مالی سال 26-2025ء کیلئے وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا۔ وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے 17 ہزار 573 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔
بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، آئندہ مالی سال میں شرحِ نمو 4.2 فیصد تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، دفاع کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کر کے 2. 5فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں شروع ہوا، جس کی ابتداء تلاوتِ قرآنِ کریم سے کی گئی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شریک ہوئے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ انتہائی اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، حالیہ پاک بھارت جنگ میں قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا، حالیہ جنگ میں کامیابی پر عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اس مخلوط حکومت کا دوسرا بجٹ ہے اور میں وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف صاحب کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصاً میاں محمد نواز شریف صاحب، بلاول بھٹو زرداری صاحب، خالد مقبول صدیقی صاحب، چوہدری شجاعت حسین صاحب، عبدالعلیم خان صاحب اور جناب خالد حسین مگسی صاحب کا رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ ایک نہایت اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جا رہا ہے، جب قوم نے حالیہ دنوں میں غیر معمولی اتحاد، عزم اور ہمت کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ بھارتی جارحیت کے مقابل ہماری سیاسی قیادت، افواج پاکستان اور پاکستان کے غیور عوام نے جس جواں مردی، دانشمندی اور یکجہتی کا ثبوت دیا، وہ تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ کامیابی ایک شاندار عسکری کامیابی کے علاوہ پوری قوم کے اجتماعی شعور، قومی وقار اور غیرت کا مظہر تھی۔ میں یہاں پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت، شجاعت اور جذبہ قربانی سے دشمن کو مؤثر اور بھر پور جواب دیا، جس سے نہ صرف ہماری سرحدوں کا دفاع ناقابل تسخیر بنا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوا۔ اس عظیم کامیابی نے یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ہر آزمائش میں متحد ہے اور مادر وطن کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے اب ہماری توجہ معاشی استحکام، ترقی اور خوشحالی کے حصول کی جانب مرکوز ہے۔ ہم نے جس جذبے سے قومی سلامتی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے، اُسی خلوص اور حوصلے کے ساتھ ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے پچھلے لگ بھگ سوا ایک سال کے دوران قومی اتحاد اور عزم کے جذبے کے ساتھ معاشی بحالی، اصلاحات اور ترقی کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے اور معاشی اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، اور ترقیاتی منصوبہ بندی کو یکجا کرتے ہوئے نہ صرف معیشت کو استحکام بخشا ہے بلکہ مستقبل کی بنیادیں بھی مضبوط کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہماری ترجیح ایک ایسی معیشت کی تشکیل ہے جو ہر طبقے کو ترقی کے ثمرات دے اور ماحولیات و وسائل کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے دیرپا ترقی کا راستہ ہموار کرے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ یہی ویژن ہمیں آگے بڑھاتا ہے - ایک ایسے پاکستان کی طرف جہاں ترقی ہر فرد کی دہلیز تک پہنچے، اور قوم بحیثیت مجموعی خوشحال ہو۔ راہ پر قائم، خوشحالی دائم --- یہی ہمارا عزم، ہماری حکمت عملی اور ہمارا نعرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال معیشت کی بہتری کے لیے کئی اہم اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں مالی نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی اور ہمیں کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں، جن میں سے کچھ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ان میں :
٭جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر پرائمری سرپلس کا حصول۔
٭افراط زر میں نمایاں کمی 4.7 فیصد (یاد رہے کہ صرف دو سال پہلے افراط زر کی شرح 29.2 فیصد تک پہنچ چکی تھی)۔
٭پچھلے سال کے 1.7 ارب ڈالر خسارے کے مقابلے میں اس سال سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ 1.5 ارب ڈالر متوقع۔
٭روپے کی قدر میں استحکام۔
٭ترسیلات زر موجودہ مالی سال کے پہلے دس ماہ میں 31 فیصد اضافے کے ساتھ 31.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ ہم پُر امید ہیں کہ موجودہ مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 38 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
٭اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے۔ موجودہ سال کے اختتام تک یہ ذخائر چودہ (14) ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اقتصادی بہتری کے لیے حکومت کو سخت فیصلے لینے پڑے۔ پاکستان کے غیور عوام نے بھی متعدد قربانیاں دیں جن کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ ہمارے Macroeconomic Stabilization Programme کی کامیابی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ گلوبل فنانشل ادارے، ریٹنگ ایجنسیز اور ملکی و غیر ملکی surveys معیشت میں بہتری کی گواہی دے رہے ہیں۔ PWC کے مطابق کاروباری اداروں کے سربراہان کا معیشت میں بہتری پر اعتماد انچاس (49) فیصد سے بڑھ کر تراسی (83) فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اسی اعتماد کی بازگشت Overseas Chamber کے تحت پاکستان میں کاروبار کرنے والے بیرونی سرمایہ کاروں میں بھی سنی جاسکتی ہے جہاں Business Confidence Index میں تاریخی بہتری آئی ہے۔ گیلپ کے مطابق بھی پاکستانی معیشت میں واضح بہتری آئی ہے اور Household Financial Outlook میں صرف پچھلی سہ ماہی میں 27.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ IPSOS سروے کے مطابق پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عوام اور مقامی صارفین کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
Fitch نے پاکستان کی Rating کو +CCC سے بڑھا کر -B کرتے ہوئے معاشی مستقبل میں بہتری کی نوید دی ہے۔ Moodys نے بھی معیشت میں بہتری کی نشاندہی کی ہے۔ WB ،ADB اور IFC نے نہ صرف پاکستانی معیشت کے مستقبل پر اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ پاکستان کے لیے خطیر Financing فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم، محمد شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے مختصر عرصے میں مختلف سیکٹرز میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ میں ان کامیابیوں اور کچھ اہم اصلاحات کی تفصیل ایوان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہمارا سب سے اہم معاشی مسئلہ محصولات کے نظام کی مسلسل کمزوری تھی۔ پاکستان کی tax-to-GDP ratio، 10.0 فیصد تھی جو کہ ترقیاتی اخراجات اور ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے ناکافی تھی۔ مزید برآں، FBR کے مطابق پاکستان میں Tax Gap کا تخمینہ 5.5 ٹریلین روپے لگایا گیا، یعنی ہم آدھے سے زیادہ ممکنہ ٹیکس سے محروم تھے۔ یہ صورت حال ناقابل قبول تھی۔ اس خلا کو پُر کرنا نہ صرف ضروری تھا بلکہ ملک کو 14 فیصد tax-to-GDP ratio کی پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنا ناگزیر تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی کہ FBR اس حل کا محض ایک حصہ نہیں بلکہ بنیاد ہے۔ FBR کو transform کیے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا اور قومی اہداف حاصل کرنا ممکن نہ تھا۔ اسی لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں FBR Transformation Plan کا آغاز کیا گیا۔ یہ کوئی روایتی مشق نہیں تھی بلکہ وزیر اعظم کی براہ راست نگرانی میں ایک تفصیلی مشاورت کے ذریعے تیار کیا گیا منصوبہ تھا جس کی ستمبر 2024 میں منظوری دی گئی۔ اس منصوبے کی بنیاد تین ستونوں پر ہے:
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس منصوبے کا محور Digital Transformation ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ معیشت اور ٹیکس نظام کے درمیان جامع Digital Integration کا آغاز کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت اٹھائے گئے اہم اقدامات میں:
٭ Digital Production Tracking کا آغاز چینی کے شعبے سے کیا گیا، جسے اب سیمنٹ، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل تک توسیع دی جا رہی ہے۔
٭ Business to Business لین دین کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ملک گیر E-Invoicing کا اجرا
٭سیلز اور انکم ٹیکس کے لیے Artificial Intelligence پر مبنی Audit Selection System
٭چاروں صوبوں میں Point of Sale نظام کی Integration
٭اشیاء کی نقل و حمل پر نظر رکھنے کے لیے E-way Billing
٭کسٹمز میں ملی بھگت کا خاتمہ کرنے کے لیے Faceless Audit نظام کا قیام
٭افسران کے لیے Digital Workflow اور بروقت Enforcement Alerts
٭ایک نیا Central Control Unit جو تمام ڈیٹا کی Centralized Visibility فراہم کرے اور ثجدید ٹیکنالوجی لانے کے مینڈیٹ کے ساتھ PRAL Board کی تشکیل نو ہو چکی ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم انسانی وسائل کی ترقی پر بھی بھر پور سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ آڈیٹرز کی Capacity Building کے لیے نئی بھرتیاں کی گئی ہیں۔ شعبہ جاتی ماہرین اور Audit Mentors کو کلیدی اکائیوں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ تربیت اور پیشہ ورانہ رہنمائی کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔ افسران کو آڈٹ، قانون اور ڈیجیٹل مہارتوں پر مبنی منظم تربیتی پروگرامز کے ذریعے Skill کیا جا رہا ہے۔ پیچیدہ قانونی مقدمات کی پیروی کے لیے صف اول کی قانونی فرموں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب افسران کو Rewards محض سینارٹی سے نہیں بلکہ ان کی کارکردگی، پیشہ ورانہ رویے اور دیانت داری سے مشروط کیا گیا ہے، میں ایوان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس منصوبے کے ابتدائی نتائج نہایت حوصلہ افزاء رہے ہیں۔
٭ چینی کے شعبے سے محصولات میں 47 فیصد اضافہ ہوا
٭ High Value Data Integration کے ذریعے 3 لاکھ 90 ہزار Non-Filers کی نشاندہی ہوئی، جس سے 30 کروڑ روپے کی وصولی ممکن ہوئی
٭ Fraud Analytics کے ذریعے 9.8 ارب روپے کے جعلی Refund Claims کو بلاک کیا گیا
٭ Artificial Intelligence پر مبنی آڈٹ سسٹم کے تحت 200 سے زائد کیسز کی نشاندہی کی گئی جن کی مالیت 13.3 ارب روپے سے زیادہ ہے
٭ Faceless Customs Audit کے ذریعے قانون پر عمل پیرا امپورٹرز کو سہولت فراہم کی گئی
