• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پتا نہیں کیوں مجھے ایسا لگا کہ شائد لاہور میں اِس بار عید الاضحی کینسل ہو گئی ہے۔ دن میں تین چار بار مجھے کڑکتی دھوپ میں باہر جانے کا اتفاق ہوا، شوق شوق میں شہر کی مختلف سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا لیکن وہ عید قرباں جیسی بات نظر نہیں آئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کئی سال پہلے لاہور میں عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی آلائشیں سڑکوں پر پڑی ہوتی تھیں اور باآسانی پتا چلایا جاسکتا ہے کہ اِس علاقے میں کتنے ویہڑے، کتنے بکرے اور کتنے چھتروں کی قربانی ہوئی ہے۔ فضا میں اِن آلائشوں کی ایک خاص بو پھیلی ہوئی ہوتی تھی۔ لیکن اِس بار تو آنکھیں ترس گئیں انتڑیاں دیکھنے کو۔ اچھے کام کی تعریف ضرور کرنی چاہیے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے جس طرح سے شہر کو صاف ستھر ا رکھا اس کیلئے بہت سی داد۔ عید سے ایک روز قبل LWMC کے ورکرز نے بڑے بڑے ویسٹ بیگز گھروں میں پہنچائے تاکہ جانوروں کی آلائشیں وغیرہ اس میں ڈال دی جائیں۔ اور عید کے روز یہی سٹاف گھر گھر جاکر یہ بیگز وصول کرتا رہا۔ ایک بات کا مجھے خدشہ تھا کہ کہیں صفائی کی اس مہم کا دائرہ نسبتاً صاف علاقوں تک تو محدود نہیں، لہٰذا میں نے اندرون شہر کے احباب کو بھی فون کر کے معلومات لیں اور دل خوشی سے بھر گیا کہ تقریباً ہر جگہ یہی صورتحال تھی۔ اس حوالے سے ہیلپ لائن نمبر بھی بیگز پر موجود تھا تاکہ جہاں یہ بیگز نہیں پہنچے وہ فون کر کے یہ بیگز منگوا لیں۔ میں نے عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر چیک کرنے کے لیے یہاں کال کی اور پوچھا کہ اگر میرے گھر ویسٹ بیگ نہ پہنچا ہو تو مجھے کیا کرنا چاہیے۔ حیرت انگیز طور پر بڑے میٹھے لہجے میں جواب آیا کہ یہ ویسٹ بیگز ہر علاقے کی یونین کونسل کے دفتر سے مفت حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اگر وہاں نہیں جا سکتے تو اپنا ایڈریس لکھوا دیجئے، شام تک بیگ آپ کے گھر پہنچ جائیں گے۔ صفائی ستھرائی لاہور کا کریڈٹ بن چکی ہے اور یہ سلسلہ کچھ سال تک تواتر سے جاری رہا تو کچھ ضدی لاہوریوں کو بھی صفائی ستھرائی کی عادت پڑ جائے گی۔ کچرا پھینکنے والے اگر نہیں سدھریں گے تو جتنی مرضی مشینیں لگا لیں، ورکرز لگا لیں، صفائی ممکن نہیں۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ جب سڑکوں پر آلائشیں وغیرہ پھینکی جاتی تھیں تو پرندوں کے بھی جھنڈ کے جھنڈ اکٹھے ہو جایا کرتے تھے، اِس بار اُنہیں بھی مایوسی ہوئی۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ ساری آلائشیں نہ صرف اٹھائی گئیں بلکہ ٹھکانے بھی لگائی گئیں۔ دوسری اچھی بات یہ دیکھنے کو ملی کہ جب ہماری طرف LWMC کا سٹاف آیا تو میں نے انہیں ٹھنڈا پانی پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جس گھر میں بھی پلاسٹک بیگز دینے جا رہے ہیں وہاں اسی طرح لوگ پیار محبت سے اُنہیں پانی کا پوچھتے ہیں لہٰذا اُن کی گاڑی میں یخ پانی کی دو بوتلیں ابھی تک موجود ہیں۔ یہ سینٹری ورکرز پیار کے دو بولوں سے پگھل جاتے ہیں اور انہیں بھی احساس ہوتا ہے کہ یہ بھی اِس ملک میں برابر کے شہری ہیں۔

