مودی سرکار جو آر ایس ایس کے فلسفے ہندو توا پر پوری طرح کاربند ہے، اُس نے منگل کی شب لائن آف کنٹرول اور اِنٹرنیشنل باؤنڈری پر چھ مقامات سے پاکستان کے شہریوں پر میزائل داغے جسکے باعث 26سویلین شہید اور 46 شدید زخمی ہوئے۔ اِس کیلئے پہلے سے ماحول تیار کیا گیا تھا۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی نے کسی ثبوت کے بغیر پاکستان پر الزام لگایا کہ وہاں سے کچھ دہشت گرد 200 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے سیاحتی مقام پہلگام تک پہنچے اور اُنہوں نے سیاحوں کے شناختی کارڈ چیک کیے۔ اُن میں 26 ہندو تھے جو موت کے گھاٹ اتار دِیے گئے۔ سب سے پہلے پاکستان نے اِس دہشت گردی کی مذمت کی اور وَزیرِاعظم شہبازشریف نے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی سطح پر غیرجانب دارانہ تحقیقات کرائی جائے جس میں پاکستان پورا تعاون کرے گا۔ اِس کھلی اور معقول پیشکش کا بھارتی حکمرانوں کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا، البتہ میڈیا پر پاکستان کے خلاف زہر اُگلنے اور اِشتعال پھیلانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اِس کے علاوہ مودی سرکار کی طرف سے چند ایسے عملی اقدامات بھی اٹھائے گئے جن پر پوری دنیا حیران رہ گئی کیونکہ وہ بین الاقوامی قوانین، اخلاقی روایات اور دَو طرفہ تعلقات کے آداب کے صریحاً منافی تھے۔ عالمی برادری نے پاکستان کے خلاف بھارتی حکومت کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اِس پر زور دِیا کہ وہ تحمل اور بردباری سے کام لے اور گفت و شنید کے ذریعے اختلافی معاملات طے کرنے پر پوری توجہ دے۔
مودی سرکار کو اِس بات سے شدید پریشانی لاحق ہوئی کہ بھارت عالمی برادری میں تنہا رہ گیا ہے جبکہ پاکستانی موقف کا ساتھ دینے والے میدانِ عمل میں اتر آئے ہیں۔ چین کی طرف سے واشگاف الفاظ میں اعلان ہوا کہ اگر بھارت نے مہم جوئی کی، تو جنگ چین اور بھارت کے مابین لڑی جائے گی۔ اُس نے جدید جنگی طیارے بھی پاکستان کے حوالے کر دیے جبکہ ترکی اپنا بحری بیڑا کراچی کی بندرگاہ میں لے آیا۔ جنگی جنون میں مبتلا مودی سرکار نے اپنی خفت مٹانے کے لیے پاکستان کے اندر چھ مقامات پر میزائل داغ دیے۔ اِس جارحیت کے جواب میں پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے اور تین ڈرونز مار گرائے۔ اُن میں تین رافیل طیارے بھی شامل تھے جو بھارت نے پاکستان کی فضائیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے فرانس سے خاص طور پر خریدے تھے۔ فی الوقت بھارتی وزیرِاعظم اور اُن کے منصوبہ سازوں کو سفارتی اور فوجی سطح پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اِس بگڑتی ہوئی صورتِ حال نے بھارتی اربابِ اختیار میں انتقام کا جذبہ مزید تیز کر دیا ہے اور اِس امر کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ کہیں فوجی تصادم کا دائرہ مزید وسیع نہ ہو جائے۔ دو اَیٹمی طاقتوں کا ٹکراؤ برِصغیر کے علاوہ پورے خِطے اور عالمی امن کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، اِس بنا پر عالمی طاقتوں پر یہ ذمےداری عائد ہوتی ہے کہ وہ محض بیانات اور تحمل کا درس دیتے رہنے کے بجائے بھارت کی قیادت پر یہ واضح کریں کہ جنگ کی آگ بھڑکانے کا اُسے بہت زیادہ خمیازہ بھگتنا ہو گا۔ فوری طور پر سیکورٹی کونسل میں یہ مسئلہ اٹھایا جائے کہ کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم یا معطل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اِس اعلیٰ ادارے میں پاکستان کے خلاف بھارت کے میزائل حملوں کا سنگین معاملہ بھی اٹھایا جائے۔ پاکستان کی دانش مند قیادت نے، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا دروازہ اِن پیچیدہ معاملات پر غوروخوض کے لیے کھٹکھٹایا ہے، چنانچہ اُمید کی جاتی ہے کہ سلامتی کونسل کے معزز ارکان ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کو روکنے میں بھرپور کردار اَدا کریں گے۔
گزشتہ دنوں سلامتی کونسل کے پندرہ اَرکان کا بند کمرے میں پاک بھارت کشیدگی کی روک تھام کے لیے اجلاس ہوا تھا۔ مستند اطلاعات کے مطابق اُس اجلاس میں بھارتی قیادت کے غیرذمےدارانہ رویے پر کڑی تنقید ہوئی اور یہ حقیقت اُبھر کر سامنے آئی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل تنازع مسئلۂ کشمیر ہے۔ اراکین کی طرف سے اِس امر پر زور دِیا گیا کہ یہ مسئلہ جلد سے جلد سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ اِس طرح بھارتی قیادت کی خوئےشر سے پاکستان کیلئے خیر کا خوشگوار پہلو نکل آیا ہے۔ اگر پاکستان سفارتی سطح پر پوری طرح سرگرم ہو جائے، تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جانے کی سبیل نکل سکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئےکار لانا اور مغربی اقوام کے ذہنوں میں یہ احساس اجاگر کرنا ہو گا کہ کشمیریوں کے ساتھ بہت ظلم ہوتا آیا ہے اور بڑی طاقتوں کی عدم دلچسپی کے باعث بھارت کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مضبوط کرنے میں کامیاب ہوا۔ بڑی طاقتوں کا جمود توڑنے اور اُنہیں فعال کرنے کیلئے اُن کے تھنک ٹینکس کے ساتھ رابطے مستحکم کرنا ہوں گے جن کی سفارشات پر پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں۔
بھارت میں ہندو توا کی جو دہشت پروان چڑھ رہی ہے، اُس کی روک تھام بھی ضروری ہے۔ ہندو توا پر یقین رکھنے والے انتہاپسند عناصر نے اپنے رویوں اور عاقبت نااندیشیوں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے ناگزیر تھا جس کیلئے تاریخ ساز سیاسی اور آئینی جدوجہد حضرت قائدِاعظم نے بڑی حکمت، دانائی اور غیرمعمولی استقامت سے برپا کی تھی۔ اِس عظیم الشان اور پُرامن تحریک کی روح پرور تفصیلات کا احوال آل انڈیا مسلم لیگ کے ترجمان، مجلے ’’منشور‘‘ کے ایڈیٹر سیّد حسن ریاض نے پوری صراحت سے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘ میں بیان کی ہیں۔ آج کے حالات میں پاکستان کا وجود پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔
ہم اِس وقت جس داخلی کیفیت سے دوچار ہیں، اِس کا سراغ مجھے اُس وقت ملا جب شب کے پچھلے پہر فریدہ خانم غزل سرا تھیں۔ اُس غزل کے دو شعر مجھے سوچنے کا بہت سامان فراہم کر گئے اور یوں لگا جیسے میرے تحت الشعور کے اندر وُہ اشعار دِھیرے دھیرے اترے جا رہے ہوں ؎
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
دلوں کی رنجشیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
معزز قارئین! گزشتہ کالم میں فرانسیسی فلاسفر سارتر کا نام غلط چھپ گیا ہے، معذرت قبول کیجئے۔