دونوں ممالک نے ایٹمی دھماکے کیے تو خطے میں ایک مرتبہ پھر جنگ کی باتیں شروع ہونے لگ گئیں، ایسے نازک حالات میں بھارتی پردھان منتری اٹل بہاری واجپائی بس میں سوار ہوکر پاکستان آئے اوردونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت نے لاہور اعلامیہ پر دستخط کرکے جوہری جنگ کے خطرے کو ٹال دیا۔ مجھے یاد ہے کہ واجپائی جی نے مینارِ پاکستان پرحاضری دیتے ہوئے اپنی نظم’’ ہم جنگ نہ ہونے دیں گے‘‘ پڑھی تھی ،جس نے خطے میں امن کی ایک نئی امید پیدا کردی تھی۔ آج 26 سال بعد پہلگام حملے کی آڑ میں ایک مرتبہ پھر پاکستان پر حملے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں، ماضی میں طے پانے والے معاہدوں کو ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، میرا پڑوسی ملک کی جنتا سے سوال ہے کہ کیا ہم خداکی دھرتی کو خون سے لہولہان کرنے کے بعد ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ایک نیا امن معاہدہ کریں گے؟ کیوں نہیں ہم اس مرتبہ جنگ سے پہلے ہی ایک ایسا نیا امن معاہدہ کرلیتے ہیں جو ماضی کے معاہدوں کو مضبوط کرتے ہوئے دہشت گردی کوشکست فاش دینے کیلئے دوطرفہ تعاون کا باعث بنے، میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کے پردھان منتری نریندرمودی اور وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے مابین مجوزہ امن معاہدہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر علاقائی تنازعات کے دیرپا حل کیلئے ایک فریم ورک فراہم کرسکتا ہے،یہ امن معاہدہ پاکستان اور بھارت میں بسنے والوں کو اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی میدان میں ایک دوسرے کو قریب لانے کا بھی باعث بنے گا، تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے امن پسند لوگ آگے آئیں،خطے میں قیامِ امن کیلئے آواز بلند کریں اور اپنی قیادت پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ جنگی تصادم کا ارادہ ترک کرکے مذاکرات کی میز پر اپنے تنازعات کا حل تلاش کریں۔ اگر آج سے 26 سال قبل سخت سرحدی کشیدگی اور جوہری تناؤکے باوجود پردھان منتری اٹل بہاری واجپائی لاہور آسکتے ہیں تو نریندرمودی کیوں نہیں امن کا ہاتھ آگے بڑھاتے؟آج سخت سرحدی کشیدگی کے ماحول میں کرتار پور کوریڈورمیں دونوں ممالک کے یاتریوں کی آزادانہ چہل پہل دوطرفہ امن کیلئے امید کی ایک کرن ہے، میری خواہش ہے کہ نریندر مودی جنگ کا ارادہ ترک کرکے کرتار پور کا دورہ کریں جہاں انکے پاکستانی ہم منصب میاں شہباز شریف استقبال کیلئے موجود ہوں،میری نظر میں مودی- شریف امن معاہدہ پر دستخط کیلئے کرتارپور کوریڈور سے بہتر اور کوئی مقام نہیں۔

تازہ ترین