لاہور کی صفائی میں LWMC کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ ادارہ محکمہ بلدیات کے زیر انتظام کام کرتا ہے اور اسکے ذمہ شہر میں ویسٹ کولیکشن، مکینکل سوئیپنگ، مکینیکل واشنگ، مینوئل سوئیپنگ، سبزی اور فروٹ منڈی کے آپریشنز سمیت شہر میں مختلف اقسام کے سپرے اور صفائی کے دیگر انتظامات شامل ہیں۔ اس ادارے کے پندرہ ہزار ورکرز اور سو فیصد مشینیں 24گھنٹے متحرک رہتی ہیں۔ یہی ادارہ ہسپتالوں کا کچرا بھی ٹھکانے لگاتا ہے۔ جتنی تعداد میں لاہور میں جانور قربان ہوئے ہیں اُس لحاظ سے یہ ایک نہایت مشکل ٹاسک تھا کہ شہر میں اِن کی آلائشوں کا کوئی نام و نشان تک نظر نہ آئے۔ لیکن یہ ہوا ہے اور لاہوریوں کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔ شہر صاف ہوں تو ایک عجیب سی تازگی کا احساس دیتے ہیں۔ کاش لاہور کی یہ صفائی پورے پاکستان میں دیکھنے کو ملے، ہر جگہ کچرے سے پاک ہو، سڑکیں تاحد نظر کشادہ اور چمکدار نظر آئیں اور ماحول میں پاکیزگی ہی پاکیزگی ہو۔ چھوٹی موٹی ٹافیاں، جوس کے ڈبے یا چپس کے خالی پیکٹ سڑک پر پھینکنا ہمارا عمومی مزاج ہے ہم تو ابھی نصف ایمان تک بھی نہیں پہنچے باقی تو بہت مشکل مراحل ہیں۔ آپ نے جا بجا ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو گاڑی میں ایش ٹرے موجود ہونے کے باوجود سگریٹ کی لاش اپنے زور بازو سے سڑک کنارے پھینک جاتے ہیں۔ LWMC کے چیئرمین بلال ذوالفقار علی صاحب ہیں جن سے میری کوئی ملاقات تو نہیں لیکن ان کا عمومی تاثر ایک فرض شناس اور محنتی انسان کا ہے۔ اُنہیں بھی بہت مبارک اور انکے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی، جن کی دن رات کی محنت رنگ لائی۔ ہم لوگ عموماً صفائی نہ ہونے پر تو کالم لکھتے ہیں، تنقید کرتے ہیں لیکن اگر واقعی بہترین کام ہو رہا ہو تو اسے خاطر میں نہیں لاتے کہ یہ صحافتی آداب کے ’منافی‘ ہے۔ عید کی شام دوست احباب کے ہمراہ گزری، وہاں بھی یہی موضوع زیر بحث رہا اور سب نے کنفرم کیا کہ اس بار صفائی لاجواب تھی۔ لاہور جیسے شہر بے مثال کو ہر وقت موتیوں کی طرح چمکتا دیکھنا بہت سے لوگوں کا خواب تھا جو شائد اُن کی زندگی میں ہی پورا ہو رہا ہے ورنہ چند برس قبل لاہور کی جو حالت تھی اس حوالے سے معروف کامیڈین امانت چن کا ایک ڈائیلاگ یاد آ گیا، کہنے لگے کہ ’میں پہلی بار لاہور سے لندن گیا تو وہاں اتنی صفائی تھی کہ میرا دم گھٹنے لگا‘…

تازہ ترین