برطانیہ الیکشن میں ریفارم یو کے نے 677 کونسل کی نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی، حکمران لیبر پارٹی فقط 99 سیٹ جیت سکی۔
برطانوی الیکشن میں نائجل فاریج کی دائیں بازو کی جماعت ریفارم یو کے نے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں 23 کونسلوں میں 677 نشستوں کے ساتھ شاندار کامیابیوں کو اپنے نام کر لیا جبکہ مرکز میں حکمران جماعت لیبر پارٹی صرف 99 سیٹیں جیت سکی، ضمنی انتخابات اور میئر کی جیت کے بعد ریفارم یو کے نے کئی کونسلوں کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا ہے۔
نتائج کے مطابق دائیں بازو کی ریفارم یو کے نے 23 کونسلوں میں 677، لبرل ڈیموکریٹس نے 370، کنزرویٹو پارٹی نے 317، حکمران لیبر پارٹی نے 99، آزاد بھی 89 اور گرین پارٹی 80 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکی۔
تفصیلات کے مطابق نائجل فاریج کی ریفارم یو کے نے برطانوی بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اسے برطانیہ کی روایتی مرکزی جماعتوں کے لیے ایک اہم چیلنجر کے طور پر ثابت کیا ہے۔ اس جماعت نے جمعرات کو تقریباً 1600 نشستوں میں سے 677 پر کامیابی حاصل کی جس میں بنیادی طور پر ٹوری کے زیرِ انتظام کونسلوں کے کلچ میں آخری بار 2021ء میں مقابلہ ہوا تھا۔
لوٹن جہاں پر لیبر ہولڈ کونسل ہے اسی طرح کئی دیگر کونسلوں کے انتخابات میں دو سال کا عرصہ باقی ہے تاہم یہ الیکشن کیئر اسٹارمر کی وزارت عظمیٰ کے دوران پہلی بار منعقد ہوئے، جن میں ریفارم یو کے نے کنزرویٹو سے آٹھ حکام کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جن میں سابق گڑھ کینٹ اور اسٹافورڈ شائر شامل ہیں، پارٹی نے ڈونکاسٹر پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جس کا صرف کونسل لیبر دفاع کر رہی تھی اور ڈرہم، جہاں لیبر پہلے سب سے بڑی پارٹی تھی۔
ریفارم یو کے نے رن کارن اور ہیلسبی میں لیبر کو بھی فارغ کر دیا ہے، جہاں اس نے سارہ پوچن کو اپنی پانچویں رکن پارلیمنٹ بنانے کے لیے سخت مقابلہ کے بعد ویسٹ منسٹر کے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی، یہ نتائج واضح کرتے ہیں کہ نسلی اقلیتوں کے لیے آئندہ ممکنہ طور پر مشکل وقت ہوگا۔
پاکستانی کشمیری اوریجن لارڈ قربان حسین ستارہ نے جنگ لندن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ٹرینڈ پریشان کن ہے اور مین اسٹریم پارٹیوں کو عوامی رجحانات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور پبلک کو یہ ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ ریفارم یو کے کی کامیابی کے کیا نقصانات مرتب ہوں گے۔
ادھر دائیں بازو کی ریفارم یو کے کے لیڈر نائجل فاریج کا کہنا ہے کہ آج دو پارٹی سیاست کے خاتمے کا نشان ہے۔
الیکشن کا جائزہ بتاتا ہے کہ نائجل فاریج کا یہ بیان حقائق کے قریب تر ہے اور برطانیہ کی مین اسٹریم قومی جماعتوں کی مایوس کن پرفارمنس اور دائیں بازو کی ریفارم یو کے کی شاندار کامیابی برطانیہ کی نسلی اقلیتوں پر مختلف شعبوں میں منفی اثرات مرتب کرنے کے قوی خدشات ہیں، آئندہ آنے والا وقت اقلیتوں کے لیے مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، کئی لوگوں کو خدشات ہیں کہ برطانیہ کے اندر امیگریشن کے حوالے مزید سخت قوانین بن سکتے ہیں، نسلی اقلیتوں کے لیے یہ سیاسی بصیرت اور اجتماعی طور پر اقدامات کرنے کا بھی وقت محسوس ہوتا ہے، اس متعلق برطانیہ کی تینوں بڑی جماعتوں لیبر، کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹس کی لیڈر شپ پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صورتِ حال کا فوری ادراک کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کے اقدامات اٹھائیں اور خود نائجل فاریج کو چاہیے کہ وہ نسلی اقلیتوں کو تحفظ کا یقین دلائیں کہ ایسی کوئی صورتِ حال پیدا نہیں ہوگی اور خود نسلی اقلیتوں کو بھی چاہیے کہ وہ سب مل کر دائیں بازو کے سیاسی خطرات کو بھانپ کر مین اسٹریم پارٹیز کے اندر منظم ہوں اور ایسے نمائندے ان جماعتوں میں بھیجے جائیں جو حقیقی معنوں میں برطانیہ کے معاملات سے آگاہی رکھتے ہوں۔
ادھر یو کے کی شاندار کامیابیوں کے بعد نائجل فاریج فاریج کا کہنا ہے کہ یہ کنزرویٹو پارٹی کے خاتمے کا آغاز ہے۔
وزیرِ اعظم سر کیئر اسٹارمر نے مایوس کن نتائج کو تسلیم کر لیا ہے جبکہ کنزرویٹو پارٹی لیڈر بیڈینوک کا کہنا ہے کہ یہ ہمیشہ انتخابات کا ایک بہت مشکل سیٹ ہوگا۔
ریفارم یو کے کے رہنما نائجل فاریج نے زور دے کر کہا ہے کہ حالیہ انتخابات کنزرویٹو پارٹی کے لیے ’اختتام کی شروعات‘ کی علامت ہیں۔
کاؤنٹی ڈیورہم، کانسٹ میں ایک ریلی کے دوران نائجل فاریج نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ 1832ء کے عظیم اصلاحاتی ایکٹ کے بعد سے کنزرویٹو پارٹی کی دیرینہ تاریخ کے باوجود، انہیں کلیدی علاقوں، خاص طور پر انگلینڈ کے شائرز اور ویسٹ مڈلینڈز اور جنوبی انگلینڈ جیسے علاقوں میں اہم انتخابی دھچکے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پارٹی کے زوال نے انہیں ان بنیادی علاقوں میں عملی طور پر ناپید کر دیا ہے، جو کبھی رکنیت اور فنڈ ریزنگ کے لیے ان کا گڑھ ہوا کرتے تھے۔
فاریج نے کہا کہ کنزرویٹو پارٹی اب ریفارم یو کے کی انتخابی عملداری میں رکاوٹ کے طور پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے ڈونکاسٹر اور نارتھ ٹائن سائیڈ میں میئر کے انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک وسیع تر رجحان کی نشاندہی کی اور وضاحت کی کہ کنزرویٹو کو ووٹ دینے سے ریفارم یو کے کے لیبر کے غلبے کو چیلنج کرنے کے امکان کو مؤثر طریقے سے کم کر دیا جاتا ہے۔