٭ فائلنگ اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوا، اور محاصل 45 ارب سے بڑھ کر 105 ارب روپے تک پہنچ گئے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ یکم جولائی سے 800-Columns والا ریٹرن سادہ فارمیٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا، جس میں صرف سات (7) بنیادی معلومات درکار ہوں گی۔ یہ آسان اور صارف دوست ریٹرن خاص طور پر تنخواہ دار افراد اور چھوٹے کاروباروں کے لیے متعارف کروایا جا رہا ہے، جس کے بعد کسی وکیل یا ماہر کی مدد کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار IMF نے قوانین کی enforcement کے ذریعے 389 ارب روپے کے محصولات کو باضابطہ تسلیم کیا ہے۔ یہ غیر معمولی اعتراف ہمارے اصلاحاتی اقدامات کی طاقت، وسعت اور ساکھ کا واضح ثبوت ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ آئی ایم ایف کا پاکستان کی اصلاحات پر اعتماد کا مظہر ہے۔ جو لوگ منی بجٹ کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے تھے میں بڑے ادب سے ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی منی بجٹ نہیں آیا اور نہ ہی کوئی اضافی ٹیکس لگایا گیا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ کئی ٹیکس دہندگان مقدمات کے ذریعے ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کیسز کی کمزور پیروی کی وجہ سے حکومتی محاصل طویل عرصے تک التواء کا شکار رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے اس سال FBR نے کامیاب litigation کے ذریعے اٹھتر اعشاریہ چار (78.4) ارب روپے کے محاصل وصول کر لیے ہیں۔ اس اہم کامیابی پر میں قانونی ٹیم اور معزز عدلیہ کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ اس کے علاوہ عدالتوں میں ADR سے متعلق ایک مقدمے کو negotiated settlement کے ذریعے حل کیا گیا جس سے قومی خزانے کو 77 ارب حاصل ہوئے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ معاشی ترقی کے لیے پاور سیکٹر کے شعبے کی اہمیت مسلمہ ہے، ہم نے معاشی ترقی کے حصول اور ملکی صنعت کے لیے بجلی کی اہمیت کے پیش نظر صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت میں 31 فیصد سے زائد کمی کی ہے جبکہ ایک کروڑ 80 لاکھ مستحق اور protected صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔ ہم نے IPPs کے ساتھ معاہدوں پر بھی نظر ثانی کی ہے جس کے نتیجے میں 3,000 ارب روپے سے زیادہ کی بچت ہو گی۔ اس طریقہ کار پر عمل کر کے ہم ماحول کے لیے نقصان دہ 3,000 میگاواٹ گنجائش سے زائد فرنس آئل پاور پلانٹس کو بند کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں احساس ہے کہ مستقل بنیادوں پر بہتری لانے کے لیے پاور سیکٹر میں گہری اور بنیادی اصلاحات لانا ضروری ہیں۔ ہم نے آگے بڑھتے ہوئے فیصل آباد، گوجرانوالہ اور اسلام آباد کی تین ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا تقریباً آدھا عمل مکمل کر لیا ہے اور ان کی نجکاری کے تمام ضروری لوازمات پورے کر لیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے بجلی کی ترسیل کے ادارے NTDC کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی تنظیم نو کی ہے اور اسے تین نئی کمپنیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہ کمپنیاں مستقبل کے پراجیکٹس کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کی ذمے دار ہوں گی تاکہ بجلی کے ترسیلی نظام میں رکاوٹیں دور کی جاسکیں۔ اِن اداروں کو چلانے کے لیے عالمی معیار کے افراد تعینات کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھے یہ بتاتے ہوئی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا انتظام professional boards کے سپرد ہے۔ ہم نے ان بورڈز میں سیاسی مداخلت کو ختم کر دیا ہے۔ پروفیشنل بورڈز کے آنے سے ان کمپنیوں نے صرف 9 مہینوں میں اپنے نقصانات میں 140 ارب روپے کی کمی کی ہے۔ ان شاء اللّٰہ ہمارا عزم ہے کہ اگلے 5 سالوں میں کمپنیوں کے ان نقصانات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں Competitive اور آزاد مارکیٹ کے قیام کے لیے قانون سازی اور ضوابط کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، اور اگلے 3 ماہ میں اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار توانائی بچت کے اصولوں پر مبنی Building Codes منظور کیے گئے ہیں، اور وفاقی و صوبائی اداروں کو ان ضوابط پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں بننے والی تمام تعمیرات توانائی کے اعتبار سے مؤثر اور فعال ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت اب تک 4 ہزار ارب روپے سے زائد کی بچت کی ہے، اور 9000 میگاواٹ گنجائش کے مہنگے بجلی گھر جنہیں نیشنل گرڈ میں شامل کیا جانا تھا، ترک کر دیا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس کے علاوہ ہم نے بجلی کی پیداوار کے ایسے تمام پلانٹس کو بند کر دیا ہے جو GENCOS کی شکل میں سرکاری ملکیت میں تھے۔ ان پلانٹس کے فالتو آلات کی فروخت کا عمل شروع ہو گیا ہے تاکہ ان اداروں کے باعث ملکی خزانہ پر 7 ارب روپے سالانہ سے زائد کے بوجھ کا خاتمہ ہو سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم نے پاکستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں targeted reforms کیے ہیں جن سے سرمایہ کاری میں اضافہ، اور سٹریٹیجک diversification کے بل بوتے پر نمایاں ترقی ہوئی ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کے شعبے میں، competitive bids میں خاص طور پر ترک پیٹرولیم سمیت بین الاقوامی کمپنیوں کی خاصی دلچسپی رہی، جو طویل عرصے کے بعد onshore sector میں قابل ذکر بیرونی سرمایہ کاری کی علامت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ Pakistan offshore Exploration Bid Round 2024 کا آغاز ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد عمل میں آیا۔ جس سے آف شور سیکٹر میں E&P سرگرمی بحال ہوئی۔ جبکہ تیل اور گیس کی متعدد دریافتوں سے Imports Substitution میں مدد ملی اور Energy Security میں بہتری آئی۔ E&P کمپنیوں نے مستقبل میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے 5 ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ پہلے سے رواں فیلڈز پر جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے ان کی استعداد بڑھانے کے منصوبوں پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔ پیٹرولیم پالیسی 2012، Tight Gas پالیسی میں ترامیم، better pricing سمیت متعدد پالیسی اصلاحات سے Downstream Segment میں competitiveness میں بہتری آئی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ Refining and Downstream Segment میں پاکستان ریفائنگ پالیسی 2023 کے ذریعے momentum دیکھنے میں آیا ہے، جس سے Euro-V upgrades اور استعداد میں توسیع لانے میں معاونت ملی۔ fuel price کی ڈی ریگولیشن کی جانب اقدامات کا مقصد competition اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک میں واقع تانبے اور سونے کی کانیں ہمارے مستقبل کا ایک اہم اثاثہ ہیں۔ حکومت اس اثاثے کو مفید بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اس منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی جنوری 2025 میں مکمل کی گئی۔ اس منصوبے کی متوقع کان کنی کی مدت 37 سال ہے جس کے دوران ملک کو 75 ارب ڈالر سے زائد کے Cash Flows حاصل ہوں گے۔ اس منصوبے کے تحت تعمیراتی کام میں 41,500 ملازمتیں فراہم ہوں گی۔ کمیونٹی پروگراموں، مقامی خریداری، ماحولیاتی safeguards اور نمایاں CSR contributions کے ذریعے نمایاں سماجی و اقتصادی ترقی کا حصول ممکن ہو گا۔ اس منصوبے سے 7 ارب ڈالر کے ٹیکس اور 7.8 ارب ڈالر کی رائلٹی متوقع ہے۔ برآمدات میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ریکوڈک سے پورٹ قاسم اور گوادر تک سڑک اور ریل کے ذریعے نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جاری ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے پُر عزم ہے۔ وزارت تجارت نے Competitive، متنوع اور برآمدات پر مبنی ملکی معیشت کے فروغ کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ حکومت معاشی ترقی، کاروبار کو سپورٹ کرنے اور برآمدات کو فروغ دینے کے واضح ویژن کے ذریعے ایک جامع Tariff Reforms Package متعارف کروا رہی ہے، جس کا مقصد موجودہ ٹیرف کو مناسب بنانا ہے تاکہ برآمدات کو بڑھا کر معاشی ترقی کو تیز کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق درج ذیل ٹیرف اصلاحات کو National Tariff Policy 2025-30 کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔
٭چار سال میں اضافی کسٹم ڈیوٹی (ACDs) کا خاتمہ۔
٭پانچ سال میں ریگولیٹری ڈیوٹیز (RDs) کا خاتمہ۔
٭کسٹم ایکٹ 1969 کے 5ویں شیڈول کا 5 سالوں میں اختتام۔
٭ کل چار کسٹمز ڈیوٹی سلیبز (0 فیصد، 5 فیصد، 10 فیصد، اور 15 فیصد) اور زیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی کی حد 15 فیصد۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ان ٹیرف اصلاحات کو مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا، تا کہ کاروبار کسی خلل کے بغیر اس تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکیں اور ان کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔ معیشت کے تقریباً تمام شعبے ان اصلاحات سے مستفید ہوں گے جن میں فارماسیوٹیکل، آئی ٹی اور ٹیلی کام، ٹیکسٹائل، انجینئرنگ وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے مطابق ان اصلاحات کے کامیاب نفاذ کے بعد پاکستان کے اوسط ٹیرف، خطے میں سب سے کم ہو جائیں گے اور ہم ویت نام اور انڈونیشیا جیسے ممالک کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان اصلاحات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور یہ ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پچھلی دو دہائیوں سے ہماری معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ مالیاتی نظم ونسق کو بہتر بنانے سے ہماری معیشت کے تناسب سے قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے۔ آج سے دو سال قبل ہماری Debt-to-GDP ریشو 74 فیصد تھی جو کہ اب 70 فیصد سے بھی نیچے آ گئی ہے جسے ہم آگے چل کر مزید کم کریں گے۔ اس ضمن میں ہمیں اہم کامیابیاں ملی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پہلے Debt Buy Back Programme پروگرام کے تحت 1 ہزار ارب کے قرض Buy Back کیے گئے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ایک فعال refinancing پروگرام کے تحت مارک اپ میں ریکارڈ 850 ارب روپے سے زائد کی بچت کی گئی۔قرضوں کی Average Time to Maturity میں 66 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے ہمارا Refinancing Risk کم ہوا اور مالیاتی استحکام میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ Debt Products کو Diversify کیا جارہا ہے تاکہ Investor Base کو بڑھایا جاسکے۔ اس سلسلے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سکوک بانڈ کا اجراء کر دیا گیا ہے۔ جبکہ مزید پراڈکٹس کو لانچ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ Global Best Practices کے مطابق DMO کی Restructuring کی جا رہی ہے۔پہلے Panda Bond کے اجراء کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے جس کا مقصد دنیا کی سب سے بڑی اور گہری چینی کیپٹل مارکیٹ تک پاکستان کی رسائی ممکن بنانا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ SOEs حکومتی خزانے پر 800 ارب روپے سے زیادہ کا سالانہ بوجھ ڈالتی ہیں۔ سبسڈیز، گرانٹس اور ایکویٹی کی مد میں دی گئی حکومتی امداد کو شامل کیا جائے تو یہ تخمینہ ایک ٹریلین روپے سالانہ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ SOE Reforms مالیاتی نظم و ضبط کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ حکومت نے SOEs کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔۔
ان کا کہنا ہے کہ SOE Reforms کا ایک اہم ستون ان کی مختلف Categories میں تقسیم ہے جس کے ذریعے اُن کی مستقبل کی سمت یعنی Privatization، Restructuring یا PPP ماڈل کا تعین کیا جاتا ہے۔ کابینہ کی ایک کمیٹی کے ذریعے اس Categorization کو مکمل کرلیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ عوامی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے، مالی بوجھ کو کم کرنے، اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے حکومت ایک جدید اور متحرک نجکاری حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ یہ حکمت عملی Non-Essential سرکاری اداروں کی شفاف اور مؤثر نجکاری پر مرکوز ہے تاکہ مختلف شعبوں، بالخصوص توانائی اور مالیاتی شعبے میں مسابقت، کارکردگی اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 26-2025 میں ہمارا ہدف ہے کہ ہم PIA اور روزویلٹ ہوٹل جیسی اہم transactions مکمل کریں، اور DISCOs اور GENCOs جیسے کلیدی اثاثوں کی نجکاری کے لیے پالیسی اور ضابطہ جاتی اصلاحات کو آگے بڑھائیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نجکاری کو صرف ایک مالی اقدام نہیں بلکہ پاکستان کی سرمایہ منڈیوں کو وسعت اور گہرائی دینے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ منظم public listing اور آفرز کے ذریعے ہمارا مقصد یہ ہے کہ سرکاری اثاثوں کو اسٹاک مارکیٹ میں شامل کیا جائے، تاکہ مارکیٹ میں شفافیت بڑھے، سرمایہ کاروں کی شرکت ممکن ہو اور عوام کی معیشت میں شمولیت کو فروغ دیا جا سکے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کی ادارہ جاتی تشکیل کو وزیر اعظم کی ویژن کے مطابق درست، منظم اور جدید بنانے کے اقدام کا آغاز کیا ہے۔ یہ اہم اور بنیادی اصلاحات اس اصول پر مبنی ہے کہ حکومت عوامی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹیکس دہندگان پر کم سے کم بوجھ ڈالے، حکومتی اسٹرکچر میں
انہوں نے کہا کہ innovative ideas کے لیے ساز گار ماحول دستیاب ہو اور حکومت کاروباری معاملات میں حصہ نہ لے بلکہ Private sector should lead the country۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اب تک کابینہ نے دس وزارتوں کی Rightsizing کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے جو اب عملدر آمد کے مرحلے میں ہیں۔ چھ ڈویژنز کو ضم کر کے تین بنا دی گئی ہیں۔ 45 کمپنیوں اور ادروں کو پرائیویٹائز، ضم یا wind up کیا جارہا ہے۔ تقریباً چالیس ہزار vacant positions کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اگلی دس وزارتوں کے لیے Rightsizing کی سفارشات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے جبکہ مزید آٹھ وزارتوں کے حوالے سے تجاویز زیر غور ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پنشن، ریٹائرڈ ملازمین کا بنیادی حق ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں پنشن سکیم میں ایگزیکٹو آڈرز کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھا۔ پنشن سکیم کو درست کرنے اور سرکاری خزانے پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے پنشن سکیم میں اصلاحات کی ہیں جیسے:
٭قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی۔
٭پنشن اضافہ (Consumer Price Index (CPI سے منسلک۔
٭شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود۔
٭ایک سے زائد پنشنز کا خاتمہ۔
٭ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب۔
انہوں نے کہا کہ اب میں اُن اہم موضوعات کا احاطہ کرنا چاہتا ہوں جو قومی اہمیت کے حامل ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے existential threat ہے۔ یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا سد باب حکومت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بیش بہا وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے حکومت نے گذشتہ سولہ (16) ماہ میں کلائمیٹ فنانس پر خصوصی توجہ دی ہے اور اس سلسلے میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ ورلڈ بنک اور آئی ایف سی، اپنے کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت پاکستان کو اگلے دس سال میں چالیس ارب ڈالر کے وسائل مہیا کریں گے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنا اس فریم ورک کی اہم ترجیح ہے۔ اسی طرح ایک سال کی انتھک محنت کے بعد IMF نے پاکستان کے لیے 1.4 ارب ڈالر کی Resilience and Sustainability Facility فراہم کی ہے۔ حکومت پاکستان نے پہلے گرین سکوک کا بھی اجراء کیا ہے۔ جس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلقہ منصوبوں کے لیے مقامی مارکیٹ سے وسائل کی فراہمی ممکن ہوئی ہے۔ ان وسائل کی دستیابی پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے محفوظ بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری حکومت ایک جامع اور مؤثر سماجی تحفظ کے نظام کے ذریعے معاشرے کے کمزور ترین طبقات کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے۔ جاری مالی سال 25-2024 کے دوران، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نے کم آمدنی والے خاندانوں کو معاشی مشکلات سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پانچ سو بیانوے (592) ارب روپے کے مختص فنڈز میں سے ایک کثیر رقم کے ذریعے ننانوے (99) لاکھ مستحق خاندانوں کو غیر مشروط نقد امداد فراہم کی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ایک کروڑ سولہ لاکھ بچوں کو تعلیمی وظائف کی صورت میں مالی معاونت فراہم کی گئی۔ BISP کے نشوونما پروگرام کے تحت 15 لاکھ lactating and pregnant mothers اور ان کے 16 لاکھ بچوں کو نقد امداد اور غذائیت پر مبنی خصوصی خوراک فراہم کی گئی۔ مالی شمولیت کے فروغ کے لیے، سال بھر میں دو لاکھ پچاس ہزار (250,000) مستحقین کو financial literacy کی تربیت دی گئی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ IT کا شعبہ اپنی برآمدات کی صلاحیت کی وجہ سے ملکی معیشت کا ایک انتہائی اہم حصہ بن چکا ہے۔ ڈیجیٹل گورننس اور سائبر سیکورٹی کے حوالے سے پاکستان کی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ گلوبل سائبر سیکورٹی انڈیکس 2024، UN E-Government Index اور ICT Development Index میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی رینکنگ ملک کے IT شعبے کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی ICT برآمدات میں متاثر کن اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سال کے 10 مہینوں میں یہ ایکسپورٹس 3.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ جو پچھلے سال کی نسبت 21.2 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ نمایاں اضافہ حکومتی پالیسی کے نتیجے میں ہوا۔ اگلے مالی سال بھی اس شعبے میں ترقی کا سفر جاری رکھا جائے گا۔ اگلے 5 سالوں میں ICT exports کو 25 ارب ڈالر تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ SMEs ہماری معیشت کی خوشحالی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے SMEs کے فروغ پر خصوصی توجہ دی ہے اس سلسلے میں وزیر اعظم نے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ تمام سرکاری اداروں کی مربوط کوششوں سے اس شعبے کو فروغ دیا جا سکے۔ SMEDA نے 27-2024 کے لیے تین سالہ کاروباری منصوبہ تیار کیا ہے جس کے اہم اجزاء میں SME financing میں اضافہ، برآمدات کا فروغ، صنعتوں کے مابین روابط، خواتین کی کاروباری شراکت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے تحفظ شامل ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ایک بڑی کامیابی SME رسک کور ریج اسکیم ہے جس کے تحت مئی 2025 تک پچانوے (95) ہزار سے زیادہ SMEs کو تین سو گیارہ (311) ارب روپے سے زائد کی مالی معاونت فراہم کی گئی۔ اس کے نتیجے میں کل SME finance چار سو اکہتر (471) ارب روپے سے بڑھ کر چھ سو اکتالیس (641) ارب روپے ہو گیا ہے، جبکہ مستفید ہونے والے کاروباروں کی تعداد ایک لاکھ چوہتر ہزار سے بڑھ کر دو لاکھ باسٹھ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت کا عزم ہے کہ انشاء اللہ 2028 تک SME فنانس کو 1100 ارب روپے تک بڑھایا جائے اور مستفید کاروباروں کی تعداد سات لاکھ پچاس ہزار تک پہنچائی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکوں، فن ٹیک اداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر SME فنانس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم ہے، اور حال ہی میں SME فنانس سے متعلق نظر ثانی شدہ ضوابط عوامی مشاورت کے لیے جاری کیے ہیں۔ ان ضوابط کا مقصد بینکوں کو زیادہ لچک دینا، قرضے کے حصول کا عمل آسان بنانا، ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا اور ضمانت کی شرائط کو نرم کرنا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان سماجی و اقتصادی ترقی کی اسکیموں کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں جن کا عوام کی فلاح و بہبود پر گہرا اثر مرتب ہوگا۔ معاشرے کے کم آمدنی والے طبقے کو گھروں کی خرید یا تعمیر کے لیے سستے قرضوں کی فراہمی کی جائے گی۔ اس اسکیم سے کئی شعبوں میں معاشی سرگرمیاں آگے بڑھیں گی اور ہنر مندوں کے لیے نئے روزگار پیدا ہوں گے۔ اس منصوبے کی تفصیلات کا اعلان جلد ہی اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے کیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارا ایک اہم اثاثہ ہیں، جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ہمارے بیرون ملک مقیم بہن بھائیوں نے موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 31.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھیجی ہیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ ہیں۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلے دو سالوں میں ترسیلات زر کے حجم میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جس کے لیے ہم اپنے بیرون ملک مقیم پاکستانی بہن بھائیوں کے تہ دل سے شکر گزار ہیں۔ اس سے کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری آئی ہے۔ ہماری حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کو مزید سہولیات دے گی تاکہ وہ ملکی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کرتے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے احکامات کی روشنی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں۔ میں ان میں سے کچھ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ جیسا کہ خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، مقدمات کی رجسٹریشن اور شواہد (evidence) اکھٹا کرنے کے لیے آن لائن سسٹم متعارف کروایا جائے گا اور جھوٹے مقدمات سے بچاؤ کے لیے متعلقہ Civil Procedure Laws میں تبدیلی کی جائے گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بچوں کے لیے وفاقی حکومت سے چارٹرڈ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں کوٹہ متعین کیا جارہا ہے اور Skill Training کے لیے وظائف کی فراہمی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بنک کے ذریعے زیادہ ترسیلات بھیجنے والے 15 افراد کو ہر سال 14 اگست کو سول ایوارڈز دیئے جائیں گے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زراعت کا ملکی معیشت میں حصہ تقریباً 24 فیصد ہے۔ جس سے ملکی معیشت کے لیے زراعت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ زراعت ایک صوبائی subject ہے مگر اس شعبے کی اہمیت کے پیش نظر وزیر اعظم نے ایک نیشنل کمیٹی تشکیل دی ہے جو زراعت کے فروغ کے لیے صوبوں کے ساتھ بامقصد مشاورت کرے گی۔ مزید برآں، زرعی شعبے کو قرض کی فراہمی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم پچھلے مالی سال کے پہلے 10 مہینوں میں ایک ہزار سات سو پچاسی (1,785) ارب روپے سے بڑھ کر اس مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں دو ہزار چھیاسٹھ (2,066) ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ زراعت کے شعبے خصوصاً چھوٹے کسانوں کو قرض کی فراہمی کے لیے کئی نئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک نیا Clean Financing Facility Programme شروع کیا جارہا ہے جس کے تحت بنک چھوٹے کسانوں کو بغیر کسی ضمانت کے ایک لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کریں گے۔ یہ رقم ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے کسانوں کے E-Wallets میں ٹرانسفر کی جائے گی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ چھوٹے کسانوں کو دیئے جانے والے قرضوں پر حکومت بنکوں کو Portfolioپر 10 فیصد first loss risk coverage دے گی۔ یہ سہولت ایسے علاقوں میں فراہم کی جائے گی جہاں فنانسنگ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اس سکیم سے ساڑھے سات لاکھ کسان فائدہ اٹھائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے بیج کے شعبے کی بہتری کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں جن میں نیشنل سیڈ ڈویلپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام شامل ہے تاکہ معیاری، موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق بیجوں کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے بیج کے نظام کو ڈیجیٹل بنیادوں پر منظم کرنے کا عمل شروع کیا ہے، جس میں کمپنی رجسٹریشن، تجدید، بیج کی تصدیق، نگرانی اور نفاذ شامل ہیں۔ نجی شعبے کی تحقیق اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نیشنل سیڈ پالیسی 2025 اور نیشنل ایگریکلچرل بایوٹیکنالوجی پالیسی 2025 منظوری کے آخری مراحل میں ہیں، جبکہ پلانٹ بریڈرز رائٹس ایکٹ کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے تاکہ اختراع کی حفاظت اور تحقیق و ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ کپاس کی فصل کی بحالی کے لیے بھی مربوط کوششیں کی گئی ہیں، جو پاکستان کی معیشت اور ٹیکسٹائل صنعت کا ستون ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں کپاس کی پیداوار میں کمی ہوئی، تاہم 2023 میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی، اور 2024 میں حکومتی کوششوں کے باوجود موسمی مسائل کے باعث پیداوار متاثر ہوئی۔ حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ کپاس کی کاشت کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔ ایگریکلچر کے حوالے سے ترقیاتی بجٹ میں شامل منصوبوں کی تفصیل آگے چل کر بیان کروں گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ Special Investment Facilitation Council نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایک مرکزی پلیٹ فارم کے طور پر نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ اس کونسل کے تحت توانائی، معدنیات، زرعی کاروبار، آئی ٹی، فین ٹیک، انفرااسٹرکچر، افرادی قوت کی ترقی اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں 100 سے زائد اسٹریٹجک گرین فیلڈ اور براؤن فیلڈ منصوبوں کو تیز رفتاری سے آگے بڑھایا گیا، جس کے نتیجے میں مالی سال 25-2024 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا۔ نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور نجی شعبے کے فروغ میں بھی SIFC نے اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ بین الصوبائی اور بین الوزارتی روابط میں بہتری اور غیر ضروری ضابطہ جاتی رکاوٹوں کے خاتمے کے باعث SIFC نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا، نقل و حمل اور لاجسٹک کا نظام بہتر بنایا اور مالی سال 26-2025 کے لیے برآمدات پر مبنی صنعتی ترقی کے ایجنڈے کی مضبوط بنیاد رکھی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ یہ بجٹ ایک Competitive Economy کے لیے ترتیب دی گئی حکمت عملی کا آغاز ہے جو برآمدات کو بڑھائے گی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرے گی۔ تاکہ ادائیگیوں میں عدم توازن سے بچا جاسکے اور ساتھ ہی ساتھ Economic Productivity کو فروغ دیا جاسکے۔ مختصراً ہماری بجٹ کی حکمت عملی یہ ہے کہ ہم بنیادی تبدیلیاں لا کر معیشت کے DNA کو تبدیل کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب میں مالی سال 26-2025ء کے بجٹ کے اہم خدوخال پیش کرتا ہوں:
