• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پاکستان: انسان پر سرمایہ کاری کیوں نہیں‘‘

قربانیوں کی عید سے دو روز بعد ہی بجٹ 2025-26 ءمیں واضح کر دیا گیا ہے کہ 25کروڑ کو مزید قربانیاں دینا ہونگی۔ اپنے وسائل ہم بھرپور انداز میں استعمال نہیں کرینگے قدرتی وسائل اور انسانی وسائل ہمارا انتظار کرتے رہیں گے عالمی بینک اور دوسرے اقتصادی تحقیقی ادارے کئی سال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان انسانوں پر سرمایہ کاری نہیں کر رہابلکہ وہ اسے Human Capital Crisisانسانی قوت کا بحران قرار دیتے ہیں اور بار بار نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں قدرتی اور انسانی وسائل بے شمار ہیں لیکن نہ تو پائیدار ترقی کی حکمت عملی ہے اور نہ ہی طویل المیعاد افرادی قوت کی منصوبہ بندی۔ اسکے اسباب میں سر فہرست کرپشن، اسکے بعد کمزور حکمرانی اور متبادل راستے تلاش کرنے کا عدم رجحان۔ ایک مملکت کی طاقت اسکے عوام ہی ہوتے ہیں وہی کسی ملک کو خوشحال بنا سکتے ہیں اگر انہیں فیصلہ سازی میں شریک نہ کیا جائے تو ملک میں بدحالی اور سیاسی عدم استحکام لازمی نتیجہ ہوتے ہیں، قدرتی وسائل ملکوں کو صدیوں سے نصیب ہوتے ہیں اور وہ نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں یہ حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اس قیمتی ورثے کو اپنی پیش رفت کی بنیاد بنائیں۔ ہم کہہ تو دیتے ہیں کہ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں لیکن حکمران طبقوں کی کوششیں 1985سے یہی ہیں کہ اس سرچشمے سے طاقت چھین لی جائے امریکہ یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسانی خام مال پر جتنا سرمایہ لگایا جائے گا جتنی پالیسیاں انسانی وسائل کی بہبود کیلئے تشکیل کی جائیں گی اتنا ہی ملک ترقی کرے گا۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال کہہ گئے تھے ’’افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر... ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ اب ذرا غور کیجئے اقبال کے اس فرد کو پاکستان میں کیا حیثیت حاصل ہے اور جبکہ ہماری60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے یہ اللہ تعالی کی خصوصی عنایت ہے مگر کیا ہماری ریاست ریاست کے ادارے حکمران طبقے ہماری سیاسی پارٹیاں انسانی وسائل پر پوری توجہ دیتی ہیں۔ انسانی کیپیٹل پر سرمایہ کاری کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہوئے اسے کار آمد شہری بنانے کیلئے پالیسیاں وضع کی جائیں پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو ویسے ہی توجہ کا حصہ بہت کم ملتا ہے اور اس کم حصے میں سے بھی ریاست ایک بچے کو صرف 41فیصد توجہ دے پاتی ہے تو ہر بچے کے ساتھ 55 فیصد خسارہ چلتا ہے پنجاب کے سب سے بڑے صوبے میں بچوں کی بڑی تعداد کی پیدائش غیر تربیت یافتہ طبی عملے کے ہاتھوں ہوتی ہے انہیں پوری خوراک بھی نہیں ملتی پھر انکی تعلیم کا اہتمام نہیں ہے۔1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے بعد خاص طور پر تحقیق کر لیں کہ ساری سرمایہ کاری اشرافیہ یا چند خاندانوں پر ہو رہی ہے پہلے تو یہ یقین کیا جاتا ہے کہ جمہوری اداروں تک یہی لوگ پہنچیں پھر وہاں ان کی تنخواہوں اور مراعات میں بے حساب اضافہ کیا جاتا ہے اعلیٰ سرکاری افسروں کو مفت پٹرول، مفت رہائش، مفت ملکی وغیرملکی سفر کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں قربانیاں اکثریت دیتی ہے حکمرانی اقلیت کرتی ہے۔ اس طرح امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے ہر مہینے ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے جا رہی ہے اس بجٹ کے نتیجے میں بھی غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا 2024.25کے مالی سال میں بھی انسانی وسائل کو ترجیح نہیں دی گئی ہے اسی لیے ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے، شرح نمو وقت کے مطابق نہیں ہے، معیاری تعلیم اکثریت کو نہیں مل رہی ،علاج معالجہ بھی تسلی بخش نہیں، سماج آگے نہیں بڑھ رہا، خاندانی منصوبہ بندی نہیں ہے 24مئی 2025ءکو عالمی بینک کی منیجنگ ڈائریکٹر نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا مختلف منصوبوں کا مشاہدہ کیا انکے تاثرات بھی یہی ہیں کہ پاکستان میں پائیدار ترقی غربت کے خاتمے کیلئے ہمہ جہتی اصلاحات کی ضرورت ہے انسانی وسائل کی بہبود ناگزیر ہے اپنی رپورٹ میں انہوں نے پاکستان کو ترجیحات کے تعین کا بھی مشورہ دیا ہےضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو تحقیق کے ذریعے بتائیں کہ اپنے انسانی اور قدرتی وسائل کو بھرپور استعمال کرنے والے ممالک میں ایک انسان کو کیا کیا سہولتیں حاصل ہیں۔ ان ممالک میں روس آسٹریلیا، امریکہ اور کینیڈا سر فہرست ہیں، سویٹزر لینڈ، جرمنی اور جاپان بھی ان قوموں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی پسماندگی کو تخلیقی مہارت ندرتِ فکر اور ٹیکنالوجی سے دور کیا۔ مسلمہ طور پر پاکستان ان بدقسمت ملکوں میں شامل ہے جہاں قدرتی اور انسانی وسائل کو پوری طرح استعمال نہیں کیا جاتا۔ 78سال میں پورا سونا نکال سکے نہ تانبہ نہ دوسری دھاتیں۔ قیمتی پتھر بھی ہماری غفلت کا شکار ہیں ہماری زرعی زمینیں سونا اگلتی ہیں لیکن ان کی پیداوار فی ایکڑ ایشیا کے کئی ملکوں سے کم ہے۔ ایک تحقیق میں یہ اعداد و شمار بھی دیے گئے کہ پاکستان میںHuman capital index جنوبی ایشیا کی اوسط0.48سے بھی کم ہے نیپال میں 49. 0.ہے بنگلہ دیش میں 0.46پاکستان میں صرف0.41۔ اس غفلت کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے حکمران طبقہ ہی اس وقت تک سب فیصلے کر رہا ہے یہ دیکھنا ہو گا کہ دنیا بھر کی مجوزہ پالیسیوں کو یہ طبقہ نظر انداز کیوں کرتا ہے تاریخ میں انکی کوشش یہی رہی ہے کہ یہ وسائل پر اپنا قبضہ جاری رکھیں تاکہ انسانی کیپیٹل پر سرمایہ کاری نہ ہو اور اکثریت کو تعلیم، صحت ہنر مندی اور سماجی ترقی نصیب نہ ہو سکے سیاسی افراتفری اسی طرح برپا رہے پاکستان کی اکثریت کو خوشحالی امن چین سکون مالی فراوانی صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ انسانی وسائل پر سرمایہ لگایا جائے انہیں معیاری خوراک، معیاری علاج معالجہ، معیاری تعلیم مہیا کی جائے، روزگار کے نئے نئے مواقع تلاش کیے جائیں پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ہم برسوں سے اپنے انسانی اور قدرتی وسائل کا پورا استعمال نہیں کر رہے، ہمارے کھیت زیادہ اناج زیادہ فصلیں پیدا کر سکتے ہیں، ہمارے کارخانے زیادہ مصنوعات تیار کر سکتے ہیں، ہمارے افراد اور خاص طور پر نوجوان زیادہ تخلیقی ندرت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو اب سوچنا یہی ہے کہ کیا حکمران طبقے کی سوچ بدل سکتی ہے اس کا جواب ہاں میں نہیں ہے اس لیے اکثریت یعنی افرادی قوت کو خود ہی طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنا ہوگی اب تو مصنوعی ذہانت سے بھی اس جدوجہد میں بھرپور تعاون حاصل ہو سکتا ہے سوشل میڈیا کو صرف لطیفوں کارٹونوں اور من گھڑت تصویروں ویڈیوز تک محدود نہ رکھیں۔ دنیا بھر کی معلومات سے استفادہ کریں۔ حکمرانوں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے ذہن میں جھانکیں گوگل کے دروازے پر دستک دیں۔ 2047ءمیں پاکستان سینچری کی کامیابی کی کلید ہماری نوجوان آبادی کے ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے نوجوان جانتے ہیں کہ خوشحالی کی منزل کن راستوں سے حاصل ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین