• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پر بھارتی جارحیت نے جہاں دیگر بہت سے موضوعات کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کا کنونشن بھی ایک ایسا مثبت اقدام ہے جس پر بہت کم بات ہوئی ہے۔ اس کالم کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل کے حل سے متعلق پہلے بھی حکومت کی توجہ مبذول کرواتا رہا ہوں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ 90لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم پاکستانی ناصرف اپنی ترسیلات زر کے ذریعے قومی ترقی میں نمایاں حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ بیرون ملک ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پاکستان کی مثبت شناخت کو اجاگر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں ہونے والے اس کنونشن میں امریکہ، کینیڈا، یورپ، برطانیہ، سعودی عرب اور یو اے ای سمیت 80سے زائد ممالک میں مقیم 1200سے زائد ممتاز اوورسیز پاکستانی شریک ہوئے۔ ان میں بیرون ملک کاروبار کرنے والی معروف کاروباری شخصیات، ڈاکٹرز، انجینئرز اور مختلف ممالک کے منتخب پاکستانی نژاد پارلیمنٹرینز شامل تھے۔ تین روز تک جاری رہنے والے اس کنونشن کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی وزراء کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک ہوئے اور ان کی تقریر کو شرکاء کی جانب سے جو پذیرائی ملی وہ اپنی مثال آپ تھی۔

اس کنونشن میں حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو درپیش بعض دیرینہ مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک کثیر جہتی اصلاحاتی پیکیج متعارف کرایا۔ اس میں اوورسیز کو اندرون و بیرون ملک تنازعات و مسائل کے حل کیلئے قانونی مدد، روزگار کی سہولت، تعلیم اور مالیاتی اصلاحات کیلئے اقدامات بھی شامل ہیں۔ اس پیکیج کا ایک اہم نکتہ بیرون ملک مقیم شہریوں کو درپیش قانونی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے خصوصی عدالتوں کا قیام ہے۔ واضح رہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ غیر حل شدہ زمینی تنازعات، جائیدادوں پر قبضے، دھوکہ دہی اور افسر شاہی کی طرف سے خدمات کی فراہمی میں تاخیر ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبہ پنجاب اور بلوچستان میں بورڈ آف ریونیو پہلے ہی بیرون ملک مقیم شہریوں کی زمین اور ریونیو سے متعلق معاملات میں سہولت کیلئے خصوصی مراکز قائم کر چکے ہیں جبکہ سندھ، خیبرپختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتیں بھی اس ماڈل کی پیروی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اسی طرح حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی نئی نسل کا تعلق اپنے وطن سے جوڑنے اور مضبوط بنانےکیلئےانہیں یونیورسٹیوں میں پانچ فیصد اور میڈیکل کالجوں میں 15فیصد کوٹہ دینے کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے ملازمتوں کے بہتر مواقع تلاش کرنے میں مدد کیلئےنیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کونسل کے تحت اسکل ڈویلپمنٹ کورسز شروع کروانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے مستقل طور پر واپس آنے والے تارکین وطن کیلئے پبلک سیکٹر کی ملازمتوں میں مردوں کیلئے پانچ سال اور خواتین کیلئے سات سال چھوٹ دے کر اوورسیز پاکستانیوں کیلئے اپنے سماجی ڈھانچے میں دوبارہ انضمام کی پیچیدہ حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے ایک اور اہم اقدام یہ کیا گیا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو فائلر کا اسٹیٹس دے کر بینکنگ اور کاروباری لین دین کے ٹیکسوں میں وہی ریلیف فراہم کر دیا گیا ہے جو اندرون ملک فائلر یا ٹیکس دہندگان کو حاصل ہے۔ اس طرح اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر بھجوانے اور پاکستان میں سرمایہ کاری یا کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حوالے سے درپیش ایک بڑی رکاوٹ ختم ہو گئی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ترسیلات زر بھجوانے کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ہر سال 14اگست کو سول ایوارڈز دینے کا وعدہ بھی قابل تعریف ہے۔ اس سے اوورسیز پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کی بحالی میں ان کے کردار کو قومی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کی طرف سے کئے گئے یہ اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جلد از جلد عملی اقدامات کا آغاز کیا جائے۔ اس سے جہاں اوورسیز پاکستانی زیادہ دلجمعی کے ساتھ ملک کی معاشی خدمت کر سکیں گے وہیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں پائی جانے والی سیاسی تفریق میں بھی کمی آئے گی۔ پاکستان کے معاملات سے عملی طور پر آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد ماضی قریب میں سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والے پروپیگنڈے اور ڈس انفارمیشن کی مربوط کوششوں کے باعث اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس طرح کے کنونشن اگر مستقبل میں بھی جاری رہے اور حکومت کے اچھے اقدامات سے اوورسیز پاکستانیوں کو حالات میں بہتری نظر آئی تو اس سے ان میں اپنے وطن سے تعلق اور اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان نے تارکین وطن کو اہمیت دینے کے حوالے سے اقدامات اگرچہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت تاخیر سے شروع کئے ہیں۔ تاہم اب بھی اوورسیز کنونشن کا تسلسل سے انعقاد ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے جس کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کی ملکی ترقی اور خوشحالی میں شراکت داری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے بیرون ملک موجود پاکستانی سفارتخانوں کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ یقینی بنا سکیں۔

تازہ ترین