٭مالی سال 26-2025ء کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر کی اوسط شرح 7.5 فیصد متوقع ہے۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہوگا۔
٭ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ چودہ ہزار ایک سو اکتیس (14,131) ارب روپے ہے جو کہ رواں مالی سال سے 18.7 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ آٹھ ہزار دو سو چھ (8,206) ارب روپے ہو گا۔
٭وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف پانچ ہزار ایک سو سینتالیس (5,147) ارب روپے ہو گا۔
٭وفاقی حکومت کی خالص آمدنی گیارہ ہزار بہتر (11,072) ارب روپے ہو گی۔
٭وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ سترہ ہزار پانچ سو تہتر (17,573) ارب روپے ہے، جس میں سے آٹھ ہزار دو سو سات (8,207) ارب روپے مارک اپ کی ادائیگی کے لیے مختص ہوں گے۔
٭وفاقی حکومت کے جاریہ اخراجات کا تخمینہ سولہ ہزار دو سو چھیاسی (16,286) ارب روپے ہے۔
٭وفاق کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے ایک ہزار (1,000) ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملکی دفاع حکومت کی اہم ترین ترجیح ہے۔ اس قومی فرض کے لیے دو ہزار پانچ سو پچاس (2,550) ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔ سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے نو سو اکہتر (971) ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ پنشن کے اخراجات کے لیے ایک ہزار پچپن (1,055) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجلی اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار ایک سو چھیاسی (1,186) ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گرانٹس کی مد میں ایک ہزار نو سو اٹھائیس (1,928) ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں جو BISP، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع وغیرہ کے لیے ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت BISP کے flagship initiatives کی coverage بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کفالت پروگرام کو ایک کروڑ خاندانوں تک پہنچایا جائے گا۔ تعلیمی وظائف پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی تاکہ تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ بچوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اگلے مالی سال میں BISP کے لیے سات سو سولہ (716) ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو کے پچھلے سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جاریہ اخراجات سے آزاد جموں و کشمیر کے لیے 140 ارب روپے، گلگت بلتستان کے لیے 80 ارب روپے، خیبر پختونخوا کیلئے ضم شدہ اضلاع کے لیے 80 ارب روپے اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام (PSDP) ملکی اور بیرونی مالی وسائل کو متحرک کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے جس کا مقصد معیشت کے مختلف شعبوں میں ترقی کو فروغ دینا ہے۔ میں ایوان کے سامنے اس کی تفصیلات رکھنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیشنل اکنامک کونسل (NEC) نے مالی سال 2025-26 کے لیے چار ہزار دو سو چوبیس (4,224) ارب روپے کے قومی ترقیاتی اخراجات کی منظوری دی ہے، جس میں ایک ہزار (1,000) ارب روپے Federal PSDP اور دو ہزار آٹھ سو انہتر (2,869) ارب روپے Provincial ADPs کے علاوہ SOEs کی اپنے وسائل سے تین سو پچپن (355) ارب روپے کی سرمایہ کاری شامل ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ میں ایوان کو بتانا چاہتا ہوں کہ فیڈرل پی ایس ڈی پی 26-2025 کا محور بنیادی Infrastructure کے منصوبے ہیں، جن پر 60 فیصد سے زائد وسائل صرف کیے جا رہے ہیں تاکہ پورے ملک کو فائدہ پہنچے۔ جبکہ Provincial ADPs کی ترجیح سماجی شعبے ہیں جن کے لیے 60 فیصد سے زائد رقوم مختص کی گئی ہیں۔ یہ رجحان آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ذمہ داریوں کی تقسیم پر عمل درآمد کا واضح ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ جاری اور نئے اقدامات کو قومی منصوبوں جیسے کہ 'اُڑان پاکستان' اور 5Es پر مبنی نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فیڈرل پی ایس ڈی پی 26-2025 کی اہم sectoral highlights کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ اس میں سب سے پہلے:
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر معیشت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک کلیدی محرک کے طور پر 5Es فریم ورک کے تحت نمایاں شعبوں میں سے ایک ہے، تاکہ 'اُڑان پاکستان اور SDGs کے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس شعبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی 26-2025 کے مجموعی ایک ہزار (1000) ارب روپے میں سے تین سو اٹھائیس (328) ارب روپے کی سب سے بڑی رقم ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے مختص کی ہے۔ خصوصی توجہ سڑکوں کے شعبے پر مرکوز کی گئی ہے۔ وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر کراچی سے چمن جانے والی بلوچستان کی 813 کلومیٹر طویل 25-N شاہراہ جو کراچی، بیلہ، خضدار، قلات، کوئٹہ اور چمن سے گزرتی ہوئی افغانستان تک جاتی ہے، کی دو رویہ تعمیر کے لیے ایک سو (100) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ شمال جنوب موٹروے نیٹ ورک کی تکمیل اور connectivity کی غرض سے 6-رویہ سکھر-حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کے لیے پندرہ (15) ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ تھر کول ریل connectivity project کی بروقت تکمیل کے لیے سات (7) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ Maritime sector میں، گڈانی شپ بریکنگ کی سہولیات کی اپ گریڈیشن کے منصوبے کو بھی اہمیت دی گئی ہے اور اس کے لیے 1.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گوادر پورٹ انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے PSDP سے امداد کا تسلسل برقرار رکھا گیا ہے۔ صوبائی ٹرانسپورٹ منصوبوں کے لیے مالیاتی خلا کو پورا کرنے کے لیے بھی امداد جاری رکھی گئی ہے اور صوبائی منصوبوں کے لیے نمایاں فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکنے کی دھمکی دی ہے۔ بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پانی پاکستان کی بقا کا ضامن ہے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے بھارت کے ناپاک عزائم کا بھرپور توڑ کیا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم اپنے Water Resevoirs میں جنگی بنیادوں پر اضافہ کریں۔ حکومت محدود وسائل کے باوجود پانی کے ذخائر کے منصوبوں پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔ جلد ہی اس حوالے سے ایک تفصیلی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت، فوڈ سیکورٹی، پہاڑی ندی نالوں سے آنے والے طغیانی ریلوں کی روک تھام، سیلاب کی روک تھام کے اقدامات اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان نے نیشنل واٹر پالیسی 2018 کے تحت جامع آبی وسائل کے نظم ونسق کے طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف اہداف مقرر کیے ہیں جن میں water storage میں 10 ملین ایکڑ فٹ کا اضافہ، پانی کے ضیاع میں 33 فیصد کمی، water use efficiency میں 30 فیصد اضافہ، اور سندھ طاس آبپاشی نظام کی real time discharge monitoring شامل ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ سال اُنسٹھ (59) آبی منصوبوں میں سے چونتیس (34) منصوبے مکمل کیے گئے جن کی مجموعی لاگت دوسو پچانوے (295) ارب روپے رہی۔ موجودہ مالی سال میں آبی وسائل ڈویژن کے لیے کل ایک سو تینتیس (133) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جن میں چونتیس (34) ارب جاری آبی منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کے لیے ایک سو دو (102) ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں سے پچانوے (95) ارب روپے پندرہ (15) اہم منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو پانی ذخیرہ کرنے، سیلاب سے تحفظ، انڈس بیسن پر ٹیلی میٹری سسٹم اور پانی کے تحفظ سے متعلق ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 32.7 ارب روپے، مہمند ڈیم کے لیے 35.7 ارب روپے، کراچی bulk واٹر سپلائی (K-IV) منصوبے کے لیے 3.2 ارب روپے، کلری باغار فیڈر کینال کی lining کے لیے 10 ارب روپے، اور انڈس بیسن سسٹم پر ٹیلی میٹری سسٹم کے لیے 4.4 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح پٹ فیڈر کینال کے لیے 1.8 ارب روپے اور کچھی کینال flood damages project کے لیے 69 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آواران، پنجگور، گروک، اور گیشکور ڈیمز کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت اس امر کے لیے پر عزم ہے کہ تمام شہریوں کو سستی اور قابلِ اعتماد انرجی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مالی سال 26-2025 کے ترقیاتی پروگرام میں انرجی سیکٹر کی 47 ترقیاتی اسکیموں کے لیے 90.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مختص رقم کا ایک بڑا حصہ بڑے پن بجلی منصوبوں سے بجلی کی ترسیل کے لیے مختص ہے، جیسے Terbela 5th Extension HPP کے لیے 84 کروڑ روپے، داسو پن بجلی منصوبہ کے لیے 10.9 ارب روپے، سوکی کناری کے لیے 3.5 ارب روپے اور مہمند پن بجلی منصوبے کے لیے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں بجلی کی ترسیل کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے 500 کے وی مٹیاری-مورو- رحیم یار خان ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے 1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نمایاں مختص رقوم میں 4.4 ارب روپے علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی گرڈ اسٹیشن کے لیے اور 1.1 ارب روپے قائد اعظم بزنس پارک کے 220 کے وی گرڈ اسٹیشن کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کے تقسیم کے نظام کو جدید بنانے کے لیے 100 اور 200 کے وی اے ٹرانسفارمرز پر Asset Performance Management System کی تنصیب کے لیے 1.6 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ IESCO میں ایڈوانس میٹرنگ انفراسٹرکچر منصوبے کے لیے 2.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کو 1.8 ارب روپے، حیدر آباد الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 1.9 ارب روپے اور پشاور الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 2.4 ارب روپے دیے جائیں گے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ واپڈا کی جانب سے شروع کیے گئے صاف، قابل تجدید اور پن بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے لیے 67.