• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ٹرمپ کی ٹیرف جنگ کے پس پردہ امریکہ کا وہ تجارتی خسارہ ہے جس نے نہ صرف اسکے بیرونی قرضوں کو تشویش ناک حد تک بڑھادیا ہے بلکہ عالمی مالیاتی نظام پر بھی اسکے تسلط کو کمزور کر دیا ہے ۔صدر ٹرمپ نے اس خسارے کو کم کرنے کیلئے گرین لینڈ اور پانامہ پر قبضہ، یوکرین کے معدنیاتی ذخائر پر نظر اور کینیڈا کو اپنی 51 ویںریاست بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔یاد رہے کہ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد امریکہ نے نئے سرے سے عالمی معیشت پر اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے ایسے ادارے بنائے جن میں آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل ٹریڈ تنظیم شامل تھے۔اسکے مقابلے میں سویت یونین نے اسٹالن کی موت کے بعد1953ءسے اقوام متحدہ کے تعاون سے تیسری دنیا کیلئے ایک متبادل بین الاقوامی اقتصادی نظام وضع کرنے کی کوشش کی۔یوں سرد جنگ میں تیزی توآئی لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اینگلو امریکن معاشی نظام کا تسلط قائم ہو گیا۔اس کے مقابلہ میں چین نے سوویت یونین کے خاتمے سے بہت سے اسباق حاصل کیے اور اپنی معاشی ترقی کو مسلسل آگے بڑھاتا رہا۔یوں چین کی جی ڈی پی 2016ء میں امریکہ کے برابر ہوگئی تھی۔لیکن ٹرمپ کی حالیہ پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ نہ صرف آہستہ آہستہ اکیلا ہوتا چلا جا رہاہے بلکہ ایک بڑی غلطی یہ بھی کر رہا ہے کہ وہ چین کو سوویت یونین کی طرح مٹا نا چاہتا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ چین کی پالیسیاں کمیونسٹ پارٹی کی وجہ سے مارکسزم اور لینن ازم کے نظریات پر محیط ہیں لیکن دراصل چین کی کمیونسٹ پارٹی (CCP)کو چین میں مارکسزم -لینن ازم کی بجائے چینی تہذیب کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔دوسری طرف چین کوبھی چاہئے کہ وہ امریکہ کو ایک آسان ہدف نہ سمجھے کیونکہ امریکہ بھی 1861سے 1865کی سول جنگ کی ابتری کے باوجود عالمی سطح پر زیادہ طاقت سے نمودار ہوا۔اسی طرح 2008ء کے عالمی اقتصادی بحران سے بھی امریکہ صرف دس سال کے عرصے میں پوری آب و تاب سے دوبارہ میدان میں آگیا۔اسی طرح بقول پروفیسر وانگ، دنیا کی بہت ساری تہذیبیں زوال پذیر ہوکر فنا ہو گئیں لیکن چین وہ واحد تہذیب ہے جو چار دفعہ زوال پذیر ہو کر بھی ابھری ہے جسکی اصل وجہ اسکا اپنی تہذیبی وراثت پر مکمل اعتماد ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ دونوں ملک ،مستقبل قریب میں آپس میں عالمی تسلط کی جنگ کے باوجود تنزل پذیر ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دور کی کوتاہیوں پربھی امریکی جمہوری ادارے اور اسکا عدالتی نظام جلد یا بدیر قابو پالے گا کیونکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ امریکی اداروں کی روایات اور قانون کی حکمرانی ،حکومت وقت سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہیں۔امریکہ کے ان مشکلات سے نکلنے کی اصل وجہ اسکے جمہوری ادارے ہیں جن کی آبیاری میں امریکی سماج نے نہ صرف ڈھائی سو سال لگائے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ہر فرد کو انفرادی شعور سے بھی مزین کیاجبکہ چینی معاشرہ اسکا بالکل الٹ ہے، وہاں تہذیبی اقدار ، انفرادی شعور پر فوقیت حاصل کر لیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے دنیا بھر میں نہ صرف سب سے زیادہ انفرادی شعور رکھنے والی شخصیات کو پیدا کیا بلکہ دنیا بھر کے انفرادی ٹیلنٹ کو بھی اپنے سماج میں مکمل طور پر جذب کر لیا۔ اسکی مثال امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ۔ای۔اوز ہیں جو زیادہ تر کسی اور ملک کے پیدائشی ہیں ۔ اسکے برعکس بڑی چینی کمپنیوں کا سربراہ چینیوں کے علاوہ کوئی اور نہیں بن سکتا۔تاریخ دانوں نے جگہ جگہ لکھا ہے کہ وہی سماج تاریخی طور پر ترقی کرتے ہیں جہاں متنوع خیالات کی آبیاری ہوتی ہے۔ آج امریکی یونیورسٹیاں ان خیالات کی آماج گاہ بنی ہوئی ہیں جسکی وجہ سے دنیا کا ہر فرد وہاں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے ۔دوسری طرف چین نے اپنے تہذیبی ارتقاء کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں مغربی ممالک سے معیشت ، سیاست ، سائنس اور ٹیکنالوجی حاصل کرکے وہ مقام حاصل کر لیا ہے جسکی وجہ سے اب یورپ اور امریکہ کیلئے ممکن نہیں رہا کہ وہ چین کی ترقی کو روک سکیں۔امریکی ماہرین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ چین زیادہ جدت نہیں لا سکتا اور اس نے ہمیں دھوکہ دیا، ہماری نقل کی اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کیلئے دباؤ ڈالا۔لیکن جب امریکہ نے 2019ء میں قومی سلامتی کے خدشات کی بنیاد پر چینی کمپنی "ہواوے "پر امریکی ٹیکنالوجی اور خاص طور پر سیمی کنڈکٹرز کے حصول پر سخت قدغن لگا دی ۔ صرف تین سال کے عرصے میں چین نےایک ایساتحقیقاتی کیمپس تعمیر کیاجہاں 35000سائنسدانوں، انجینئرز اوردیگر ماہرین کیلئے جدید ترین لیبارٹریز موجود ہیں۔

یاد رہے کہ قوموں کی تنزلی ایک تاریخی حقیقت ہے ۔ اس لیے آج امریکہ اور چین کو چاہیے کہ وہ عالمی اقتصادی غلبے اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی بجائے ایک ایسے نئے عالمی نظام کی بنیاد ڈالیںجس میںنہ صرف تیسری دنیا اور ساؤتھ کے ممالک مکمل حصہ دار ہوں بلکہ اس نئے سماجی و ماحولیاتی کثیر ملکی نظام کی باگ ڈور اقوام متحدہ کے سپرد کی جائے اور دنیا کے تمام ممالک کو یہ حق حاصل ہوکہ وہ آپس میں بارٹر سسٹم کے تحت مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دے سکیں۔ اگر ایسانہ کیا گیا اور ٹرمپ اپنی حکمت عملی پر قائم رہا اور یورپ نے بھی اسکا پورا پورا ساتھ دیا جیسا کہ 1945کے بعد دیا تھا تو پھر برکس کوچین اور روس کی قیادت میں ایک متوازی عالمی نظام قائم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور دنیا پھر سے ایک نئی سرد جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی۔

تازہ ترین