تفہیم المسائل
امام احمد رضا قادریؒ لکھتے ہیں: ’’پردہ صرف اُن سے نادرست ہے جو بسبب نسب کے عورت پر ہمیشہ ہمیشہ کو حرام ہوں اور کبھی کسی حالت میں ان سے نکاح ناممکن ہو جیسے باپ، دادا،نانا، بھائی، بھتیجا، بھانجا، چچا، ماموں، بیٹا، پوتا، نواسا،(فتاویٰ رضویہ ،جلد22، ص:235) ‘‘ ۔
مزید لکھتے ہیں:’’ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقاً واجب اور مَحارم نسبی سے پردہ نہ کرنا واجب، اگر کرے گی گنہگار ہوگی اور محارم غیر نسبی مثل علاقہ مصاہرت ورضاعت ان سے پردہ کرنا اور نہ کرنا دونوں جائز، مَصلحت وحالت پرلحاظ ہوگا،(فتاویٰ رضویہ، جلد22، ص:240) ‘‘۔
نامحرم یعنی جن مرد رشتہ داروں سے کسی عورت کا پردہ کرنا فرض ہے، وہ یہ ہیں: خالہ زاد، ماموں زاد،چچا زاد، پھوپھی زاد، دیور، جیٹھ، بہنوئی، نندوئی، خالو، پھوپھا، شوہر کا چچا، شوہر کا ماموں، شوہر کا خالو، شوہر کا پھوپھا، شوہر کا بھتیجا، شوہر کا بھانجا وغیرہ، یہ سب نامحرم ہیں اور ان سب سے پردہ ہے اور ان سے خَلوت میں ملنے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے۔
الغرض کسی عورت کے لیے نکاح کی عارضی حُرمت پردے اور سفر کرنے میں مانع نہیں ہے، جیسے بہنوئی کے نکاح میں جب تک بہن ہے، وہ دوسری بہن کے لیے مَحرم نہیں ہے، کیونکہ اس عارض کے سبب اس کے ساتھ خواہر نسبتی کانکاح ’’وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ (ترجمہ :’’اور کسی شخص کا (بیک وقت) اپنے نکاح میں دو بہنوں کا جمع کرنا بھی حرام ہے، (سورۃالنساء:23)‘‘ کے سبب حرام ہے، لیکن اگر وہ بہن کو طلاق دے دے اور عدّت گزر جائے یا پہلی بہن کا انتقال ہوجائے تو اس عارض کے رفع ہونے کے سبب دوسری بہن سے نکاح جائز ہوجاتا ہے، لہٰذا بہنوئی ہونا ’’دائمی حُرمت ‘‘ نہیں ہے، بلکہ عارضی حُرمت ہے، اس لیے اس سے پردہ لازم ہے اور عورت اس کے ساتھ تنہا سفرِ شرعی بھی نہیں کرسکتی ۔( واللہ اعلم بالصواب )