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کلیدی اقدامات میں 2,160 میگاواٹ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (مرحلہ -1) شامل ہے جس کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تربیلا پانچویں توسیعی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 3.4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ مہمند ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 35.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی توانائی کی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے ان علاقوں میں پن بجلی کی پانچ اسکیموں کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ان سکیموں میں ضلع نیلم آزاد جموں و کشمیر میں 48 میگاواٹ جاگران II اور 40 میگاواٹ ڈواریان ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ ضلع گلگت میں 26 میگاواٹ شگر تھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سکردو، 16 میگاواٹ نلتر III اور 20 میگاواٹ ہنزل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں علاقائی گرڈز بنانے کے فیز 1 کے لیے 1.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس کا مقصد چار اضلاع گلگت، ہنزہ نگر، سکردو اور استور میں بجلی کی طلب کو پورا کرنا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت پاکستان زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں ہے اور زرعی شعبے کی ترقی کے لیے مستعدی کے ساتھ کئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن میں Green Pakistan Initiative شامل ہے جس کے تحت جدید کاشتکاری کے طریقوں اور قابل کاشت زمین کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ دیگر اہم اقدامات میں پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، پیداوار کے فرق کو پورا کرنے، فصلوں میں تنوع لانے اور کسانوں کی منڈیوں تک رسائی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے صلاحیت سازی، genetic improvement، اور post harvest processes پر بھی زور دیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین میں 1,000 زرعی گریجویٹس کی صلاحیت سازی کے لیے وزیر اعظم کے اقدام کے تحت مختلف صوبوں اور خطوں سے نوجوان پاکستانی زرعی گریجوئیٹس کو ایک مکمل funded تربیتی پروگرام کے تحت چین بھیجا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں 300 زرعی گریجوائٹس کا batch جا چکا ہے اور مزید 300 زرعی گریجوائٹس اسی مہینے کے آخر تک چین پہنچ جائیں گے جہاں انہیں ماڈرن اسکلز اور international exposure ملے گا اور ان کی صلاحیتوں کو زرعی شعبے کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تربیتی پروگراموں کے علاوہ مالی سال 2025-26 میں، کپاس اور livestock کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ، دس جاری اسکیموں کو جاری رکھنے اور پانچ نئے منصوبے شروع کرنے کے لیے 4 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ سب سے اہم شعبوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہی شعبہ تربیت یافتہ resource human فراہم کرتا ہے جو عمومی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے علاوہ ملکی صنعت کی برآمدات میں اضافہ کے لیے بھی اہم ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی مد میں ایچ ای سی کو 170 منصوبوں کے لیے 39.5 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ ان میں 38.5 ارب روپے جاری منصوبوں کے لیے ہیں۔ ان وسائل سے جاری اسکیموں کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم کی اسکیم کے تحت جسمانی مسائل سے دوچار نوجوانوں کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لیے الیکٹرک وہیل چیئرز، customized laptops اور آڈیو ویژول ایڈز فراہم کی جائیں گی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا مقصد knowledge based economic growth کو فروغ دیتے ہوئے innovation, competitiveness اور انسانی وسائل کی ترقی کو بڑھانا ہے۔ یہ تمام مقاصد اڑان پاکستان اور نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان کے ای۔ پاکستان component میں شامل ہیں۔ Science & Technology کے لیے مالی سال 26-2025 میں 31 جاری اسکیموں کے لیے 4.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ PV ماڈیولز کے لیے پاک۔کوریا ٹیسٹنگ فسیلیٹی کے قیام، سیمی کنڈکٹر چپ ڈیزائن Facilitation Center، Printed Circuit Board (PCB) فسیلٹی کی اپ گریڈیشن اور Medical Cannabis Green کے لیے Biotechnology Derived Bioproducts Houses کے قیام جیسی اہم جاری اسکیموں کو مکمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ تعلیم قومی ترقی کا سنگ بنیاد ہے، اور حکومت نے آئین کے آرٹیکل 25-A اور URAAN پاکستان ایجوکیشن فریم ورک کے مطابق معیاری تعلیمی نظام کے قیام کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ملک کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں 26 ملین اسکول سے باہر بچے، اور Access، مساوات، Governance اور تعلیمی معیار جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنا انتہائی اہم ہے اور اس سال کے حکومتی اقدامات ان gaps کو پُر کرنے کی ایک جامع حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر پسماندہ علاقوں کے ہونہار طلباء کے لیے دانش سکولوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ گیارہ نئے دانش سکولوں کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جن میں سے تین آزاد جموں و کشمیر میں، تین گلگت بلتستان میں، چار بلوچستان میں، اور ایک اسلام آباد میں وفاقی پی ایس ڈی پی 26-2025 کے تحت قائم کرنے کے لیے کل 9.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ اقدام پسماندہ علاقوں میں جدید تعلیم اور تربیت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے اعلیٰ درجے کے سیاسی عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے کم وسائل رکھنے والے طلبہ کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے دانش یونیورسٹی اسلام آباد کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو دانش اسکول منصوبے کا تسلسل ہے۔ یہ یونیورسٹی دور دراز اور پسماندہ علاقوں کے طلبہ کو بین الاقوامی معیار کی بلا معاوضہ اعلیٰ تعلیم فراہم کرے گی، خصوصاً ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، انجینئرنگ، تعلیم، صحت اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں۔ منصوبے میں جدید انفراسٹرکچر، تربیت یافتہ فیکلٹی، تحقیقی سہولیات اور مساوی مواقع کی فراہمی شامل ہے۔ آئندہ مالی سال میں یونیورسٹی کی ماسٹر پلاننگ، تعلیمی و رہائشی بلاکس کی تعمیر، اور بنیادی عملے کی بھرتی کی جائے گی۔ یہ اقدام نہ صرف تعلیمی ترقی بلکہ علاقائی خوشحالی، روزگار کے مواقع، اور سماجی برابری کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ تعلیم پر مرکوز اضافی منصوبوں میں Early Childhood Education کے مراکز، کمپیوٹر لیبز اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایکسی لینس کا قیام شامل ہے۔ ان کا مقصد تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانا، بچوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح کو کم کرنا، اور مجموعی تعلیمی معیار کو بڑھانا ہے۔ ان کاوشوں کے لیے وفاقی پی ایس ڈی پی میں مجموعی طور پر 18.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ سندھ میں 2022 کے سیلاب سے متاثرہ موجودہ اسکولوں کی تعمیر / تعمیر نو کے لیے وزیر اعظم کے پروگرام کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس میں 50:50 cost sharing basis پر 1,800 اسکول یونٹس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ اقدام صوبوں میں تعلیمی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور مضبوطی کے لیے وفاقی حکومت کی مسلسل حمایت کی عکاسی کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مزید برآں، وزیر اعظم یوتھ سکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 4.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت 161,500 نوجوانوں کو skills training فراہم کی جائے گی، جن میں 56,000 کو آئی ٹی، 64,000 کو انڈسٹریل trades اور 49,000 کو روایتی trades میں تربیت دی جائے گی۔ ان میں سے 2,500 نوجوانوں کا تعلق فاٹا کے نئے ضم شدہ اضلاع سے ہوگا۔ مزید برآں Urban Sindh کے علاقوں میں آٹھ نئے آئی ٹی ٹریننگ سینٹرز قائم کیے جائیں گے تاکہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آئی ٹی گریجویٹس کی employability کو بہتر بنایا جا سکے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ مالی سال 26-2025ء کے لیے، وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) میں صحت کے شعبے کے 21 اہم منصوبوں کے لیے 14.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے بیماریوں پر قابو پانے، صحت کی دیکھ بھال کے infrastructure کو جدید بنانے، اور تمام شہریوں کے لیے preventive care اور quality علاج معالجے تک یکساں رسائی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں میں نمایاں جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سینٹر، اسلام آباد کے لیے 4 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس رقم کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں ایک فلیگ شپ tertiary کیئر اور teaching facility کا قیام ہے۔ صحت کے سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم پروگرام کے تحت ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے ملک گیر screening اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اسی طرح غیر متعدی امراض کی بڑھتی ہوئی لہر سے نمٹنے کے لیے شوگر کی روک تھام اور کنٹرول کے پروگرام کو 80 کروڑ فراہم کیے جائیں گے تاکہ صحت عامہ کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ حکومت نے اسلام آباد کے کینسر ہسپتال کے قیام کے لیے 1.7 ارب روپے اور ضروری آلات کی خریداری کے لیے 90 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اس کے علاوہ PIMS اسلام آباد میں ایک جدید ترین stroke intervention centre کے قیام اور critical care اور کارڈیک facilities کی توسیع کے لیے 90 کروڑ مختص کیے جائیں گے تاکہ emergency response capability اور دل اور فالج کے مریضوں کے بچاؤ کو بہتر بنایا جا سکے۔ یہ اسٹریٹجک سرمایہ کاری ایک resilient، جامع اور پائیدار صحت کے نظام کی تشکیل کے لیے حکومت کے عزم کی توثیق کرتی ہے جو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی عکاس ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ PSDP کے لیے وسائل کی گنجائش کو سامنے رکھ کر وفاقی حکومت کو متوازن علاقائی ترقی کو یقینی بنانے اور ترقیاتی خلاء کو دور کرنے کے لیے آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کی ترقیاتی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں، وفاقی حکومت نے 2025-26 PSDP میں کل 164 ارب روپے مختص کیے ہیں، جن میں سے AJ&K کے لیے 48 ارب روپے، گلگت بلتستان کے لیے 48 ارب روپے اور خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے 68 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگراموں اور مختلف انفرادی منصوبوں کے لیے مختص کیے ہیں جو ان علاقوں میں متعلقہ governments اور وفاقی انتظام کے تحت ایجنسیوں میں زیر عمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور کے پی کے ضم شدہ اضلاع کے لیے ADPs کی تشکیل کے لیے block allocations فراہم کرتی ہے۔ وفاقی حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کے ADP کے لیے 32 ارب روپے، گلگت بلتستان کے ADP کے لیے 22 ارب روپے اور ضم شدہ اضلاع اور سابق دس سالہ فاٹا پلان کے لیے 65 ارب روپے فراہم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی پیکیج کے طور پر 5 ارب روپے اور GB کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی پیکیج کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ یہ فنڈز مالی سال 26-2025 کے دوران متعلقہ حکومتوں کی طرف سے identify کیے جانے والے ترجیحی اقدامات / منصوبوں پر استعمال کیے جائیں گے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ گورننس مختلف شعبوں پر اثر انداز ہونے والا مسئلہ ہے، اس لیے عوامی خدمات کی مؤثر فراہمی کے مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے شاید سب سے اہم عنصر ہے۔ 