• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں سندھ کے مختلف علاقوں میں جس طرح مخالفوں کی املاک، گھروں اور صوبے کے داخلہ امور کے وزیر کے رہائشی مکاں کو نذرِ آتش کیا گیا، وہ ایک ایسا واقعہ ہے جو نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ المناک عمل سندھی قومیت کی پرامن جدوجہد کو ایک تاریک تصویر میں پیش کرنے کی کوشش ہے۔ مگر کیا تشدد اور دہشت گردی کے ذریعے کسی عوامی تحریک کو بدنام کرنا درست ہے؟ کیا سندھ، جو صدیوں سے امن اور رواداری کا گہوارہ رہا ہے، اپنی شناخت کو چند انتہا پسندوں کی آگ میں جھونک دے گا؟

سندھی قومیت کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ سے حقوق کی پرامن جنگ لڑنے کا علمبردار رہا ہے۔ چاہے وہ وسائل کا منصفانہ بٹوارہ ہو، ثقافتی شناخت کا تحفظ ہو، یا صوبائی خودمختاری کا مطالبہ، سندھ کے عوام نے اپنی آواز ہمیشہ اصولوں اور قانون کے دائرے میں رہ کر بلند کی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سندھ کی جدوجہد کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔ مگر آج کچھ نام نہاد ’’قوم پرست‘‘گروہ، جو خود سندھ کی مٹی سے کوئی عملی رشتہ نہیں رکھتے، یورپ اور امریکہ میں بیٹھ کر نوجوانوں کو تشدد کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔ کیا یہ وہی سندھ ہے جس نے ہر دور میں مظلوم کی حمایت کی اور ظالم کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوا؟ کیا یہی وہ ورثہ ہے جو ہمیں شہید بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں سے ملا؟

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو سندھ کی پہچان صوفیاء کے پیغامِ محبت، فلسفیوں کے علم، اور مزدوروں کے پسینے سے جڑی نظر آتی ہے۔ یہاں کے کسان نے ہمیشہ محنت کی، مزدور نے ہمت کی، اور شاعر نے محبت کا راگ الاپا۔ 1946ء کی ہڑتال ہو یا 1970 ء کی عوامی بیداری، سندھیوں نے اپنے مطالبات کبھی آگ اور خون سے نہیں بلکہ امن اور یکجہتی سے منوائے۔ مگر افسوس! آج کچھ لوگ اس ورثے کو تباہ کرنے پر تُل گئے ہیں۔ ضیاء النجار کے گھر کو آگ لگانے جیسے واقعات نہ صرف انفراسٹرکچر کو جلا رہے ہیں بلکہ سندھ کی صدیوں پرانی پرامن تصویر کو بھی خاکستر کر رہے ہیں۔ کیا ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اسی طرح یاد رکھیں گی؟

اس سارے کھیل میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سندھ کے نوجوانوں کو چند مفاد پرست قوتوں نے اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو یورپ کے آرام دہ ہوٹلوں میں بیٹھے ہیں مگر سندھ کے دیہات میں رہنے والے کسان کی تکلیف، کراچی کی گلیوں میں پسینہ بہاتے مزدور کی محرومی، یا خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف افراتفری پھیلانا ہے تاکہ سندھی قومیت کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر اس کی اخلاقی طاقت کو کمزور کیا جائے۔ کیا ہماری نوجوان نسل، جو سندھ کا مستقبل ہے، ان کے ہاتھوں کھلونا بننے پر مجبور ہے؟

یہ وقت ہے کہ سندھ کے دانشور، سیاسی رہنما، اور سماجی کارکن میدان میں آئیں۔

نوجوانوں کو سمجھایا جائے کہ تشدد کبھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا بلکہ یہ نئے زخم پیدا کرتا ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ سندھی قومیت کی اصل روح کو اجاگر کرے، نہ کہ چند انتہا پسندوں کے اقدامات کو نمایاں کر کے پورے صوبے کو مشکوک بنائے۔ یاد رکھیں، عوامی تحریکیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب وہ عوام کے دلوں کی دھڑکن بن جائیں۔ اور عوام کا دل جیتنے کا راستہ ہمیشہ امن اور محبت سے ہو کر گزرتا ہے۔

سندھ کی روح کو کبھی تشدد کے ہاتھوں مجروح نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ حق بات کرنے کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے، ہتھیار نہیں اٹھانے چاہئیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو اس تاریخی ورثے سے روشناس کریں اور انہیں بتائیں کہ سچی قومیت کا تعلق زمین سے پیار، انسانیت سے محبت، اور انصاف کی تلاش سے ہے۔ اگر ہم نے اب بیداری کا مظاہرہ نہ کیا تو صوبائی وزیر داخلہ ضیاء النجار کے گھر کی آگ صرف ایک عمارت کو نہیں بلکہ سندھ کی پوری شناخت کو جلا کر رکھ دے گی۔ اور پھر ہمیں دنیا کو یہ بتانے میں صدیاں لگ جائیں گی کہ سندھی دراصل کون تھے اور کیا ہیں۔

تازہ ترین