26-2025 میں گورننس سیکٹر کے لیے 11.0 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔ موجودہ مخلوط حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے، جدت اور process reengineering، اداروں کی capacity enhancement، پرفارمنس منیجمنٹ، عوامی خدمات کی فراہمی اور ادارہ جاتی/عوامی شعبے کی اصلاحات جیسے focused areas میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ میں ایوان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے جو سب سے فوری مسائل کی نشاندہی کی تھی ان میں محصولات کی وصولی میں مسلسل کمزوری شامل تھی۔ 30 جون 2024 کو ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب صرف 8.8 فیصد تھا۔ موجودہ حکومت کی کوششوں سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، اس مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بڑھ کر 10.3 فیصد ہو گیا ہے اور توقع ہے کہ جون 2025 کے آخر تک یہ مزید بڑھ کر 10.4 فیصد ہو جائے گا۔ وفاقی نان ٹیکس محصولات بھی گزشتہ سال کے 0.8 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر جی ڈی پی کا 1.2 فیصد ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر، وفاقی محصولات اب جی ڈی پی کا 11.6 فیصد ہیں اور اگر ہم صوبوں کے 0.7 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو شامل کریں تو رواں مالی سال کے اختتام تک قومی ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 12.3 فیصد ہو جائے گا۔ ایف بی آر کے ٹیکسوں میں ایک سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں 1.6 فیصد تک کا اضافہ نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں بے مثال ہے بلکہ حالیہ تاریخ میں دنیا کے دیگر حصوں میں بھی بہت کم دیکھا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب میں اس ایوان کے سامنے مالی سال کے اہم ٹیکس پالیسی اقدامات پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہم اُس جگہ ریلیف دے رہے ہیں جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کے بوجھ کو کم سے کم کیا جائے۔ اسی حوالے سے تنخواہ دار لوگوں کے لیے آمدنی کے تمام slabs میں انکم ٹیکس کی شرحوں میں نمایاں کمی کی تجویز ہے۔ یہ ریلیف نہ صرف ٹیکس کے ڈھانچے کو آسان بنائے گا بلکہ متوسط آمدنی والوں پر عائد ٹیکس کے بوجھ کو کم کر کے، انفلیشن اور Take home تنخواہ کے درمیان توازن کو یقینی بنائے گا۔ چھ لاکھ روپے سے بارہ لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کر کے صرف 1 فیصد کر دی گئی ہے۔ بارہ لاکھ آمدنی والے تنخواہ دار پر ٹیکس کی رقم کو 30,000 سے کم کر کے 6,000 کر دینے کی تجویز ہے۔ جو لوگ 22 لاکھ روپے تک تنخواہ لیتے ہیں اُن کے لئے کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح زیادہ تنخواہیں حاصل کرنے والوں کے لئے بھی ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجویز دی جارہی ہے۔ بائیس لاکھ روپے سے بتیس لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ یہ اقدام ٹیکسوں کو منصفانہ بنانے اور ٹیکس ادا کرنے والے تنخواہ دار افراد پر بوجھ کو کم کرنے کے حکومتی عزم کا آئینہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح حکومت کو اس بات کا علم ہے کہ ملک کی بہترین پیشہ ور افرادی قوت کو اس خطے میں سب سے زیادہ ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ انتہائی باصلاحیت افراد ملک سے باہر منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ملک سے Brain Drain کو روکنے کے لئے ایک کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والے افراد پر عائد سرچارج میں 1 فیصد کمی کی تجویز ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر پر عائد ٹیکسوں کی شرح بلند سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس وقت کارپوریشنوں پر عائد ٹیکس کی شرح پورے خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ حکومت کے پختہ عزم کے تحت Targeted Relief مہیا کرنے اور ایک متوازن اور معاشی ترقی کے لئے موزوں کارپوریٹ Tax Regime متعارف کرانے کے لیے یہ تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔ بیس کروڑ روپے سے پچاس کروڑ روپے تک سالانہ آمدنی حاصل کرنے والی کارپوریشنز کے لئے سپر ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد کی کمی تجویز کی جارہی ہے۔ یہ رعایت کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کے حکومتی ارادے کی عکاسی کرتی ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں تعمیرات کے شعبہ کا بہت اہم حصہ ہے۔ ہمارے بڑے پیمانے کی صنعتی پیداوار (Large Scale Manufacturing) تعمیرات کے شعبے پر منحصر ہے۔ تاہم بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے اس شعبے کی اقتصادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے جائیداد کی خریداری پر Withholding Tax کی شرح 4 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد اور 3.5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد اور 3 فیصد سے کم کر کے 1.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی 7 فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور mortgage کی حوصلہ افزائی کے لیے دس مرلے تک کے گھروں اور 2000 sq ft تک کے فلیٹس پر Tax Credit متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت mortgage financing کو پروموٹ کرے گی اور اس سلسلے میں ایک جامع نظام متعارف کرایا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ مزید برآں اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر سٹامپ پیپر ڈیوٹی 4 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کرنے کی تجویز ہے تاکہ گھروں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ ہمیں امید ہے کہ صوبے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی پر عائد بھاری ٹیکسوں میں کمی کریں گے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ان اقدامات کی وجہ سے ہاؤسنگ سیکٹر میں تیزی آئے گی اور یہ شعبہ معیشت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت ٹیکس کے نظام میں مساوات کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات متعارف کرا رہی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں کمانے والے لوگ اپنی تنخواہ اور کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں وہاں غیر فعال طریقے سے کمانے والے اور قرض پر منافع حاصل کرنے والے نسبتاً کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لیے مساوات کو یقینی بنانے کے لیے interest income پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ تاہم چھوٹے پیمانے پر بچت کرنے والے اور اس آمدنی پر انحصار کرنے والوں پر اس شرح کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ یہ شرح قومی بچت کی سکیموں پر عائد نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ آن لائن کاروبار اور Digital Marketplaces کی تیزی سے ترقی کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا ہے جس سے دستاویزی کاروبار کرنے والے Retailers کو نقصان ہو رہا ہے۔ ای-کامرس پلیٹ فارمز اور کورئیر سروس مہیا کرنے والے، Digital طور پر منگوائی جانے والی اشیاء اور خدمات پہنچانے پر ٹیکس کاٹیں گے۔ اس اقدام سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی Digital معیشت محصولات میں اپنا حصہ شامل کرے۔ آن لائن Market places، کورئیر سروس اور ادائیگی میں معاونت کرنے والے اداروں پر لازم ہو گا کہ وہ ہر ماہ اپنا Transaction Data اور وصول کیے جانے والے ٹیکس کی رپورٹ جمع کرائیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ میوچل فنڈز پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کی تجویز ہے۔ اگرچہ حصص پر حاصل ہونے والے منافع کی شرح 15 فیصد رہے گی تاہم قرض کی بنیاد پر ہونے والی آمدنی پر اب 25 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے تاکہ حصص کی مارکیٹ میں میوچل فنڈز میں سرمایہ کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ اس تجویز کا مقصد یہ ہے کہ میوچل فنڈز اپنے وسائل کا رُخ حصص کے کاروبار کی طرف موڑیں۔
انہوں نے کہا کہ کاروباری برادری کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ لوگوں پر اُن کے ذرائع آمدنی کے بجائے صرف آمدنی کی بنیاد پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس لئے صوبائی حکومتیں بھی زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس کی شرح پر ٹیکس وصول کر رہی ہیں اسی طرح سے 70 سال سے کم عمر وہ پنشنرز جو سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن وصول کر رہے ہیں اُن کی ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن کی آمدنی پر 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے تاکہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کی جا سکے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حکومت کم اور درمیانی پنشن وصول کرنے والوں پر ٹیکس عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ Cashless Economy کو فروغ دینے کے لیے یہ ٹیکس اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔ نان فائلرز کے لیے نقد رقم نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 1 فیصد کرنے کی تجویز ہے تاکہ غیر دستاویزی نقد لین دین کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ جہاں کوئی ٹیکس دہندہ کسی ایک Sale invoice پر دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم نقد وصول کرے تو اس فروخت پر ہونے والے اخراجات کے 50 فیصد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس سلسلے میں اگلے مالی سال کے دوران مزید اقدامات لیے جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم خامیوں کو دور کرنے، مساوات کو بہتر بنانے اور ٹیکس قوانین کی پاسداری کو آسان بنانے کے لیے ضروری اصلاحات کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ تجارتی جائیدادوں سے ہونے والی کرایہ کی آمدنی اب فیئر مارکیٹ ویلیو کے 4 فیصد کی معیاری شرح کی بنیاد پر تسلیم کی جائے گی۔ اس طرح سے ٹیکس حکام کے صوابدیدی اختیارات محدود ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اپیلوں کا طریقہ کار بھی معقول بنایا جا رہا ہے۔ ٹیکس دہندگان اپنی اپیلیں کمشنر (اپیلیز) یا براہ راست Appellate Tribunal کو پیش کر سکیں گے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ Data Analytics کو فروغ دینے، یعنی Tax Policy and Analysis پالیسی کی تیاری میں معاونت کے ضمن میں ایف بی آر، قانون میں رازداری کی شقوں کی وجہ سے ریسرچ کرنے والوں کو ڈیٹا مہیا کرنے میں انتہائی سخت پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ شاید یہ پاکستان میں ٹیکس پالیسی اور اس کے اقتصادی اثرات کے حوالے سے کوئی معیاری تحقیق نہ ہونے کی ایک وجہ ہے۔ معیاری تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ٹیکس دہندگان کا ڈیٹا مناسب حفاظتی اقدامات کے ساتھ تعلیمی اداروں اور Donor Agencies کے ساتھ شئیر کیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر کے درمیان تنازعات کو کم کرنے کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس کے ساتویں شیڈول کو بہتر بنانے کی تجویز ہے۔ جس کا تعلق تجارتی بینکوں پر عائد ٹیکسوں سے ہے۔ توقع ہے کہ ان تبدیلیوں سے ٹیکس کا نظام منصفانہ اور مساویانہ ہو سکے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ کاروبار کرنے کی لاگت کو کم کرنے اور موجودہ تجارتی طور طریقوں کو اپنانے کے لیے ٹیکس قوانین میں جہاں Cross Cheque کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان میں آن لائن transaction اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے کی جانے والی ادائیگیوں کو بھی شامل کرنے کی تجویز ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ میں اس معزز ایوان کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ ہم ایسے اقدامات تجویز کرنا چاہتے ہیں جن سے Enforcement بہتر بنائی جا سکے، ٹیکس چوری کا خاتمہ کیا جا سکے اور ٹیکس کے نظام میں دیانت داری کو فروغ دیا جا سکے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انکم ٹیکس کے حوالے سے ایک نیا Classification System متعارف کرایا جا رہا ہے جس میں Filers and Non-Filers کے فرق کا خاتمہ کیا جا سکے۔ جو لوگ اپنے گوشوارے اور اپنی Wealth Statement جمع کروائیں گے صرف وہی بڑے مالیاتی لین دین کر سکیں گے۔ جن میں گاڑیوں اور غیر منقولہ جائیداد کی خریداری، سیکورٹیز اور میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری اور بعض بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت جیسی چیزیں شامل ہیں۔ ان لوگوں کے لئے ضروری ہو گا کہ ایف بی آر کے پورٹل کے ذریعے اپنی مالی حیثیت اور آمدنی، تحائف، قرضے اور وراثت جیسے مالی ذرائع کے دستاویزی ثبوت ظاہر کریں۔ دیانت دار ٹیکس دہندگان کو مالیاتی لین دین کرنے کا اہل ہونے کے لیے ٹیکس کا گوشوارہ بھرنے کا Option دیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ شیڈول بینکوں اور ایف بی آر کے درمیان بینکاری اور ٹیکس کے حوالے سے معلومات کے تبادلے کے لیے قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ جس سے خامیوں کی نشاندہی اور ٹیکس قوانین کی پاسداری بہتر ہو سکے گی۔ ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے اور Enforcement کو بہتر بنانے کے لیے بیرونی آڈیٹرز کی خدمات Contract پر یا Third parties کی وساطت سے حاصل کرے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اب میں سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترامیم کی تجاویز کی طرف آتا ہوں۔ سیلز ٹیکس کے نظام میں مساوات لانے اور اس کی دیرینہ خرابیوں کو دور کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات تجویز کیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ سولر پینلز کے درمیان مسابقت میں برابری کو یقینی بنانے کے لیے تجویز ہے کہ سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے۔ یہ اقدام پاکستان میں سولر پینلز کی مقامی صنعت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ آن لائن کاروبار اور Digital Market Places کی تیزی سے ترقی نے ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والے روایتی کاروباروں کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ معیاری مسابقتی فضا پیدا کرنے اور ٹیکس قوانین کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانے کے لئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ E-Commerce Platforms کی طرف سے ترسیل کرنے والے کورئیر اور Logistics خدمات فراہم کرنے والے ادارے 18 فیصد کی شرح سے اِن E-Commerce Platforms سے سیلز ٹیکس وصول کر کے جمع کرائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرنے والی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لانے کے لیے، یہ تجویز دی جاتی ہے کہ 18 فیصد ٹیکس سے کم شرح والی گاڑیوں پر بھی 18 فیصد عمومی سیلز ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس اصلاحی اقدام سے تضادات کا خاتمہ ہوگا اور ٹیکس کی ادائیگی کے عمل کو آسان بنایا جا سکے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ سات برسوں سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نئے ضم شدہ اضلاع کو ٹیکس میں مکمل چھوٹ حاصل رہی ہے۔ ان علاقوں میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے پیش نظر، ٹیکس کی یہ چھوٹ ملک کے دیگر علاقوں میں کاروبار کرنے والوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ لہٰذا تجویز دی جاتی ہے کہ ان علاقوں میں آئندہ پانچ سال کے دوران اشیاء پر مرحلہ وار سیلز ٹیکس نافذ کیا جائے، جس کا آغاز آئندہ مالی سال کے لیے 10 فیصد کی کم شرح سے کیا جائے گا۔زرعی شعبہ
ان کا کہنا ہے کہ زرعی شعبہ نہ صرف ہماری قومی معیشت میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے بلکہ ہماری اقتصادی ترقی کے لیے محرک قوت کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ جب فصلیں اچھی ہوتی ہیں تو ہماری مجموعی ملکی پیداوار (GDP) میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، اور جب زرعی پیداوار کم ہو تو معیشت جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ زرعی شعبہ ہمارے قومی غذائی تحفظ کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ زرعی شعبے کو ہماری معیشت کا engine of growth بنایا جائے۔ وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق اس سال کھاد اور کیڑے مار ادویات پر مزید ٹیکس نہیں عائد کیا جا رہا جس کے لیے ہم IMF کے تعاون کے بھی شکر گزار ہیں۔ہم سیلز ٹیکس میں چوری کو روکنے کے لئے سخت اقدامات متعارف کرارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر رجسٹرڈ کاروباروں کے خلاف سخت سزاؤں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے ان میں بینک اکاؤنٹس کا منجمد کرنا، جائیداد کی منتقلی پر پابندی اور سنگین جرائم میں کاروباری جگہ کو سیل (Seal) کرنا اور سامان کو ضبط کرنا شامل ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ان تمام اقدامات سے قبل اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ متعلقہ قانونی تقاضے پورے کئے جائیں، جن میں پبلک نوٹس، متعلقہ نگران کمیٹی (جس میں متعلقہ تجارتی چیمبر کا نمائندہ بھی شامل ہوگا) کے سامنے سماعت کا موقعہ اور 30 دن کے اندر اپیل کا حق شامل ہوگا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ Input Tax System کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے Automated risk-based input tax adjustments متعارف کرائی جائیں گی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ موجودہ انکم ٹیکس کا نظام سرحد پار بڑھتے ہوئے E-Commerce کے شعبے پر ٹیکس کا اطلاق مؤثر انداز میں نہیں کر پا رہا۔ خصوصاً ان غیر ملکی تاجروں (Vendors) پر جو ویب سائٹس اور Software applications کے ذریعے آرڈر کی گئی اشیاء اور خدمات فروخت کر رہے ہیں اور کورئیرز کے ذریعے سامان کی ترسیل پر Cash on Delievery کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کئی ممالک کے ساتھ دو طرفہ ٹیکس معاہدوں کے تحت، اگر کسی غیر ملکی کمپنی کا پاکستان میں مستقل کاروباری مقام (Permanent Establishment) نہ ہو، تو اس صورت میں یہاں ان کی آمدنی پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ لہٰذا صرف اُن غیر ملکی Vendors پر ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے جن ممالک کے ساتھ پاکستان کے ایسے کوئی معاہدے موجود نہیں ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس ضمن میں کئی ممالک پہلے ہی "Digital Services Tax" متعارف کروا چکے ہیں تاکہ اُن غیر ملکی تاجروں سے ٹیکس وصول کیا جا سکے، جو غیر ملک میں رہتے ہوئے مقامی مارکیٹ میں محض اپنی Digital presence کی بنیاد پر چیزیں فروخت کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا مؤقف ہے کہ مستقل کاروباری مقام کا پرانا تصور اب ان کے ٹیکس نافذ کرنے کے حق کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ تاہم سرحد پار فروخت کئے گئے سامان پر جو E-Commerce کے ذریعے سپلائی ہوتا ہے، اب بھی ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر ٹیکس کے معاملات پر عالمی معاہدے کی فوری ضرورت ہے تاکہ ٹیکس نافذ کرنے کے حقوق ملکوں کے مابین منصفانہ طور پر دیے جا سکیں، اور مستقل کاروباری مقام کے تصور کو نئی جہتوں کے ساتھ اپنایا جا سکے۔ ایسے کسی عالمی معاہدے تک پہنچنے سے قبل کے عبوری دور میں غیر ملکی تاجروں کی جانب سے پاکستان میں فروخت ہونے والی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس نہ دینے کا حل نکالنے کے لیے ایک نیا قانون تجویز کیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس بل کے تحت "Digital Presence" سے حاصل شدہ آمدنی پر ٹیکس کا قانون متعارف کرایا جارہا ہے، جس کے تحت پاکستان کے دائرہ اختیار میں غیر ملکی تاجروں کی جانب سے فروخت کی گئی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت تمام ادارے بشمول بینک، مالیاتی ادارے، لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیاں اور دیگر ادائیگی کے ذرائع اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ پاکستان میں باہر سے اشیاء اور خدمات فراہم کرنے والے غیر ملکی تاجروں کو کی جانے والی ڈیجیٹل ادائیگیوں پر 5 فیصد ٹیکس وصول کریں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کے تحت Enforcement کے شعبے میں درج ذیل اقدامات تجویز کیے جا رہے ہیں:
٭ یہ تجویز ہے کہ وہ اشیاء جن پر Origianl Tax Stamps یا Barcodes موجود نہ ہوں، انہیں Track & Trace System کے تحت فوری طور پر بحق سرکار ضبط کیا جائے گا۔
٭مزید یہ کہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں ایف بی آر کی محدود موجودگی کے پیش نظر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت Enforcement کے اختیارات مخصوص صوبائی افسران کو باقاعدہ (SOPs) کے تحت تفویض کیے جا رہے ہیں، تاکہ بالخصوص بغیر ڈیوٹی ادا شدہ تمباکو کی اسمگلنگ پر مؤثر طریقے سے قابو پایا جا سکے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ان اقدامات سے ہمارا مقصد ایسا جدید، منصفانہ اور مؤثر ٹیکس نظام تشکیل دینا ہے جو ترقیاتی اہداف کے حصول میں معاون ثابت ہو اور ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والوں پر کوئی ناروا بوجھ نہ ڈالے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات واضح پیغام دیتے ہیں کہ قانون کی پابندی کرنے والے افراد اور کمپنیوں کو سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ٹیکس چوری کرنے والوں کا مؤثر احتساب کیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ میں اس معزز ایوان کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ یہ اصلاحات کسٹمز کے شعبے میں بھی متعارف کرائی جارہی ہیں۔ جس بصیرت اور سوچ کے تحت ٹیکس نظام کو جدید بنایا جا رہا ہے، اسی بصیرت کے تحت Border Enforcement، تجارت میں آسانی اور ٹیرف پالیسی کو بھی از سر نو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اب کسٹمز صرف سرحدوں پر نگرانی تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک جدید، ڈیٹا پر مبنی ادارہ بن رہا ہے جو ملکی معیشت کا تحفظ اور صنعت کی معاونت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ اشیاء کی Pre-Arrival Clearance کو فروغ دینے، بندرگاہوں پر کلئیرنس میں لگنے والے وقت اور مقدمات (Litigation) میں کمی لانے کے لئے قانونی ترامیم کی جا رہی ہیں۔ یہ تمام اقدامات کسٹمز کو ایک شفاف، مؤثر، اور ٹیکنالوجی سے آراستہ ادارہ بنانے کی وسیع تر بصیرت اور سوچ کا حصہ ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم صرف طریقہ کار کی اصلاحات نہیں کر رہے بلکہ اپنے ریاستی معاشی معاہدے کی بنیادوں کی بھی از سر نو تشکیل کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلی Ad-hocism سے مستقل نظام، مراعات کے بجائے کارکردگی اور خاموشی کے بجائے احتساب کی طرف منتقلی ہے۔ ہم ایک ایسا مضبوط، ڈیجیٹل طور پر مربوط اور Enforcement پر مبنی ٹیکس نظام مرتب کر رہے ہیں جو قانون کی پاسداری کو فروغ دے، ٹیکس چوری کے راستے بند کرے، اور ہماری اقتصادی خود مختاری کو یقینی بنائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحات آسان نہیں، مگر نہایت ضروری ہیں۔ ہم ایک ایسے ٹیکس نظام کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو منصفانہ، شفاف، اور پاکستان کے عوام کے لیے قابل اعتماد ہو۔ ہم اپنے اس مقصد میں نہایت واضح اور پر عزم ہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ Fossil fuel کے زیادہ استعمال کی حوصلہ شکنی اور موسمیاتی تبدیلی اور Green Energy Programs کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کے لیے، یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ مالی سال 2025-26 کے لیے پٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل اور Furnace Oil پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے Carbon Levy عائد کی جائے، جو مالی سال 27-2026 میں بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ Furnace Oils پر پیٹرولیم لیوی بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ شرح کے مطابق عائد کی جائے گی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبہ پر ناقابلِ برداشت گردشی قرضوں کا بوجھ ہے جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر دو ہزار تین سو ترانوے (2,393) ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس گردشی قرضے پر KIBOR کے علاوہ 2 فیصد سے 5.4 فیصد تک مالیاتی چارجز عائد ہوتے ہیں، اور مالی سال 2025 میں اس کی متوقع لاگت چار سو چون (454) ارب روپے تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ وفاقی حکومت کا ارادہ ہے کہ موجودہ مہنگے قرضوں کی Refinancing سستے اور شریعت کے مطابق بینک فنانسنگ کے ذریعے کی جائے۔ اس طرح موجودہ قرض کی ادائیگی کے لئے Debt Servicing Surcharge کو صرف منافع یا مارک اپ کے لیے نہیں بلکہ اصل قرض کی ادائیگی کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نیپرا ایکٹ میں ایک ترمیم تجویز کی جا رہی ہے جس سے وفاقی حکومت کو DSS پر 10 فیصد سرچارج ادا کرنے کی پابندی کو کیس ٹو کیس بنیاد پر مخصوص مدت اور مقصد کے لیے بڑھانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ دو اور تین پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے حکومت پاکستان نے نئی Energy Vehicle Policy تیار کی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے بجائے الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دینا ہے۔ تاکہ ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔ اس پالیسی کے تحت گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے کے لیے ایک لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے جو معدنی تیل استعمال کرنے والی گاڑیوں کی فروخت اور درآمد پر انجن کی طاقت کے مطابق مختلف درجوں پر لاگو ہوگی۔ یہ پالیسی نہ صرف پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ ہمارے معدنی تیل کی درآمد پر انحصار کو بھی کم کرے گی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں کمی کے ساتھ ساتھ حکومت نے اپنی مالی مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمین کے لیے ریلیف اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ جن کی تفصیل یہ ہے۔
٭ وفاقی حکومت کے تمام ملازمین (گریڈ 1 تا 22) کی تنخواہ میں 6 فیصد اضافہ تجویز کیا جا رہا ہے۔
٭ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔
٭ معذور ملازمین کے لیے خصوصی کنوینس الاؤنس کو ماہانہ 4,000 ہزار سے بڑھا کر 6,000 ہزار کر دیا جائے گا۔
٭ آئین پاکستان میں مساوی حقوق سے متعلق دی گئی شق پر عمل درآمد کرتے ہوئے، تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کیا جارہا ہے۔ اہل ملازمین کو 30 فیصد کی شرح سے ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔
٭ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال خطرات سے دوچار ہے اور مسلح افواج نے سرحدوں کے تحفظ کے لیے قابلِ تحسین خدمات انجام دی ہیں۔ ان خدمات کے اعتراف میں مسلح افواج کے افسران اور سولجرز/JCOs کے لیے سپیشل ریلیف الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔ یہ اخراجات مالی سال 26-2025 کے لیے دفاعی بجٹ سے پورے کیے جائیں گے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ آخر میں، میں وزیر اعظم، نائب وزیر اعظم، کابینہ کے معزز اراکین، حکومتی اتحادی جماعتوں، اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے قابلِ احترام اراکین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مسلسل تعاون، رہنمائی اور اعتماد سے ہمیں قومی ترقی کے اس مشکل مگر ضروری سفر پر گامزن رکھا۔
انہوں نے کہا کہ میں فنانس ڈویژن، ایف بی آر، پلاننگ ڈویژن، وزارت قانون اور دیگر متعلقہ اداروں کی انتھک محنت اور پیشہ ورانہ لگن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس بجٹ کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ بجٹ محض ایک مالیاتی دستاویز نہیں بلکہ ہماری قومی ترجیحات، اجتماعی ویژن، اور عوام سے کیے گئے وعدوں کا آئینہ دار ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ میں ایک دفعہ پھر دہرانا چاہوں گا کہ ہم نے حالیہ ہفتوں میں جس طرح دشمن کی جارحیت کے خلاف یکجہتی، جرات اور قومی عزم کا مظاہرہ کیا، وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔ اسی جذبے کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے معاشی استحکام، اصلاحات اور پائیدار ترقی کی راہ اپنائی ہے۔ آج پاکستان ایک نیا سفر شروع کر رہا ہے --- ایسا سفر جو ہر فرد، ہر طبقے، اور ہر خطے کو ترقی کے ثمرات پہنچانے کا عزم رکھتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں یہاں خاص طور پر اپنی اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مشکل فیصلوں میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیا اور قومی مفاد کو ذاتی یا جماعتی مفاد پر ترجیح دی۔ یہی وہ رویہ ہے جو قوموں کو مضبوط بناتا ہے، اور یہی وہ اتحاد ہے جو پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی منزل تک لے کر جائے گا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ معاشی اصلاحات صرف اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ قومی ہم آہنگی، اتفاقِ رائے اور مسلسل محنت کا تقاضا کرتی ہیں۔ میں آج اس معزز ایوان سے، خاص طور پر حزب اختلاف کے معزز اراکین سے، یہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس قومی مقصد میں ہمارا ساتھ دیں۔ آئیں، ہم سب مل کر پاکستان کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں - ایک ایسا مستقبل جو شفافیت، شمولیت، اور پائیدار ترقی پر استوار ہو۔
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے اور پاکستان کو ترقی، امن، اور خوشحالی کا گہوارہ بنائے۔پاکستان زندہ باد
قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس سے قبل بجٹ تجاویز کی منظوری کے لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کمیٹی روم نمبر 2 میں ہوا، جس میں وفاقی کابینہ نے وفاقی بجٹ کی منظوری دی۔
بجٹ دستاویز پارلیمنٹ ہاؤس میں پہنچا دی گئیں، بجٹ دستاویز کو پولیس کی سخت سیکیورٹی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں پہنچایا گیا۔
کیا مہنگا ہو گا کیا سستا؟ کونسا نیا ٹیکس لگے گا؟ کن شعبوں سے استثنیٰ ختم کیا جائے گا، اس حوالے سے وفاقی بجٹ 26-2025ء کی دستاویز منظرِ عام پر آ گئی۔
اگلے مالی سال کےلیے تقریباً 17 ہزار 600 ارب روپے کا بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
’جیو نیوز‘ نے بجٹ دستاویز حاصل کر لی، جس کے مطابق تقریباً 2 ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد ہوں گے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق وفاقی بجٹ میں جاری اخراجات کا تخمینہ 16286 ارب روپے، قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 8207 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جبکہ پنشن کے لیے 1055 ارب روپے رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 2550 ارب روپے مختص کرنے، گرانٹس اور صوبوں کو رقم کی مد میں 1928 ارب مختص کرنے، سبسڈی کی مد میں 1186 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق سرکاری امور کو چلانے کے لیے 971 ارب روپے مختص کرنے، ایمرجنسی اور دیگر اخراجات کی مد میں 359 ارب روپے مختص کرنے، وفاقی حکومت کے ترقیاتی پروگرام کے لیے 1000 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
بجٹ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 17 ہزار 573 ارب روپے لگایا گیا ہے، مجموعی وسائل کا تخمینہ بھی 17 ہزار 573 ارب روپے لگایا گیا ہے، ایف بی آر کی ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 14 ہزار 121 ارب روپے لگایا گیا ہے، نان ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 5 ہزار 147 ارب روپے لگایا گیا ہے، مجموعی ریونیو کا تخمینہ 19 ہزار 278 ارب روپے لگایا گیا ہے، ٹیکس وصولی میں صوبوں کا حصہ 8206 ارب روپے جبکہ نیٹ ریونیو وصولی کا تخمینہ 11 ہزار 72 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1468 ارب 39 کروڑ روپے آمدن کا تخمینہ، گیس ڈیولپمنٹ سر چارج کی مد میں 49 ارب 43 کروڑ روپے آمدن کا تخمینہ، سٹیزن شپ، نیوٹرلائزیشن اور پاسپورٹ فیس سے 76 ارب 50 کروڑ روپے آمدن کا تخمینہ، خام تیل پر رائلٹی کی مد میں 69 ارب روپے آمدن کا تخمینہ، قدرتی گیس پر رائلٹی کی مد میں 138 ارب روپے آمدن کا تخمینہ، ایل پی جی پر پیٹرولیم لیوی سے 5 ارب روپے آمدن کا تخمینہ، کیپٹو پاور پلانٹس پر لیوی سے 105 ارب روپے آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق موبائل ہینڈ سیٹ پرلیوی سے 12 ارب روپے آمدن کا تخمینہ، اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے فیس وصولیوں کا تخمینہ 17 ارب 73 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور تمام سیلری سلیب پر 2.5 فیصد ٹیکس کم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
گریڈ 1 تا 16 کے ملازمین کو 30 فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس دیے جانے کی بھی تجویز جبکہ پینشن میں بھی 10 فیصد اضافے کا امکان ہے۔
پیٹرولیم لیوی 78 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر ایک سو روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز اور پیٹرولیم مصنوعات صرف ڈیجیٹل ادائیگی سے خریدی جا سکیں گی، پیٹرولیم مصنوعات پر فی لیٹر ڈھائی روپے کاربن لیوی لگانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
نان فائلرز کے لیے بینک سے 50 ہزار روپے سے زیادہ کیش نکلوانے پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 1 اعشاریہ 2 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
یوٹیوبرز، فری لانسرز اور نان فائلرز پر نئے ٹیکس اقدامات متوقع ہیں جبکہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 8 ہزار 207 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، دفاع کےلیے 2 ہزار 550 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
دستاویز کے مطابق صوبوں اور اسپیشل ایریاز کے لیے 253 ارب 23 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز اور صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر 105 ارب 78 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے جائیں گے۔
انضمام شدہ اضلاع کے لیے 65 ارب 44 کروڑ روپے سے زیادہ جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 82 ارب روپے مختص کیے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
فیڈرل ایجوکیشن اور پروفیشنل ٹریننگ کے لیے 18 ارب 58 کروڑ سے زیادہ، ڈیفنس ڈویژن کے لیے 11 ارب 55 کروڑ روپے اور پاور ڈویژن کو آئندہ مالی سال 90 ارب 22 کروڑ روپے دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
دستاویز کے مطابق آبی وسائل ڈویژن کو آئندہ مالی سال 133 ارب 42 کروڑ روپے، ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 70 ارب 38 کروڑ روپے اور صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 2869 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
وفاقی وزارتوں اور ڈویژن کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 682 ارب سے زیادہ، حکومتی ملکیتی اداروں کے لیے 35 کروڑ روپے سے زیادہ، این ایچ اے کو آئندہ مالی سال 226 ارب 98 کروڑ روپے اور آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 1ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 39 ارب 48 کروڑ روپے سے زیادہ اور ریلوے ڈویژن کو 22 ارب 41 کروڑ روپے، پلاننگ ڈیولپمنٹ کو 21 ارب روپے سے زیادہ ملیں گے۔
دستاویز کے مطابق نیشنل ہیلتھ کو 14 ارب 34 کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں ملیں گے جبکہ وزارتِ داخلہ کو 12 ارب 90 کروڑ اور وزارتِ اطلاعات کو 6 ارب روپے سے زیادہ ملیں گے۔
ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں6 فیصد اضافے کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے یہ اضافہ 10 فیصد کر دیا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیرِ اعظم نے پنشن میں اضافہ بھی 7 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کر دیا۔